خطوط

316

معیاری ڈراموں کی ضرورت

کئی سال سے ہمارے ٹی وی چینلوں پر ڈرامے روزانہ دن رات نشر ہورہے ہیں جن میں دکھائی جانے والی کہانیاں ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں۔ اس کی جگہ بامقصد ڈرامے دکھائے جائیں جن کے ذریعے معاشرے کو درست کرنے کا بہترین پیغام عام کیا جائے۔ آج ہمارے ٹی وی چینلز کی صورت حال یہ ہے کہ معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کا ادارہ ان کا خصوصی ہدف ہے۔ ڈراموں کے ذریعے بدلتی اقدار و روایات اور منفی رجحانات کو متعارف کرایا جارہا ہے۔ ناظرین کے ذہنوں میں اسلام کے عائلی قوانین کے خلاف شکوک و شبہات کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ ڈراموں میں بے مقصد کہانیاں، نکاح، طلاق و خلع، حرام و حلال، محرم نامحرم جیسے نازک معاملات کو بے احتیاطی سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور نئی نسل کو بغاوت پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ چنانچہ معاشرے میں یہی رجحانات بڑھتے جارہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اور بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے بجائے انہیں گمراہ کیا جارہا ہے۔
(عائشہ بی… گلشن اقبال کراچی)

بے حیائی جرم کے مترادف ہے

آج کل اکثر پروگراموں میں ہوٹلوں، پکوان سینٹروں اور فوڈ کمپنیوں پر اچانک آکر چھاپے مارتے ہیں اور سرِعام ان لوگوں کا پول کھول کر رکھ دیتے ہیں کہ جی عوام کو آگاہی دی جارہی ہے اور ایک معزز فلاحی کام ہورہا ہے۔ درست، قابلِ ستائش۔ یہ سارا کام اچھی نیت اور حکمت عملی کے ساتھ اگر کیا جائے تو میرا خیال ہے زیادہ مؤثر، اصلاحی و فلاحی بھی ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ دوسروں کے اندر نقائص نکالنا بہت آسان ہے، تنقید بہت اچھی کی جاسکتی ہے، مگر ساتھ ساتھ تنقید کرنے والے یا والی کو خود اپنی طرف بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کا اپنا کردار، انداز، اسٹائل اور مقصد کیا ہے؟ میں زیادہ پروگرام تو نہیں دیکھتی مگر بعض دفعہ اشتہار اور کبھی پورے پروگرام کو دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ’اب تک‘ ٹی وی چینل سے ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے ’’خفیہ‘‘، مگر اس پروگرام کی اینکر صاحبہ کا حلیہ، انداز اور اسٹائل ہزاروں لوگوں کے سامنے بظاہر خود ایک بے حیائی کے جرم کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے ایک پروگرام ’’جرم بولتا ہے‘‘ اور اسی طرح کے دوسرے پروگراموں میں خواتین اینکرز اپنے حلیے اور انداز سے بہت ہی غیر مناسب اور معذرت کے ساتھ مسلم نہیں لگتیں۔ مردوں کے درمیان بے دھڑک اس طرح کے پروگرام جرم کا ارتکاب لگتے ہیں، کیا اس طرح کے پروگرام ہمارے مرد حضرات نہیں کرسکتے؟ اسی طرح ٹی وی پر میزبان خواتین کی بھرمار ہوتی جارہی ہے۔ ٹاک شوز میں بھی خواتین زیادہ نظر آتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ معزز حضرات یہ ڈیوٹی سنبھالیں اور اسلامی کلچر کو فروغ دیں۔ میں نے تو لوگوں کے گھروں میں بعض بچیوں، بہوئوں کو اسی انداز میں لوگوں سے باتیں کرتے، ڈانٹتے ڈپٹتے دیکھا ہے جو بہت برا لگا۔ برائی جلد اثر کرتی ہے اور آہستہ آہستہ سرایت کر جاتی ہے، اس لیے اسے جڑ سے ختم کرنا ضروری ہے۔ بے حیائی کے اشتہارات عورت کی حیا کا سودا ہے۔ والدین، اساتذہ سب کو اس کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ مرد حضرات کو سنجیدگی سے ان باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اہلِ خانہ کے بارے میں ان کے مردوں سے سوال کیا جائے گا۔ پھر پیمرا بھی آنکھ بند کیے ہوئے ہے۔ ڈراموں سے لے کر خبریں اور معمولی معمولی اشتہارات بھی کہیں نہ کہیں بے حیائی اور ناشائستہ حلیوں کی وجہ سے اپنا تاثر کھوتے جارہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے ہم مسلمان ہیں۔ غلطیاں ہو بھی جائیں تو فوراً معافی کے بعد اس کے مقابل اس سے سو درجہ اچھی نیکی کرکے ہر برائی کا ازالہ کرسکتے ہیں، بس صرف قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی زندگی کا مقصد اور احساسِِ ذمے داری تمام برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے کے لیے ان شاء اللہ کافی ہوگا۔
(لطیف النساء، ناظم آباد کراچی)

حصہ