اردو سرکاری زبان بننے کی اہلیت رکھتی ہے‘ اختر سعیدی

730

ڈاکٹر نثار احمد نثار
اختر سعیدی ایک کہنہ مشق شاعر و صحافی ہیں ابھی حال ہی میں روزنامہ جنگ کراچی سے ریٹائر ہوئے ہیں جب تک وہ نوکری میں رہے اخبار جنگ کی پالیسیوں پر عمل کیا اب صورت حال یہ ہے کہ وہ ہر موضوع پر کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ میرے دفتر تشریف لائے تو میں نے اردو زبان و ادب کی ترقی کے بارے میں ان کے خیالات معلوم کیے اور ان سے سوال کیا کہ کورٹ کے فیصلے کے باوجود اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ نہیں کیا جارہا اس کی وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اردو زبان ہمارا قومی اثاثہ ہے‘ اردو دلوں کو ملانے والی زبان ہے‘ اردو ہماری تہذیب و ثقافت ہے‘ اردو زبان مختلف تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا بنیادی وسیلہ ہے۔ اردو زبان پاک و ہند کی مشترکہ میراث ہے۔ یہ وہ مکالمات ہیں جو ہمارے دانشوروں نے مختلف اوقات میں ادا کیے۔ یہ تمام باتیں درست لیکن ہمارا یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے باوجود پاکستان میں اردو کو اب تک قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں دیا گیا۔ نفاذ اردو میں تاخیر کا سبب جاننے کی ضرورت ہے‘ اس کا ذمے دار کون ہے؟ حکومت یا ہم؟ ہمارے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اس صورت حال پر وہ لوگ بھی خاموش ہیں جن کی روزی روٹی اس زبان سے وابستہ ہے۔ اردو کے پروفیسر بھی اپنی گفتگو میں انگریزی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مقالات انگریزی کی شمولیت کے بغیر نامکمل تصور کیے جاتے ہیں۔ شاید وہ قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ اردو نہیں انگریزی ہماری قومی زبان ہے۔ اکثر اردو دانوں کے بچے انگلش اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں‘ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے بچوں کو اچھی انگریزی آتی ہے۔ ہم نے کسی کی زبان سے نہیں سنا کہ ہمارے بچے اردو اچھی بولتے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے بچوں کو بھی اردو زبان و ادب سے کوئی دلچسپی ہے؟ تو ان کا جواب نفی میں آتا ہے۔ زیادہ اصرار کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’’اردو ذریعہ روزگار نہیں بن سکتی اس لیے انگریزی تعلیم دلوائی جارہی ہے۔‘‘ اردو زبان کا نفاذ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن ہمیں افسوس اس بات پر ہے کہ اردو زبان رفتہ رفتہ اپنا تشخص کھو رہی ہے۔ انگریزی کی بڑھتی ہوئی عمل داری ہر شعبہ زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ اردو کے برمحل اور خوب صورت الفاظ کی جگہ انگریزی کے بھونڈے الفاظ کا استعمال کثرت سے بڑھتا جارہا ہے۔ اگر کوئی انگریزی میں گفتگو کر رہا ہو تو اس کی زبان پر اردو کا ایک لفظ بھی نہیں آتا لیکن ہمارے دانشور اپنی اردو تحریروں اور تقریروں میں انگریزی کا استعمال نہ جانے کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک زمانے میں ریڈیو نے اردو زبان کی ترویج و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ زبان کی درستی کے لیے ماہر لسانیات سے رجوع کیا جاتا تھا جس سے صحیح زبان ہم تک پہنچتی تھی لیکن ٹی وی چینلز پر اس طرف توجہ نہیں دی جارہی جس سے صورت حال روز بہ روز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اس سلسلے میں جو ’’فراخ دلانہ‘‘ کردار ادا کر رہا ہے اس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ بعض اچھے بھلے اردو کے الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ نے لے لی ہے مثلاً وقفے کی جگہ ’’بریک‘‘ میزبان کی جگہ ’’اینکر پرسن‘‘ ناظرین کی جگہ ’’ ویورز‘‘ خوش آمدید کی جگہ ’’ویلکم‘‘ خلاصے کی جگہ ’’سمری‘‘ مجلس صدارت کی جگہ ’’پریسڈیم‘‘ کھیل کی جگہ ’’اسپورٹس‘ مہمان خصوصی کی جگہ ’’چیف گیسٹ‘‘ تازہ ترین کی جگہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ شخصیت کی جگہ ’’پرسنلٹی‘‘ اردو بورڈ کی جگہ ’’اردو ڈکشنری بورڈ‘‘ شب خیر کی جگہ ’’گڈ نائٹ‘‘ یہ تو وہ الفاظ ہیں جو ہم نے اپنے کانوں سے سنے ہیں اور الفاظ بھی ہوں گے لیکن ابھی تک ہم ان سے لاعلم ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری زبان اتنی غریب اور بے مایہ ہے کہ دوسری زبان کا سہارا لیا جائے۔ یہ انگلستان نہیں پاکستان ہے یہاں کی قومی زبان اردو ہے۔ پاکستان بنے ہوئے 72 برس ہوگئے لیکن اردو کا نفاذ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ یہ حکومتوں کی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے باوجود یہ زبان برسوں سے دلوں پر حکمرانی کر رہے‘ اسے مٹانے والے خود مٹ گئے۔ یہ زبان زندہ تھی‘ زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ اردو زبان بیرون ممالک میں بھی رفتہ رفتہ اپنی جگہ بنا رہی ہے‘ اردو کی نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں جن کا ہمیں کشادہ دلی کے ساتھ خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اردو ایک زبان کی حیثیت سے اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اس کا رسم الخط باقی رہے گا۔ اردو زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمونے کی بھی بھرپور صلاحیت ہے۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ لوگوں کو بھی زبان و بیان پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ بعض انگریزی الفاظ ہماری ثقافت کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس صورت حال پر قابو پانے کی ضرورت ہے یہ بات بلا مبالغہ کئی جاسکتی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اردو کو ختم نہیں کرسکتی۔ اردو لکھنے‘ پڑھنے اور بولنے والوں کو جدید ٹیکنالوجی کے فیوض و برکات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اردو کی بقا کی جنگ نئے ہتھیاروں سے لڑنا ہوگی۔ اردو ایک عوامی زبان ہے جو اپنی جگہ خود بنا رہی ہے۔ عام گفتگو میں بھی انگریزی کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے اس لیے بھی کہ انگریزی کاروباری زبان ہے‘ اردو کو ابھی یہ درجہ نہیں دیا گیا۔ زمانے کے ساتھ ساتھ زبان بھی بدل رہی ہے۔ پہلے بچوں کا تلفظ درست کرایا جاتا تھا لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔ انگلش میڈیم اسکولوں کے بچوں کو بھی اردو زبان کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ پہلے زمانے کے صحافی بڑے ادیب ہوا کرتے تھے‘ وہ اپنے اخبارات اور جرائد میں صحتِ زبان پر خصوصی توجہ دیتے تھے لیکن اب صحافت نے اردو کی ترویج چھوڑ دی ہے‘ ٹی وی نے ’’ناظرین‘‘ کا لفظ ہی اڑا دیا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹی میں اردو پڑھائی جارہی ہے۔ بلاشبہ اردو تحریک پاکستان کی زبان ہے‘ ہمارے ملک میں اردو زبان کا نہیں معاشرے کا مستقبل خطرے میں ہے‘ یہ ایک بے زبان معاشرہ ہے۔ اس تمام صورت حال کے باوجود اردو زبان کا مستقبل مایوس کن نہیں۔ اردو ہماری قومی‘ سیاسی اور مذہبی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو نے اردو کی جو خدمت ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے اس کا سہرا سید ذوالفقار علی بخاری (مرحوم) کو جاتا ہے۔ اردو کو باقی رکھنے اور پروان چڑھانے میں خواتین کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیوں کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ بچہ اپنی ماں کی زبان بولتا ہے‘ اردو کا دامن بہت کشآدہ ہے‘ یہ دوسری زبانوں کے الفاظ بھی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ ٹی وی دیکھنے والوں کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں‘ کتاب پڑھنے کے لیے پڑھے لکھنا ہونا ضروری ہے۔ امید ہے کہ اردو زبان کے سلسلے میں ہماری ان معروضات پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ یہ ہمارے ذاتی خیالات و جذبات ہیں قارئین کا ہماری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.

شاعری روح کی غذا ہے‘ ظہورالاسلام جاوید

شاعری روح کی غذا ہے‘ مشاعرے ہماری ثقافت کے آئینہ دار ہیں ہیں۔ علم و آگہی کی ترویج و اشاعت میں مشاعرے اہمیت کے حامل ہیں۔ شاعری اور زندگی میں ربط ضروری ہے ادب برائے زندگی ہوتا ہے اربابِ سخن کا فرض ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو نظم کریں۔ معاشرتی برائیوں پر قلم اٹھائیں‘ معاشرے کی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر ظہورالاسلام جاوید نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کا اہتمام علی زبیر نے کیا تھا۔ مشاعرکے مہمان خصوصی عباس تابش تھے جب کہ فرہاد جبریل اور شیریں پریشم مہمانان اعزازی تھے۔ علی زبیر نے نظامت کی اور خطبۂ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ صاحب صدر ظہورالاسلام جاوید نے مزید کہا کہ عرب امارات میں فرہاد جبریل کا طوطی بولتا ہے یہ قادرالکلام شاعر ہیں ان کا اسلوبِ بیان انہیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کر رہا ہے۔ مہمان خصوصی عباس تابش نے کہا کہ آج کی نشست میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے بڑے بڑے مشاعروں میں شعرائے کرام اپنا منتخب کلام سنا کر داد وصول کرتے ہیں لیکن گھریلو نشستوں میں وہ اپنا تازہ کلام سناتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترقی جاری ہے اب مشاعروں کی روایات بھی زندہ ہو رہی ہیں ایک ہی دن میں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں۔ میزبان مشاعرہ علی زبیر نے کہا کہ نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں تاہم سینئر شعرا کا اپنا مقام ہے۔ جونیئرز کا فرض ہے کہ وہ سینئرز سے استفادہ کریں۔ آج کی محفل ہم نے فرہاد جبریل اور شیریں پریشم کے لیے سجائی ہے تاہم ہمارے لیے یہ خوش آئند بات ہے کہ بھائی عباس تابش اور محترم ظہور الاسلام جاوید بھی ہماری دعوت پر تشریف لائے اور اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ یہاں موجود تمام لوگ نہایت دلچسپی سے اشعار سن رہے ہیں اور خوب داد دے رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ عوام شاعری پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ کاشف حسین غائر‘ عظیم راہی‘ عظیم حیدر سید‘ فرخ اظہار‘ وجیہ ثانی‘ دلاور علی آذر‘ آزاد حسین آزاد‘ سحر تاب رومانی‘ زیب اورنگ زیب‘ شاہ زیب خان اور حذیفہ ہارون نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

غزلیں

سانی سید

کبھی خنجر تو کبھی تیر سے باہر نکلے
زخم بھی زخم کی تفسیر سے باہر نکلے
کوئی سمجھا تھا اُسے کوئی بھی خواہش نہیں اب
کتنے ارماں گلِ انجیر سے باہر نکلے
بات ایسی ہو کہ جی اٹھیں سنا دینے سے
خواب ایسا ہو جو تعبیر سے باہر نکلے
وار ایسا ہو کہ کٹنے کا مزا آ جائے
کاٹ ایسی ہو جو شمشیر سے باہر نکلے
ہے جسے دعویٰ جدت اسے جا کر کہیو
کہ وہ کافر سخنِ میرؔ سے باہر نکلے
ہائے وہ شخص جو مل کر کبھی مل نہ سکے
ہائے وہ رنج جو تسخیر سے باہر نکلے
پھول کچھ اور کھِلے شوقِ نظر بازی سے
زخم کچھ اور ہی تشہیر سے باہر نکلے
شہر کا شہر تماشائی ہوا تھا سانیؔ
ایک تم ہی بڑی تاخیر سے باہر نکلے

کامران نفیس

عجب خمار تری یاد کی شراب میں ہے
کہ یہ قرار بھی اب حدِ اضطراب میں ہے
بگڑتی بنتی ہے شب بھر وہ دیدۂ و دل میں
جو ایک شکل دل و دیدۂ خراب میں ہے
وہ اَبر تھا کہ نکل ہی نہیں سکی تھی وہ کل
جو دھوپ پھیلی ہوئی آج میرے خواب میں ہے
بچا کے رکھتا ہے ہر جمع و خرچ سے مجھ کو
وہ ایک دستِ دُعا جو مرے حساب میں ہے
کسے بتائیں محبت ہے جو ہے پیشِ نظر
کسے دکھائیں جو وحشت ابھی حجاب میں ہے
کسے بتائیے وہ بات جو ہوئی بھی نہیں
کسے دکھایئے وہ لہر جو سراب میں ہے

سعید قیس

بنامِ عشق دل و جاں نثار کرنا ہے
تو یوں کہو نا کہ دریا کو پار کرنا ہے
ابھی تو قرضِ محبت ادا ہوا ہی نہیں
ابھی تو کچے گھڑے نے بھی وار کرنا ہے
تمام عرصۂ غم ہے حیات کا عرصہ
خوشی تو قُرب کی گھڑیاں شمار کرنا ہے
ابھی تو میں کسی عالم میں بھی مقیم نہیں
ابھی تو اُس کو بڑا انتظار کرنا ہے
گئی رُتوں سے کہو لوٹ کر چلی آئیں
کہ ہم نے زخم سپردِ بہار کرنا ہے
بڑا ہی شوق تھا اِک روز اپنے آنگن میں
شجر لگا کے- اسے سایہ دار کرنا ہے
وہ اپنی قید میں رکھ بھی خوش نہیں مجھ سے
اب اُس کو میری اَنا کا شکار کرنا ہے
چلو کہ دشت میں دل کی دُکان کھولیں قیسؔ
ہمیں جنوں کا کوئی کاروبار کرنا ہے

حصہ