رسول اللہ ؐ کی چاندی کی وجہ سے بے قراری

253

ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سائل آیا۔ اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ موجود نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیٹھ جائو خدا دے گا۔‘‘ وہ شخص بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک دوسرا سائل آیا، پھر تیسرا آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی وہی الفاظ کہہ کر اپنے پاس بٹھا لیا جو پہلے سائل سے کہے تھے۔
اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے چار اوقیہ چاندی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک اوقیہ چاندی ان تینوں سائلوں میں تقسیم فرما دی۔
ایک اوقیہ کی بابت اعلان کردیا کہ کوئی ضرورت مند ہو تو آکر لے لے۔ مگر کوئی لینے والا نہ آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ایک اوقیہ چاندی کو گھر لے گئے۔ رات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چاندی اپنے سرہانے رکھ لی۔
حضرت عائشہؓ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند نہیں آرہی۔ اٹھتے ہیں اور نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں، پھر ذرا لیٹ کر اٹھتے ہیں اور نماز پڑھنے لگتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ نے پوچھا ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آج کوئی تکلیف ہے؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں‘‘۔
حضرت عائشہؓ نے پھر پوچھا ’’کیا اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص حکم آیا ہے جس کی وجہ سے بے قراری ہے؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا ’’نہیں‘‘۔
حضرت عائشہؓ نے عرض کیا ’’تو پھر حضورؐ آرام کیوں نہیں فرماتے؟‘‘
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرہانے کے نیچے سے وہ چاندی نکال کر دکھائی اور فرمایا ’’یہ ہے جس نے مجھے بے قرار کررکھا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ میرے پاس ہی ہو اور مجھے موت آجائے۔‘‘

بسیار خوری

عجم کے بادشاہوں میں سے کسی نے ایک ماہر طبیب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بھیجا۔ وہ کئی سال عرب کی ولایت میں رہا۔ کوئی آدمی علاج کے لیے اُس کے پاس نہ آیا اور کسی قسم کے علاج کی اُس سے خواہش نہ کی۔ وہ طبیب نبیؐ کے پاس آیا اور عرض کیا ’’اِس غلام کو اصحابؓ کے علاج کے لیے خدمتِ اقدس میں بھیجا گیا ہے۔ اس دوران کسی نے بھی توجہ نہیں کی تاکہ جو خدمت بندے کے ذمے ہے اس کو انجام دے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس جماعت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب تک بھوک خوب نہیں لگتی، نہیں کھاتے۔ اور ابھی تھوڑی بھوک باقی ہوتی ہے کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔‘‘
طبیب نے کہا ’’یہی تندرستی کا سبب ہے‘‘۔ پس زمین کو بوسہ دیا اور رخصت ہوگیا۔
بسیار خوری کے کتنے نقصان ہیں ان کا شمار کرنا ناممکن ہے۔ دانائوں کا قول ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ بسیار خوری سے مرتے ہیں اتنے بھوک سے نہیں مرتے، اس لیے بھوک رکھ کر کھانا چاہیے، اس سے صحت برقرار رہتی ہے اور انسان بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔
(حکایاتِ سعدیؒ سے انتخاب)

حصہ