اصل مقصد

726

عمیمہ خان
پیارے بچو! بادشاہت بھی کیا خوب شے ہے خواہ انسانوں پر ہو یا جانوروں پر، اس کا کوئی ضابطہ نہیں ہوتا یہی قدر مشترک دونوں بادشاہتوں میں ہے ویسے تو جنگل کا قانون کا بہت ذکر ہوتا ہے قانون وہی ہوتا ہے جو بادشاہ سلامت ’’شیر‘‘ کی مرضی اور خواہش ہوتی ہے من پسند جانوروں کا شکار کرنا اور ان پر اپنی ہیبت قائم رکھنا یہ بادشاہ سلامت کا کام ہوتا ہے جبکہ انسانوں یعنی ملکوں کے بادشاہ بھی اپنی خواہش، مرضی اور حماقتوں میں خود مختار ہوتے ہیں بادشاہتیں تو انسانی معاشرے سے ختم ہو کر جمہوری طرز اختیار کر چکی ہیں جس میں عام آدمی کو صرف اور صرف ووٹ کی جزوی آزادی ہوتی ہے باقی کام جمہوری طرز کے بادشاہوں کی مرضی سے ہوتے ہیں لیکن ہاں ان احمقانہ فیصلوں میں ان کے کچھ قریبی ساتھیوں کی مرضی شامل ہوتی ہے یعنی وہ اس میں شراکت دار ہوتے ہیں۔
ہم جس بادشاہت کا ذکر کر رہے ہیں وہ گئے زمانے کی بادشاہت ہے جو اب دم توڑ چکی ہے اسے ہی ایک بادشاہ جس کے خوف و جلال سے سلطنت کے باشندے خوف سے کانپتے تھے اور در باری بھی ہر وقت خوف کی کیفیت میں رہتے کہ نا جانے بادشاہ سلامت کس وقت کس خواہش کا اظہار کر دیں اور کس کام کو کہہ دیں جو ان کے بس سے باہر ہو اور ان کی گردن کٹوا دی جائے بادشاہوں کا بھی عجیب ہی طرز رہا ہے اپنی ایک دن بادشاہت میں چمڑے کے سکے چلوا دیے ویسے گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے بادشاہ کا دربار سجا ہوا تھا درباری حاضر تھے اور بادشاہ کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے جس کے انصاف، زواری اور عقل مندی کی تعریف کررہے تھے ایسے میں بادشاہ سلامت نے ایک اشارہ کیا اور پورا دربار خاموش ہو گیا بادشاہ سلامت کی آواز گونجی۔ سات دریا کے پار… ایک محل میں تاج جولائے اقتدار پائے کچھ توقف کے بعد بادشاہ سلامت نے کہا کہ جو اس مہم کو سر کرنا چاہتا کل تک خود کو پیش کردے تاکہ انہیں شرائط اور سے آگاہ کیا جائے دربار برخاست ہو گیا۔
دوسرے روز جب دربار سجا تو ایک درجن نوجوانوں نے اس مہم کے لیے خود کو پیش کیا اور شرائط سے آگاہی چاہی بادشاہ سلامت نے کہا کہ مہم کے لیے ایک ماہ کا عرصہ دیا جائے گا یہ محل ہماری سلطنت سے شمال کی طرف ایک پہاڑی پر واقع ہے وہاں تک پہنچنا اتنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ درمیان میں کئی دریا حائل ہیں، زمینی سلسہ بھی دشوار گزار ہے جو کامیاب رہے گا اسے اقتدار دیا جائے گا یعنی بادشاہت اس کا حق ہوگا مال زر وجواہر اس کی نذر کیے جائیں گے اور میرے بعد وہ اس سلطنت کا بادشاہ ہو گا کیونکہ میری اولاد نہیں ہے بادشاہت تو کسی کو منتقل کرنا ہی ہے اور جو ناکام رہے گا اسے قتل کر دیا جائے گا بادشاہ سلامت کا اعلان سننے کے بعد دربار میں ایک خاموشی چھا گئی اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ دلاور نامی نوجوان کے علاوہ سب دشوار گزار سفر اور موت کی سزا کے باعث دست بردار ہو گئے دلاور نے ہمت نہ ہاری اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس مہم پر روانہ ہوگا اور کامیاب لوٹے گا ورنہ آگے تو موت یقینی ہے سزا کے طور پر ملنے والی موت سے بہتر ہے کہ موت مہم کی سر کرنے میں ہی آجائے۔
اگلے دن صبح سویرے دلاور نے چند روز کا کھانے پینے کا سامان لے کر سفر کا آغاز کیا دلاور کو اس کے دوستوں اور گھر والوں نے مہم سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر دلاور دھن کا پکا تھا مہم پر روانہ ہو گیا دشوار گھاٹیوں کو طے کرتے ہوئے دریائوں کو عبور کرتا وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کئی دن کی مسافت کے بعد وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک پہاڑی پر محل نظر آ رہا تھا وہ محل کی طرف جا رہا تھا کہ اسے ایک بزرگ ملے انہوں نے کہا کہ میاں کہاں کا ارادہ ہے دلاور نے اپنی مہم کا اظہار کرتے ہوئے انعامات اور بادہشاہت ملنے کی بات بتائی بزرگ اسے اپنی جھونپڑی میں لے گئے اور کہا کہ میاں ایک دشوار کام ہے اس محل پر جنات کا قبضہ ہے وہ اس طرف کسی کو نہیں جانے دیتے جو بھی محل کی طرف جاتا ہے موت کی وادی میں پہنچا دیا جاتا ہے تم مال و زر اور دنیا کی حکمرانی کے لیے یہ مشکل کام کیوں لے لیا بزرگ نے کہا کہ یہ دنیا اور دنیا کی بادشاہت مال و زر سب عارضی ہے اسے فضول کام کے لیے اپنی جان گنوانا کوئی اچھی بات نہیں اپنی محنت سے جو دولت حاصل ہو وہ اصل دولت ہے اس طرح اتفاقاً مل جانے والے مال زر کا کیا فائدہ تم ایسا کرو اپنی اس مہم سے باز آئو اور واپس لوٹ جائو۔ دلاور نے کہا کہ اب اپنی مہم سے رک نہیں سکتا کیونکہ ناکام واپس جائوں گا تو موت ہے اور کہیں فرار ہو جائوں گا تو ایک بزدل فرد کہلوائوں گا۔ لہٰذا میں اپنی جان کی بازی لگا کر تاج حاصل کرنے کی کوشش کروں گا رہی یہ بات ایک حقیقت ہے کہ دنیاوی بادشاہت اور مال زر سب عارضی ہیں میں اپنے مشن میں کامیابی کے بعد بادشاہ کے روبرو اس بادشاہت اور مال زر سے دست بردار ہو جائوں گا کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھائوں گا۔
بزرگ نے دلاور کی بات سننے کے بعد کہا کہ ایسا ہے تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا تم ایسا کرو کے یہاں اس چھونپڑی میں قیام کرو جنات ہفتے میں ایک روز صبح سے شام تک عبادت میں مصروف ہوتے ہیں اور محل کو چھوڑ کر دور چلے جاتے ہیں اس دن ہی تم تاج حاصل کر سکتے ہو اس دن کا میں تم کو بتائوں گا اور یہاں سے نکلنے کا راستہ اور سفر کی سہولت فراہم کروں گا تم اس دن کا انتظار کرو۔ فی الحال کھائو پیو اور آرام کرو ۔ تم ایک حوصلہ مند نوجوان ہو اس لیے مدد کر رہا ہوں ورنہ میں ان فضول کاموں میں نہیں پڑتا ان فضول کاموں سے عبادات میں فرق پڑتا ہے اور دنیا کی لالچ پیدا ہوتی ہے اور تم بھی اپنے وعدے پر قائم رہنا، اقتدار اور مال زر قبول نہ کرنا بلکہ اقتدار سے دست بردار ہو کر حاصل شدہ مال زر ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دینا اللہ تمہاری زندگی کو خوش و خوشحال کرے گا لالچ سے دور رہنا دنیا کا حصول زندگی کا اصل مقصد نہیں ہے۔
کچھ دن ہی گزرے تھے کہ وہ وقت آگیا محل کے محافظ (جنات) عبادت میں مصروف ہوئے بزرگ نے دلاور سے کہا کہ تم اپنا کام کرو اور تاج لے کر اپنے ملک لوٹ جائو دلاور نے ایسا ہی کیا وہ تاج لے کر ایک ماہ سے کم مدت میں جب اپنے ملک لوٹا تو بادشاہ نے آئندہ بادشاہت کے لیے دلاور کا اعلان کیا اور مال زر سے لدے اونٹ اس کے حوالے کیے۔ دلاور نے بادشاہت سے دست برداری کا اعلان کیا اور تمام مال و زر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا ۔

حصہ