وفاق اور سندھ میں تصادم کا خطرہ بڑھ گیا

539

نصیر احمد سلیمی
وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چودھری نے صدارتی نظامِ حکومت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم پر اپنی پارٹی اور وزیراعظم کے مؤقف کے حوالے سے یو ٹرن لے کر اس کا سارا ملبہ اپوزیشن پر ڈال دیا۔ چلو اچھا ہوا‘ اُن کو احساس ہو گیا کہ یہ بھاری پتھر ہے جو اُن سے اٹھنے والا نہیں ہے۔ مگر اس کا کیا جائے تحریک انصاف سندھ کی قیادت اور ایم کیو ایم نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ترمیم کرانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم نے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف وزیراعظم سے 149 کے تحت مداخلت کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کا مؤقف ہے کہ ’’اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے تعلیم‘ صحت اور لیبر کے محکموں سمیت کئی دوسرے محکمے واپس وفاق کے پاس جانے چاہیے۔‘‘ جس کے بعد کئی دن سے سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت اور حزب اختلاف باہم دست و گریباں ہیں۔ نوبت سندھ اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف (ان کے ایک انٹرویو‘ جس میں بھارتی انتخاب کے حوالے سے انہوں نے رائے دی تھی کہ اگر مودی کامیاب ہو گیا تو کشمیر کے مسئلے کا حل نکلنے کا زیادہ امکان ہے) قرارداد مذمت منظور ہوگئی ہے جس کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی‘ مگر اس کا کیا جائے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے سندھ کے منتخب وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے خلاف دشنام طرازی اور غیر مہذب لب و لہجہ اختیار کرنے میں پہل کی تھی۔ سندھ میں تحریک انصاف کی قیادت کا اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ترمیم کا مطالبہ نہ تو غیر آئینی ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم ناممکن ہے مگر اس وقت یہ بے وقت کی راگنی ہے کیوں کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی ارکان کی اکثریت نہ تو ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ دستور میں کسی پرانی آئینی ترِمیم یا کوئی بھی آئینی ترمیم دستور کے طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق ہو سکتی ہے۔ سوائے دستور کے ’’اساسی خدوخال کے (جس کی تشریح سپریم کورٹ متعدد بار کر چکی ہے۔)
سندھ حکومت تو پیپلزپارٹی کے پاس ہے مگر تحریک انصاف کے پاس مرکز کے علاوہ خیبر پختونخوا‘ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں موجود ہیں۔ اگر وہ واقعی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے محکمے‘ جن میں تعلیم‘ صحت‘ لیبر اور دیگر محکمے شامل ہیں‘ وفاق کو واپس کرنا چاہتی ہے تو پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے قراردادیں پاس کروائے۔ سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کی بے وقت کی راگنی نے اندرون سندھ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیانیہ کو تقویت فراہم کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کر کے ’’ون یونٹ‘‘ ٹائپ کا نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ حکومتی ترجمان بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں جو چاہیں تبصرے کریں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیانیہ اندرون سندھ پیپلزپارٹی کے جیالوں کو متحرک کر رہا ہے۔ 4 اپریل کو پیپلزپارٹی کے بانی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کی برسی کا شو بھی ہوا اور بعدازاں گھوٹکی میں وزیراعظم عمران خان کے جلسے کے مقابلے میں اس سے کہیں بڑا شو آف پاور اس بیانیہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے لاڑکانہ ٹرین کا سفر اور لاڑکانہ سے گھوٹکی بائی روڈ سفر کے ذریعے ناراض ‘ مایوس اور غیر فعال ہوجانے والے جیالوں کو فعال کرکے اس ’’تاثر‘‘ کو ختم کر دیا کہ اگر آصف علی زرداری یا وہ خود گرفتار ہوگئے تو سندھ کے بااثر خاندان پیپلزپارٹی کو داغِ مفارقت دے کر تحریک انصاف میں چلے جائیں گے۔ اندرون سندھ یہ تاثر وزیراعظم کے جلسے نے پیدا کر دیا تھا۔
سندھ اسمبلی نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف بھی قراردادِ مذمت پاس کی ہے۔ خالد مقبول صدیقی موجودہ ایم کیو ایم کے سربراہ بھی ہیں اور وفاقی کابینہ میں آئی ٹی کے وزیر بھی‘ ان کے خلاف قراردادِ مذمت ان کے اس بیان پر ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’سندھ دیہی‘ شہری کی بنیاد پر تقسیم ہو چکا ہے جس کا اعلان ہونا باقی ہے۔‘‘ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس بیان پر پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی اور کی بھی حکومت ہوتی تو اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی طرف سے یہی ردعمل آنا تھا۔
گزشتہ 30 سال میں ایم کیو ایم اپنی وقتی ضرورتوں اور مفادات کے لیے کبھی سندھ کی تقسیم اور کبھی سندھ کو تقسیم کرنے کا سوچنے والوں کے خلاف پیپلزپارٹی کے ساتھ سینہ سپر ہونے کا اعلان کرتی رہی ہے۔ لگتا ہے اس وقت ایم کیو ایم نے یہ بیان خوب سوچ سمجھ کر دیا ہے۔ سندھ وہ بدقسمت صوبہ ہے کہ جسے کئی عشروں سے اس کے دیہی سندھ اور شہری سندھ سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اور ’’طاقت ور فیصلہ ساز‘‘ وقتی ضرورتوں اور گروہی مفادات کے خاطر غلط پالیسی اورعاقبت نااندیش فیصلوں کے ذریعے دیہی اور شہری کی تقسیم کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ 1988ء سے 2018ء تک انتخابی منظر نامہ اسی بنیاد پر تخلیق کیا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے ایم کیو ایم کے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کرانے اور 149 کے تحت وزیراعظم سے سندھ میں مداخلت کرنے کے مطالبہ کا یہ بھی وقتی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم 1988ء سے 2013ء تک وفاق اور سندھ میں بننے والی بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ جنرل (ر) پرویز مشرف اور آصف علی زرداری تک کی تمام مخلوط حکومت میں شامل رہی ہے۔ 2010ء میں وہ وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومتوں میں پیپلزپارٹی کی بڑی مضبوط پارٹنر تھی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم پاس کرانے میں وہ بڑی پُرجوش تھی‘ اسے پاس کرانے میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ مگر اس نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں شہری سندھ کے باسیوں کے جائز حقوق کے تحفظ کی وہ ضمانت بھی حاصل نہیں کی جس کا فارمولا1972ء میں شہری سندھ سے منتخب ہونے والی مختصر سی حزب اختلاف اور دانشوروں نے ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) سے مذاکرات کے ذریعے طے کرا لیا تھا۔ بھٹو کے ساتھ اُس فارمولے پراتفاق ہوا تھا اس کے مطابق اگر سندھ کا وزیراعلیٰ پرانا سندھی ہوگا تو گورنر نیا سندھی ہوگا۔ چیف سیکرٹری نیا سندھی ہوگا تو آئی جی پرانا سندھی ہوگا‘ کمشنر پرانا سندھی ہوگا تو اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز نئے سندھی ہوں گے۔ ڈویژن کا ڈی آئی جی پرانا سندھی ہوگا تو اضلاع میں ایس ایس پی نئے سندھی ہوں گے۔ تحصیل کی سطح تک یہی فارمولا طے ہوا تھا۔ اسی فارمولے پر عمل درآمد کے لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کو گورنر شپ قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بیگم رعنا لیاقت (ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان کی بیوہ) کے گھر جانا پڑا تھا۔ اگر اس فارمولے پر خلوص نیت کے ساتھ عمل ہوتا تو دیہی سندھ کا سرکاری ملازمتوں اور میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں 60 فیصد کوٹہ وہ نتائج پیدا کرتا جس مقصد کے لیے 1973ء کے دستور میں دس سال کے لیے یہ کوٹہ رکھا گیا تھا۔ 1977ء کا مارشل لاء نہ لگتا تو پیپلزپارٹی کے لیے 1983 کے بعد پارلیمنٹ سے اس کی معیاد میں توسیع کرانا اتنا آسان نہ ہوتا جتنی آسانی سے جنرل ضیا الحق کی مارشل لاء حکومت نے 1983 میں مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک کے خوف کی وجہ سے کسی آئینی جواز کے بغیر مزید دس سال کی توسیع انتظامی حکم کے ذریعے کر دی گئی تھی۔ 1993ء میں توسیع کی معیاد ختم ہوئی تو میاں نواز شریف کی حکومت نے سندھ کی صوبائی حکومت کو ناراض نہ کرنے کے لیے کوٹہ سسٹم کو مزید 20 سال کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری دلوا دی تھی۔ اب 2013 کے بعد سے کوٹہ سسٹم ختم ہو چکا ہے مگر بدقسمتی سے سندھ کے شہری علاقے کے باسی ہنوز میرٹ کی بنیاد پر اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں۔ ایم کیو ایم نے تو جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھی سندھ کے شہری علاقے کے باسیوں کو میرٹ اور انصاف کی بنیاد پر اس کے جائز حقوق بحال نہیں کرائے تھے جب کہ عملاً سندھ میں دیہی سندھ وزیرعلیٰ کے سپرد اور شہری سندھ گورنر کے سپرد کر کے تقسیم اختیارات کا متوازی ماروائے آئین بندوبست محض ذاتی اور گروہی مفادات کے خاطر وضع کیا گیا تھا‘یہی تو نظام تھا جس کا آج ایم کیو ایم وزیراعظم سے 149 کے تحت سندھ میں مداخلت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ 1988 سے 2007 تک ایم کیو ایم سندھ کی تمام مخلوط صوبائی حکومتوں میں جس میں سید قائم علی شاہ‘ جام صادق علی‘ سید مظفر علی شاہ‘ لیاقت جتوئی‘ سردار علی احمد مہر‘ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی حکومتیں تھیں اور 2008 سے 2013 تک وفاق میں محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید)‘ میاں محمد نواز شریف‘ مشرف دور میں ظفر اللہ جمالی‘ چودھری شجاعت حسین‘ شوکت عزیز اور بعدازاں 2008 سے 2013 تک آصف علی زرداری کے دور میں یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کی حکومت میں بھی بڑی مضبوط پارٹنر رہی۔ شہری سندھ کے باسیوں کے لیے جائز حقوق کی تو کوئی آئینی ضمانت حاصل نہ کی البتہ سرکاری زمینوں اور سرکاری وسائل کی بندر بانٹ میں تمام حکومتوں میں برابر کی شریک رہی۔ ایم کیو ایم سرکاری ملازمتوں اور چائنا کٹنگ میں ملوث ہونے کا الزام تو الطاف حسین نے خود ہی لگا دیا تھا۔ اب اس لوٹ مار اور بندر بانٹ کی تصدیق ایم کیو ایم خود الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں سلطانی گواہ بن کر کر رہی ہے کراچی بد امنی کیس میں سپریم کورٹ کے فاضل بنچ نے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے حوالے سے جو فیصلہ دیا تھا وہ خود ایک بڑی شہادت ہے کہ کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضے میں کون کون ملوث ہیں۔ 2010 میں معروف کالم نگار آنجہانی اردشیر کائوس جی نے اپنے انتقال سے کچھ عرصے قبل روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں اپنے کالم میں تفصیل کے ساتھ لکھا تھا کہ کس طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل تینوں پارٹیوں پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی نے رفاہی مقاصد کے لیے مختص تین ہزار سے زائد پلاٹوں پر جن میں پارکس‘ تعلیمی اداروں‘ اسپتالوں‘ بچوں کے کھیلنے کے میدان شامل تھے‘ قبضے کرکے یا تو اپنی اپنی جماعتوں کے وفاداروں میں تقسیم کیے یا فروخت کیے۔ کراچی سٹی گورنمنٹ کے سابق ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے ان رفاہی پلاٹوں کی واپسی کے لیے سپریم کورٹ میں کیس لڑا تھا۔ اس کیس میں سپریم کورٹ واضح طور پر فیصلہ دے چکی ہے کہ تمام سرکاری پلاٹوں پر قبضہ ختم کرا کے ان کو انہی مقاصد کے لیے استعمال میں لائے جس کے لیے یہ مختص کیے گئے تھے۔
یہاں یہ ذکر غیر ضروری نہیں ہوگا کہ کراچی میں اکتوبر 1958 سے قبل تک وزیر اعظم اور صدر مملکت بھی رفاہی مقاصد کے لیے مختص کوئی پلاٹ کسی کو الاٹ کرنے پر قادر نہیں تھے۔ 1958 سے قبل کراچی میں متعین اس وقت کے ڈپٹی کمشنر الطاف گوہر (مرحوم) نے لکھا ہے کہ ایک دن صدر مملکت اسکندر مرزا نے مجھے حکم دیا کہ میں نے کلفٹن میں ایرانی سفارت خانہ سے متصل پلاٹ ایرانی سفارت خانہ کو دے دیا ہے۔ تم اس پلاٹ کو الاٹ کرنے کی دستاویز تیار کرکے پیش کرو۔ الطاف گوہر نے اس پلاٹ کی فائل منگوائی تو یہ ایک بچوں کا پارک تھا جو قانون کے مطابق نہ کسی کو الاٹ کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا تھا‘ جس پر الطاف گوہر نے فائل پر لکھ دیا کہ ’’میں صدر مملکت کے حکم کی تعمیل کرنے سے معذور ہوں۔‘‘ اسکندر مرزا نے باز پرس کی تو الطاف گوہر کا جواب تھا کہ ’’جناب میں تو سرکاری مشینری کا ایک معمولی پرزہ ہوں‘ یہ پلاٹ تو صدر مملکت بھی کسی کو الاٹ کرنے کے مجاز نہیں ہیں کیوں کہ یہ بچوں کا پارک ہے۔‘‘
اس واقعے کو تحریر کرتے ہوئے الطاف گوہر (مرحوم) نے لکھا ہے کہ ابھی قاعدے قانون کے مطابق غلط کام کرنے سے انکار پر سرکاری ملازمین کی ’’زبان‘‘ گدی سے کھینچنے کی ریت نہیں پڑی تھی۔
کراچی کے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر الطاف گوہر (مرحوم) نے بچوں کے جس پاک کی فائل پر “No” لکھ کر الاٹ کرنے سے معذرت کی تھی‘ وہ پارک آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے جب کہ اس کے بعد اس شہر میں ایسے ہزاروں پلاٹوں کی بندر بانٹ ہو چکی ہے۔ 1958ء کے بعد رفاہی پلاٹ تو کیا سڑکوں تک پر پلازے کھڑے کر دیے گئے۔ کراچی میں سب سے پہلے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع جنرل پوسٹ آفس (GPO) کے برابر سڑک ختم کر کے جنرل ایوب خان (مرحوم) کی حکومت میں نجی شعبے میں چلنے والے آزاد اخبارات و جرائد کو سرکاری قبضے میں لے کر چلانے کے لیے ’’پریس ٹرسٹ‘‘ کے نام سے جو ادارہ قائم کیا گیا تھا‘ یہاں پریس ٹرسٹ ہائوس کی عمارت تعمیر کی گئی تھی‘ اب یہ پلازہ کسی اور ادارے کو فروخت ہو چکا ہے اور اس کا نام بھی تبدیل ہوگیا ہے۔
اس پس منظر کا ذکر اس وجہ سے ضروری تھا کہ آج بھی قاعدے قانون کے مطابق تو رفاہی مقاصد کے لیے کوئی مختص پلاٹ کسی دوسرے کو الاٹ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس قانون کی پابندی کسی سول حکومت نے کی ہے اور نہ کسی فوجی حکومت نے کی ہے۔

حصہ