چراغ جلانا تو اختیار میں ہے۔۔۔

594

فرحی نعیم
کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ذرائع ابلاغ کا کردار بہت اہم ہے۔ چاہے تو مثبت اثرات مرتب کرکے اسے تروتازگی بخشے، یا پھر منفی اثرات کے ذریعے اس کے تہذیبی و اخلاقی ڈھانچے کو ہی ختم کردے۔ گویا صحت مند معاشرہ میڈیا کی دی ہوئی صحت بخش رہنمائی کے ذریعے ہی آگے بڑھتا ہے۔
آج جتنی وسعت میڈیا نے حاصل کرلی ہے اتنی تو تعلیم و تبلیغ کے کسی دوسرے ذریعے نے حاصل نہیں کی۔ ایک جدید تحقیق کے مطابق ایک تصویر 500 الفاظ کا نعم البدل ہوتی ہے۔ ہم میڈیا کے ذریعے معاشرے کی جو تصویر پیش کرتے ہیں کچھ عرصے بعد وہی معاشرے کا عکس بن جاتی ہے۔ میڈیا چینلز آج ہمارے گھروں میں داخل ہوکر گھر کے ہر فرد کو براہِ راست متاثر کررہے ہیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ ان کے دائرۂ کار سے باہر نہیں۔
میڈیا کی اسی طاقت اور اثر انگیزی کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے شعبۂ نشر و اشاعت نے ’’میڈیا بنائے معاشرہ‘‘ کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا، جس کے تحت تمام اضلاع میں پروگرام کیے گئے۔ ضلع جنوبی میں ڈیفنس زون میں محترمہ فریدہ پراچہ کے گھر میں نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
محترمہ حمیرا خالد نائب ناظمہ کراچی، اور جسارت صفحہ خواتین کی انچارج، مصنفہ و کالم نگار محترمہ غزالہ عزیز نے اس نشست کی میزبانی سنبھالی اور ذرائع ابلاغ کے مقاصد، مثبت و منفی کردار پر بڑی پُراثر روشنی ڈالی۔
تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد محترمہ حمیرا خالد نے اپنے پُراثر انداز میں پروگرام کا آغاز ایک خوب صورت شعر سے کیا:
بہت ہی کم نظر آیا مجھے اخلاص لوگوں میں
یہ دولت بٹ گئی شاید بہت ہی خاص لوگوں میں
انہوں نے میڈیا کی ذمے داریوں سے اپنی بات کی ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا بڑا المیہ یہ ہے کہ میڈیا تعمیر و ترقی کا اپنا مقصد بھلا کر اب لہو ولعب میں مشغول ہوچکا ہے۔ ناپسندیدہ اور غیر اخلاقی چیزیں دکھا دکھا کر ان کی کراہیت ہی دل سے نکالتا جارہا ہے جو کہ شیطانی حربہ ہے، اور اس کے اثرات اب کوئی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ہمارے لباس، زبان اور رویوں کا بگاڑ ہمارے چاروں طرف نظر آرہا ہے جس سے ایک طرف تو بچوں پر اس کے اثرات بے خوابی اور چڑچڑے پن کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں، تو دوسری طرف عورت کی عزت کی تحقیر کی جارہی ہے۔ ہر سطح کے لوگوں پر میڈیا کے اثرات نقصانات کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔ ابلاغ کا ایک مقصد تھا لیکن وہ مقصد بھلا دیا گیا، کیوں کہ اگر وہ اپنے مقصد سے قریب رہتا تو کبھی لغویات میں نہ پڑتا۔ اس میڈیا نے اپنے ناظرین کو جس سحر میں مبتلا کیا اور جن امراض میں گرفتار کیا آج ہم اسی مرض کی تشخیص کریں گے، کیوں کہ آج کی تحقیق کہتی ہے کہ ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھنے کا اثر چوبیس گھنٹے رہتا ہے جو کہ ہر کسی پر اثرانداز ہورہا ہے۔ آپ جو کچھ دیکھتے ہیں کتنی ہی دیر آپ کا دماغ اسی منظر میں الجھا رہتا ہے۔ یہ ہمارے دماغ کے ان خطرناک حصوں کو بیدار کرتا ہے۔
ہمارے ٹی وی ڈرامے میں محبت کا کوئی پیغام نہیں ہوتا، حالانکہ اگر اس نظر سے ہم اپنے پڑوسی ملک کے ڈرامے دیکھیں تو وہاں خاندان کو جوڑنے اور مضبوط رکھنے کا پیغام واضح ہوتا ہے۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے بچے ماں کی تربیت سے نکل کر ٹی وی کی تربیت میں چلے گئے ہیں۔
محترمہ غزالہ عزیز صاحبہ نے محترمہ حمیرا خالد کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پہلے تو معزز خواتین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج کی ہماری اس نشست کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم سب مل کر اپنی تجاویز اور مشورے دیں کہ ان حالات سے جو میڈیا بنا رہا ہے، کیسے نکلا جائے۔ میڈیا کے اصل مقاصد معلومات، رہنمائی اور تفریح مہیا کرنا ہے، لیکن ابتدائی دو اہم مقاصد کو میڈیا بھلا کر صرف تفریح مہیا کررہا ہے۔ وہ اپنے ناظرین کو متوجہ کرنے اور انہیں اس جادوئی دنیا کا مسافر بنانے کے لیے ہر حدود و قیود پھلانگ چکا ہے۔ مارننگ شوز میں بچیوں کے ڈانس دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ اسی ملک کا میڈیا ہے جس کا ایک اسلامی تشخص ہے؟ آج میڈیا ہر ایک چیز دکھا رہا ہے، وہ اپنا مقصد ’رہنمائی‘ بھلا کر معاشرے کو غلط نہج پر لے جارہا ہے۔ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانا، زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ، تاکہ ایک چینل سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا چینل… یہ چینل نہیں بلکہ دکانیں بن چکے ہیں جو معاشرے کی اخلاقیات کو تباہ کرکے عوام کے ایمان واقدار کا سودا کرکے انہیں وہاں تک لے گئے ہیں جہاں سے واپس آنا مشکل ہے۔ اگر آج ہم یہ دیکھیں کہ ہمارا میڈیا کوئی مثبت چیز بھی دکھا رہا ہے تو اس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر بھی بمشکل ہے۔ اگر کسی چینل پر کوئی بامقصد دینی پروگرام ہے بھی، تو اس کا وقت ایسا رکھا جاتا ہے جب اسے کوئی نہیں دیکھتا، نہ ہی اسے دوبارہ نشر کیا جاتا ہے۔
اگر ہم میڈیا کے پروگراموں پر تنقید کریں تو کہا جاتا ہے: وہی تو دکھایا جارہا ہے جو معاشرے میں ہورہا ہے۔ یعنی میڈیا آئینے کا کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن کیا وہ کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں؟ میڈیا کا کام آئینہ گری نہیں بلکہ رہنمائی ہے، جسے ہم ہر موقع پر بھول جاتے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں صرف معاشرے کے رستے زخم ہی نہیں دکھانے، بلکہ ان پر مرہم بھی رکھنا ہے۔
ہمیں اپنے میڈیا کی سمت تبدیل کرنی ہے، اس کے لیے مائوں کو مضبوط ہونا ہوگا۔ انہیں ہی اپنے بچوں میں اچھے برے کی پہچان کرانی ہے، کیوں کہ میڈیا تو آج مشکل کا حل نماز میں نہیں بلکہ درباروں اور تعویذوں میں دکھا رہا ہے۔
اس کے بعد مہمان خواتین کو دعوت دی گئی کہ وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں اور بتائیں کہ ہمارا میڈیا کیا وہ فریضہ انجام دے رہا ہے؟ کیا اس کی سمت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟ اور ہماری اسلامی ثقافت، معاشرت، تہذیب کی حفاظت اس بے مہار میڈیا کے دور میں کیسے کی جاسکتی ہے؟
یہ تمام گفتگو سن کر خواتین اپنی رائے کے اظہار کے لیے بے چین نظر آئیں۔ ہمارے درمیان ڈاکٹر بھی تھیں، ٹیچر، اکائونٹنٹ اور بزنس وومن بھی، اور اس کے ساتھ گھریلو خواتین بھی۔ سب سے پہلے محترمہ عقیلہ اظہر جو کہ صدر ہیں حریمِ ادب کراچی کی، انہوں نے فرمایا کہ ڈرامے ایسے ہونے چاہئیں جن میں مثبت اور منفی پیغام واضح ہو، تاکہ ناظرین برے کا برا انجام دیکھ کر سبق حاصل کرسکیں۔ محترمہ وجیہ عمران نے جو کہ ٹیچر ہیں، کہا کہ میرا تعلق چوں کہ بچوں سے رہتا ہے لہٰذا میرا مشاہدہ ہے کہ ڈراموںکے غیر اخلاقی اور ناشائستہ مناظر بچوں پر بڑے گہرے منفی اثرات ڈالتے ہیں، وہ ویسی ہی باتیں اور حرکتیں کرتے ہیں۔ ایک اور ٹیچر محترمہ شمع کا کہنا تھا کہ دین سے دوری، قرآن کی تلاوت سے دوری نے آج ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہمارا معاشرہ بگاڑ کی طرف جارہا ہے۔ قرآن کی تلاوت میں اتنی تاثیر ہے کہ وہ بچے کے دل میں اثر کرکے اسے پراگندہ ہونے سے بچاسکتی ہے۔ میڈیا نہ تو اب کنٹرول میں ہے، نہ ہی ہم اسے چیک کرسکتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں تو ہم پر پابندی تھی۔ ہمیں آج اُن تمام پروگراموں کا بائیکاٹ کردینا چاہیے جو ہماری اخلاقیات پر ضرب لگا رہے ہیں۔ محترمہ حنا جو اکائونٹنٹ ہیں، انہوں نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیملی ڈرامے دکھانا بند کردیے ہیں اور یہ پچھلے دو عشروں سے ہورہا ہے، حالانکہ پڑوسی ممالک اپنے دین کو پھیلا رہے ہیں، اپنے تہوار اور رسمیں دکھاتے ہیں، لیکن ہم کسی اور ہی دنیا سے متاثر ہیں۔ محترمہ سارہ، جو کہ ہائوس وائف ہیں، انہوں نے بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آج مائیں خود ایسے ڈرامے دیکھ رہی ہیں جن سے منفی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، لہٰذا اس سلسلے میں ماں کی بھی تربیت ضروری ہے، جب وہ خود اس سے بچے گی تو بچے بھی دور رہیں گے۔ محترمہ صابرہ جو کہ گھریلو خاتون ہیں، انہوں نے کہا کہ آج کے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون آچکا ہے۔ آج تو نہ صرف ڈرامے بلکہ خبریں اور دوسرے سنجیدہ پروگرام بھی کمرشلائز ہوگئے ہیں۔ ہر کوئی ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہے۔ ہمیں ماں کو پاور فل بنانا ہے، اس کی اخلاقیات پر بھی توجہ نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر ختم ہوچکا ہے۔ اگر ماں دین سے جڑی رہے گی تو اس کا گھر بھی اسی کا عکاس ہوگا۔ یہاں پر ایک اور ٹیچر نے مسنون دعائوں کے اہتمام اور سنت کی پیروی پر زور دیا۔ اکائونٹنٹ محترمہ حنا نے تجویز دی کہ ہمارے قوانین سخت ہوجائیں، چیک اینڈ بیلنس کی پالیسی ہو، حکومت کو پریشر گروپ بنانا چاہیے، اسلامی نظریاتی کمیٹی کا قیام ہو جو کہ ان پروگراموں پر نظر رکھے اور اجتماعی مشورے کے بعد ہی ان کو نشر کرنے کی منظوری دی جائے تو آج جو بگاڑ آچکا ہے اس میں بڑی حد تک کمی ہو جائے گی۔ ویلنٹائن ڈے پر پابندی اس کی واضح مثال ہے۔
شکاگو سے آئی ہوئی مہمان نے کہا کہ یہاں ہم اپنی اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں، جب کہ مغربی معاشرے میں یہی مسلمان لڑکیاں حجاب لیے ہوتی ہیں، حالانکہ میڈیا تو وہاں بھی اخلاقیات سے دور ہے، لیکن کم از کم وہاں گھرانے ادب، لحاظ اور تمیز کے دائرے میں ہیں۔ ایک اور خاتون نے کہا کہ اصل میں آج ہم جو کررہے ہیں وہ میڈیا نہیں دکھا رہا، بلکہ جو میڈیا دکھا رہا ہے وہ معاشرہ جذب کررہا ہے۔
مہمان خواتین کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ہر کوئی میڈیا کی اس آزادی کے خلاف ہے اور اس پر بند باندھنے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں بھی ہے۔ اس سلسلے میں محترمہ غزالہ عزیز نے خواتین کو یہ مشورہ دیا کہ وہ آگے آئیں اور اپنے قلم سے میڈیا کے جن کو قابو کریں، کیوں کہ آج میڈیا کے ذریعے تہذیبوں کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ ہمیں اپنے دین کی تبلیغ کے لیے ہر ممکن وسائل استعمال کرنے ہیں۔ پیمرا کو فون کریں، خطوط لکھیں اور ای میل کریں، کیوں کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کے لیے ضابطہ اخلاق تو بنایا ہے لیکن وہ خود کمزور ہے، اس لیے ہمیں میڈیا کی ذمے داری کو خود بھی سمجھنا ہے اور سمجھانا بھی ہے۔ انہوں نے مزید سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ معیاری چینل کھولنے کے لیے فنڈنگ کی جائے اور ایک ضابطہ اخلاق بنایا جائے۔ میڈیا کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا، کیوں کہ ہمارا نصب العین یہی ہے کہ معاشرے میں ’’حیا کے چلن کو فروغ دینا اور بے حیائی کو دفن کرنا‘‘۔ ہم اس کے لیے مراسلے، مضامین، کہانیاں لکھیں، لوگوں کو اپنی تہذیب سے جوڑیں۔ ہمیں اس کے لیے اجتماعی طور پر جدوجہد کرنی ہے، کیوں کہ ٹی وی کا سوئچ بند کرکے ہمیں صرف اپنے ہی بچوں کی حفاظت کا نہیں سوچنا بلکہ پوری قوم کے بچوں کا سوچنا ہے۔ محترمہ غزالہ عزیز نے ایک قرارداد پیش کی۔ محترمہ حمیرا خالد نے اس خوب صورت شعر کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کیا:

یہ اور بات ہے کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں
مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

اور اس پُراثر شعر کے ساتھ ہماری محفل برخواست ہوئی۔ محترمہ فریدہ نے میزبانی کے فرائض نبھاتے ہوئے چائے کے ساتھ کیک اور سموسوں کا اہتمام کیا تھا، اور ہم ایک معیاری نشست کے بعد وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس فورم نے خواتین کی سوچ کو نئے زاویے دیے اور انہیں امید کی نئی راہیں بھی دکھائیں۔

حصہ