شریکِ مطالعہ

514

نعیم الرحمن
محمد حامد سراج صف ِ اوّل کے اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے’’بخیہ گری‘‘، ’’برائے فروخت‘‘، ’’چوبدار‘‘، ’’وقت کی فصیل‘‘ اور تازہ مجموعہ ’’برادہ‘‘ کے علاوہ ناولٹ ’’آشوب گاہ‘‘ اور بے مثال طویل سوانحی خاکہ ’’میا‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ’’میا‘‘ پر انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ افسانوی کلیات ’’مجموعہ حامد سراج‘‘ اور جہلم بک کارنر کے امر شاہد کا انتخاب ’’محمد حامد سراج کے شاہکار افسانے‘‘بھی قارئین کی بھرپور داد سمیٹ چکے ہیں۔ ’’ہمارے باباجی حضرت مولانا خواجہ خواجگان خان محمدؒ‘‘ کی حیاتِ مبارکہ کا تذکرہ بھی شائع ہوچکا۔ اس کے علاوہ محمد حامد سراج کی تالیفات میں ’’عالمی سب رنگ افسانے‘‘ اور ’’نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘ بھی شامل ہیں۔ نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں میں انہوں نے میر تقی میر اور اسد اللہ غالب سے لے کر قرۃ العین حیدر اور جیلانی بانو تک 70 سے زائد اردو ادیبوں کی شاہکار آپ بیتیوں کا انتخاب اور تلخیص کرکے گویا دریا کو کوزے میں بندکردیا ہے۔ اس کتاب میں محمد حامد سراج نے بے حد عرق ریزی کے ساتھ ان آپ بیتیوں کی اس طرح تلخیص کی ہے کہ ہرآپ بیتی کا نچوڑ اس میں موجود ہے۔ اسی کتاب میں انہوں نے ’’جنرلوں کی آپ بیتیاں‘‘، ’’سیاست دانوں کی آپ بیتیاں‘‘ اور ’’بادشاہوں کی آپ بیتیاں‘‘ پرکام کرنے کا مژدہ بھی سنایا تھا۔
’’مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں‘‘ محمد حامد سراج کے اس سلسلے کی دوسری کتاب ہے جس میں علم و دانش کے 27 درخشاں ستاروں کی آپ بیتیاں شامل کی گئی ہیں، جن میں ’’ملا عبدالقادر بدایونیؒ‘‘، ’’میر غلام علی آزاد بلگرامیؒ‘‘، ’’نواب سید محمد صدیق حسن خان ؒ‘‘، ’’مولانا جعفر تھانیسریؒ‘‘، ’’مولوی فقیر محمد جہلمیؒ‘‘، ’’مولانا شبلی نعمانیؒ‘‘، ’’مولانا محمد حبیب الرحمن خاں شیروانیؒ‘‘، ’’مولانا عبیداللہ سندھیؒ‘‘، ’’مولانا سید حسین احمد مدنیؒ‘‘، ’’مولانا اسلم جیراج پوریؒ‘‘، ’’پروفیسر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘‘، ’’مولانا سید سلیمان ندویؒ‘‘، ’’ملا واحدی‘‘، ’’مولانا ابوالکلام آزاد‘‘، ’’مولانا عبدالماجد دریا آبادی‘‘، ’’مولانا عبدالمجید سالک‘‘، ’’غلام رسول مہر‘‘، ’’شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ‘‘، ’’علامہ محمد اسدؒ‘‘ ، ’’ڈاکٹرغلام جیلانی برق‘‘، ’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ‘‘، ’’مولانا منظور نعمانیؒ‘‘، ’’صاحبزادہ سید افتخارالحسن زیدیؒ‘‘، ’’خرم جاہ مرادؒ‘‘، ’’مولانا محمد عبدالمعبودؒ‘‘، ’’جاوید احمد غامدی‘‘ اور ’’عبدالمالک مجاہد‘‘ کی آپ بیتیاں شامل ہیں۔ اس طرح قارئین کے سامنے آپ بیتیوں پر مبنی دوسری کتاب کا وعدہ پورا ہوگیا۔ بک کارنرجہلم اور نصیر احمد ناصر کے ادبی جریدے تسطیر 6 میں ’’امیر تیمور‘‘ کی آپ بیتی شائع ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد حامد سراج نے ’’بادشاہوں کی آپ بیتیاں‘‘ پر بھی کام شروع کردیا ہے جو جلد سامنے آنے والی ہے۔
’’مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں‘‘ بڑے سائز کے 424 صفحات پر مبنی ہے، جس کے اعلیٰ ایڈیشن کی قیمت 1800 روپے، اور عام مجلّد ایڈیشن کی قیمت 1200روپے مناسب ہے۔ جہلم بک کارنر کی اعلیٰ طباعت نے کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ عام ایڈیشن بھی صرف کاغذ کے فرق کے ساتھ بہترین انداز سے شائع ہوا ہے، جس کے لیے جہلم بک کارنر کے مہتمم امر شاہد اور گگن شاہد مبارک باد کے حق دار ہیں۔
’’زمین کے آسمان‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ میں محمد حامد سراج لکھتے ہیں کہ ’’علما کی آپ بیتیاں ایک ایک کرکے مطالعے سے گزریں۔ یہ سارے شب و روز مشک بار ہوگئے۔ اس محنت میں نواب صدیق حسن خان کی آپ بیتی کی ورق گردانی شروع کی تو علم ہوا کہ آپ کا سلسلہ نسب 33 واسطوں سے براہِ راست سیدنا علی مرتضیٰ ؓ تک پہنچتا ہے۔ کتاب ایک طرف رکھ دی، ادب کا تقاضا تھا کہ باوضو مطالعہ کیا جائے۔ باوضو آپ بیتی کا مطالعہ کیا اور پھر اپنی سی کوشش کی کہ تمام آپ بیتیوں کا مطالعہ باوضو کیا جائے۔ میں نے باادب، باوضو اپنا وقت دو زانو، ان علمائے کرام کی صحبت میں گزارا اور رُوح کی سیرابی کا سامان کیا۔ آپ بیتی کا مکمل مطالعہ کرلینے کے بعد تلخیص گری کا مرحلہ بڑا جانگسل ہے۔ تلخیص گری کرتے ہوئے اس بات کو مدِنظر رکھنا ہوتا ہے کہ اصل آپ بیتی کی روح متاثر نہ ہو اور شخصیت کی زندگی کے روشن اور اُجلے پہلو اپنی چمک دمک اور خوشبو سے محروم نہ ہوں۔ میں اس قابل ہرگز نہیں تھا کہ اس کام کی ذمے داری لوں۔ مجھے اپنے جہل اور کم علمی کا مکمل اعتراف ہے۔ یہ کسرِ نفسی نہیں، سچ ہے۔ لیکن میرے دوست امر شاہد نے مٹھی بھر حوصلہ مجھے دان کیا اور میں نے ہمت کی پگڈنڈی پر تقویٰ کا زادِ راہ ساتھ لیا اور ربِ کریم کی رحمت کی گھنیری چھاؤں میں سفر پکڑا۔ ادارے نے پُرکشش سرورق اور اعلیٰ طباعتی مراحل سے گزار کر اسے قاری تک پہنچایا۔ قاری کی تحسین اور پذیرائی سے ہمیں حوصلہ ودیعت ہوا اور ہم نے ’’نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘ کے بعد یہ سلسلہ جوڑے رکھنے اور جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سلسلے میں ہماری محنت ’’مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کتاب پر آپ نے جو رقم خرچ کی ہے وہ رائیگاں نہیں جائے گی۔ میں نے قاری کی دل چسپی کے لیے اس بات کو مکمل دھیان میں رکھا ہے کہ آپ بیتیوں کے مطالعے میں اکتاہٹ کا عنصر نہ ہو اور دل چسپی کے ساتھ قاری کو عملی زندگی میں رہنمائی اور روشنی ملے۔‘‘
’’مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں‘‘ کی تلخیص کے لیے محمد حامد سراج نے 18 آپ بیتیوں کا مکمل مطالعہ کیا اور تلخیص گری کے دوران اس امر کو یقینی بنایا کہ کسی بھی آپ بیتی کی روح متاثر نہ ہو۔ ان آپ بیتیوں میں شیر شاہ سوری اور اکبر دور کے ملا عبدالقادر بدایونی سے دورِ حاضر کے جاوید احمد غامدی اور عبدالمالک مجاہد تک شامل ہیں۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی آپ بیتی خاکہ نما ہے جس میں زیادہ تر انہوں نے اپنے عہد کے مشاہیرکے مختصر خاکے تحریرکیے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانیؒ کی آپ بیتی ڈاکٹر خالد ندیم نے واحد متکلم کے انداز میں بہت خوبی سے مرتب کی ہے جس میں شبلی نعمانی کے مکتوبات اور سفرناموں سے اقتباسات اور ذاتی ڈائریوںکی مدد لی گئی ہے۔ جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’مقامات‘‘ سے صرف اُن کا بچپن، تعلیم، علمی مشاغل اور مشاہیر علما کے ساتھ صحبتوں کے ثمرات مل سکے۔ مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کی طویل علمی آپ بیتیوں میں انتہائی احتیاط کے ساتھ عام قاری کے لیے مکمل فیض یاب ہونے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مولانا منظور نعمانیؒ کی آپ بیتی ’’تحدیثِ نعمت‘‘ کمالِ علمی اور صوفیانہ علم و ادب کے خزینے سے بھرپور ہے۔ ان کی 7 جلدوں پر مبنی تالیف ’’معارف الحدیث‘‘ احادیث ِ نبویؐ کا ایک ایسا مستند علمی خزانہ ہے جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوکر مقبول رہا ہے۔ علمائے کرام سے لے کر عام اردو داں طبقہ اس سے مستفید ہوتا چلا آرہا ہے۔ محمد اسد (سابق لیوپولڈویز) کی آپ بیتی ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ انتہائی ایمان افروز ہے جس کا دیباچہ مولانا سید ابوالحسن ندویؒ نے لکھا ہے۔ مولانا جعفر تھانیسریؒ کی ’’کالاپانی‘‘ کو اردو کی پہلی آپ بیتی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ قیدوبند کی سختیاں خندہ پیشانی سے جھیلنے والے مولانا جعفر تھانیسریؒ کا اللہ پر کامل توکل اس آپ بیتی کا خاصا ہے جس سے ایمان کو جِلا ملتی ہے اور اللہ پر یقین گہرا اور مضبوط ہو جاتا ہے۔
ان آپ بیتیوں کے ساتھ چند اہم ترین مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں بھی اس کتاب میں شامل ہیں، جن کی آپ بیتیوں کے بغیر یہ کتاب ادھوری سی محسوس ہوتی۔ یہ کمی محمد طفیل کے ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر سے 8 آپ بیتیوں کو شامل کرکے پوری کی گئی۔ محمد حامد سراج نے بالکل بجا کہا ہے کہ انہوں نے قاری کی دل چسپی کے لیے اس بات کو مکمل دھیان میں رکھا ہے کہ آپ بیتیوں کے مطالعے میں اکتاہٹ کا عنصر نہ ہو اور دل چسپی کے ساتھ قاری کو علمی زندگی میں رہنمائی اور روشنی مل سکے۔
لگ بھگ چار سو سال کے مشاہیرِعلم و دانش کی آپ بیتیوں کے مطالعے سے قاری کے سامنے اس پورے عرصے کی تاریخ، ہر دور کا علمی اور ادبی ماحول پوری طرح اجاگر ہوتا ہے۔ کتاب میں شامل مشاہیر کی پرورش و پرداخت، علم کی جستجو، کمتر وسائل کے باوجود حصولِ علم کی تڑپ اور لگن کا بھی اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ بعض واقعات سے عبرت اور بعض سے قاری کو سبق بھی ملتا ہے۔ جیسے ملا عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں کہ ’’محرم 972 ہجری میں بادشاہ نے مندوسے قصبہ نالجہ کا رُخ کیا۔ بادشاہ نے شہر نگر چین اسی سال تعمیرکرایا تھا جس وقت اکبرنامہ کی تصنیف ہورہی تھی، ابوالفضل نے اس شہرکی تعمیر میں چند سطریں مجھ سے لکھوائی تھیں۔ اب اس شہر اور اس کی عمارتوں کا کوئی نشان نہیں رہا۔‘‘ اس سے قاری کو یہ علم ہوتا ہے کہ بادشاہ شہر تعمیر تو کرسکتے ہیں لیکن انہیں آباد کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ بادشاہ کے بسائے شہر کا چند سال میں نام و نشان بھی مٹ گیا۔ یہ تاریخ کا بہت بڑا سبق ہے۔
نواب سید محمد صدیق حسن خان اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ ’’میں شریف النسب ہوں، لیکن یاد رہے کہ تقویٰ کے بغیر یہ شرف قطعاً نفع بخش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو احسان فرمائے ہیں اُن میں ایک شرفِ نسب بھی ہے۔ میرے جدِ پنجم سلطان تلمسان تھے۔ اسی طرح میرا شجرہ نسب 33 پشتوں کے واسطے سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ ان 33 پشتوں میں 8 ائمہ کرام اہلِ بیت ہیں جن کا شمار اثنا عشر میں ہوتا ہے۔ پھر جعفر ذکی سے لے کر مخدوم جہانیاں، بلکہ جلال رابع تک غالباً تمام اولیا و صلحا تھے، اور سید تاج الدین سے لے کر جدِّ امجد علی بن لطف اللہ تک تمام اہلِ دولت ہوئے ہیں۔ میرے دادا، جو سید اولاد علی خاں کے نام سے مشہور ہیں، انہیں ریاست حیدرآباد دکن سے نواب انور جنگ بہادر کا خطاب ملا تھا اور وہ پانچ لاکھ روپے سالانہ کا علاقہ اور ایک ہزار سوار و پیادہ رکھتے تھے۔ میرے نانا مفتی محمد عوض ساکن بانس بریلی عالم، عارف باللہ، صحیح النسب قریشی اور خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کی اولاد میں سے تھے، ان کی اپنی جگہ مضبوط نسب نامہ ہے۔‘‘
نواب صدیق حسن خان کے اسی نسب نامہ کو دیکھ کر محمد حامد سراج نے باوضو ہوکر ان آپ بیتیوں کو پڑھنے اور ان کی تلخیص کا فیصلہ کیا۔ لکھتے ہیں کہ ’’میں سات برس کا تھا، میرے گھر کے دروازے پر مسجد تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ صبح کے وقت اذان ہوتے ہی والدہ مرحومہ مجھے بیدار کردیتیں اور وضوکرا کے مسجد بھیج دیتی تھیں، اور گھر میں نماز کبھی نہ پڑھنے دیتی تھیں۔ اگر نیند کی سستی کی وجہ سے نہ اٹھتا تو منہ پر پانی ڈال دیتی تھیں۔ اسی وجہ سے بچپن ہی سے نمازکی عادت پڑ گئی۔ شاید دس برس کی عمر میں والدہ نے روزہ رکھوایا اور اُس وقت سے روزہ رکھنے کی عادت پڑ گئی۔ مجھے اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ میرے پاس جو روپیہ پیسہ یا کوئی چیز ہوتی، میں ان کو دے دیتا تھا۔ اپنے پاس نہیں رکھتا تھا، اور ضرورت کے وقت اُن سے لیتا تھا۔ وہ بھی مجھ سے بہت محبت فرماتی تھیں۔ اولاد پر ماں کی خدمت اور تعظیم کا حق باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا، ورنہ حتی المقدور ان کی خدمت بجا لانے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتا۔ میری والدہ مرحومہ جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو وہ مجھ سے راضی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے اس قدر بہ کثرت مال عطا فرمایا ہے، اُس کا سبب یہ ہے کہ میں نے حتی الامکان اپنی والدہ ماجدہ کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے اور اُن کے سامنے اس طرح رہا ہوں جیسے کوئی کنیز یا غلام اپنے آقا کے سامنے رہتا ہے۔‘‘
کیا خوب صورت سبق اور تعلیم ہے تمام قارئین کے لیے، جو اس کتاب کا حاصل ہے۔ مولانا محمد جعفر تھانیسریؒ کی آپ بیتی ’’کالا پانی‘‘ اردو زبان کی نایاب اور پہلی آپ بیتی قرار دی جاتی ہے جسے حال ہی میں بک کارنر جہلم نے دل کش انداز میں شائع کیا ہے، جس میں وہ اپنی گرفتاری کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’میرے گھر سے جو خطوط سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ملے تھے، اُن کو دیکھ کر گورنمنٹ نے میری گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا۔ میں اس اندیشے سے پہلے ہی فرار ہوگیا تھا۔ سینکڑوں گھروں کی تلاشی ہوئی، پچاسوں لوگ پکڑے گئے جن پر سخت عذاب اور مار پیٹ شروع ہوئی۔ ان مار کھانے والوں میں میرا بھائی محمد سعید کمسن اور لذتِ ایمانی اور فضائلِ ثابت قدمی سے سراسر بے بہرہ تھا، وہ اس مار پیٹ کو برداشت نہ کرسکا اور ڈر گیا، اور اپنی جان بچانے کے واسطے بول اٹھا کہ میرا بھائی دہلی کو گیا ہے۔ یہ خود میری غلطی تھی کہ ایسے راز سے ایک نابالغ بچے کو آگاہ کردیا تھا، جس کا نتیجہ میری گرفتاری ہوئی۔ اسی وقت پارسن صاحب میرے بھائی کو ساتھ لے کر بسواری ڈاک دہلی پہنچا۔ دس ہزار روپے کا اشتہار میری گرفتاری کے واسطے جاری ہوا۔‘‘
جعفر تھانیسریؒ نے کالا پانی کی انتہائی کڑی سزا کا سامنا کیا۔ جس زمانے میں وہ دیگر افراد کے ساتھ پھانسی گھروں میں قید تھے، انہی ایام میں ایک مقبول بارگاہ الٰہی پر اللہ رب العزت نے یہ منکشف کیا کہ ہم لوگوں کو پھانسی نہ ہوگی مگر کالے پانی بہ عبور دریائے شور کو جانا ہوگا اور وہاں سے بھی پھر زندہ باعزت واپسی ہوگی۔ ہماری پھانسی کی موقوفی اس پیشن گوئی کے کوئی دوماہ بعد ہوئی۔ اس وقت جب ساری سلطنتِ انگریز بااتفاق ہمیں پھانسی دینے پر مستعد تھی اور ظاہراً موقوفی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی، میں نے اپنے بھائی اور دوستوں کو اسی وقت یہ خوش خبری کی اطلاع بھی دے دی تھی۔ کالا پانی کی قید کے دوران بھی یہی یقین مولانا کے ساتھ رہا اور انہوں نے قید کے دوران نوٹس بنانے جاری رکھے جن کی بنیاد پر اپنی آپ بیتی تحریرکی، جس میں جزائر انڈیمان، وہاں کے اصل باشندوں کے بارے میں قیمتی معلومات جو اس سے قبل کبھی سامنے نہیں آئی تھیں، پہلی بار لوگوں کے علم میں آئیں۔
مولانا جعفر تھانیسری 11 جنوری 1865ء کو انبالہ سے کالے پانی میں داخل ہوئے۔ یہاں لگ بھگ 18 سال گزار کر13 نومبر 1883ء کو رہا ہو کر کلکتہ واپس پہنچ گئے۔ یہاں ایک بیوی اوردو چھوٹے بچے چھوڑ کر گئے تھے۔ وہاں دو بیویاں اور آٹھ بچے اللہ پاک نے عنایت کردیے۔ سامانِ نقد و جنس ہر ایک چیزکا نام بنام نعم البدل اس قید خانے میں عطا ہوا، اس سے اللہ پر توکل کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ مشاہیرِ علم و ادب کی آپ بیتیاں میں ایسے بہت سے ایمان افروز اور چشم کشا واقعات قاری کے ذہن کو وسعت اور علم سے مالامال کرتے ہیں۔
کتاب کی آخری آپ بیتی عبدالمالک مجاہد کی ہے جو 1955ء میں وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے خاندان کے اکثر لوگ خطاطی کے پیشے سے منسلک تھے۔ خاندان کے متعدد لوگ طبیب بھی تھے، بعض امامت کرتے تھے، ان حضرات کا کہنا تھا کہ ہم لوگ امامت اللہ کو راضی کرنے کے لیے، طبابت خدمتِ خلق کے لیے، اور کتابت گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ دور ہی ایسا تھا کہ پیسہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا، کسی نے کچھ دے دیا تو الحمدللہ، ورنہ اگرکسی گھر میں سال بھر کے لیے گندم موجود ہوتی تو پھر کوئی بات نہ ہوتی تھی۔‘‘
’’مشاہیرِ علم ودانش کی آپ بیتیاں‘‘ میں ایسی دل چسپ اور معلومات افزا 27 زندہ جاوید شخصیات کی آپ بیتیاں شامل ہیں جن میں علم و دانش کے ایسے آبگینے شامل ہیں جو ہر قاری کے لیے دل چسپ ہی نہیں علم کے فروغ کا باعث بھی ہیں۔ دو کتابوں کے بعد محمد حامد سراج کی اس سلسلے کی تیسری تالیف کا قارئین کو انتظار رہے گا۔

حصہ