کتب بینی کی اہمیت

10082

محمد عارف خلجی
کتب بینی ایک ایسا بہترین شوق اور محبوب مشغلہ ہے جس کے بدلے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی ہیچ ہے۔ اگر آپ کتب بین واقع ہوئے ہیں اور رات کو اپنی خواب گاہ سے محض اس لیے دور رہتے ہیں تاکہ آپ اپنا قیمتی وقت عظیم لوگوں کی صحبت میں گزاریں تو یہ آپ کے لیے بہت ہی مبارک اور اچھا شگون ہے۔ یہ عادت جس شخص کے اند ر پیدا ہوگئی، اُس کو سارے جہاں کے خزانوں کی چابیاں مل گئیں۔ اِس کے برعکس جو شخص کتب بینی کی لذت سے محروم رہا، وہ دنیا کی بہترین نعمت کے ذوق سے محروم رہا۔
یاد رکھیں! کتب بینی ایک ایسا عمل ہے جو آپ کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچادیتا ہے۔ علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہِ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لیے بھی مشعل ِ راہ کا کام دیتا ہے۔ یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ، لگن، شوق اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہو، اِس عمل کو پروان چڑھا کر علم کے سمندر سے دُرِ نایاب سمیٹ سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف میں یہ وصف ِ حمیدہ بدرجہء اتم موجود تھی اسی لیے آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود بھی اُن کے نام آسمانِ علم کی اُفق پر جگمگا رہے ہیں۔ امام غزالی، ابونصر الفارابی، ابن سینا، ابن رشد، ابن الہیثم، جابر بن حیان اور الکندی جیسے جلیل القدر اشخاص کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکا کے کتب خانوں کی زینت ہیں۔ ویسے تو ہمارے اسلاف میں علمی دنیا کے وہ وہ قد آور ستون موجو د ہے جن کے ناموں اور کا رناموں کا احصاء دشوار ہے مگر اُنہوں نے ہمیشہ اپنے اخلاف کو ’’مطالعہ‘‘ اور ’’کتب بینی‘‘ کا ذوق اُبھارنے کا درس دیا۔ اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر گوشوں میں علم کی تابانی سے عالم کو منور کرنے والے اور ہر سُو اُجالا پھیلانے والے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا۔
اپنے ذوق ِ مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے حکیم ابو نصر الفارابی فرماتے ہیں کہ ’’تیل کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا تھا‘‘۔ امام زہری ؒ کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ ادھر اُدھر کتابیں ہوتیں او راُن کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی، بیوی اُن کے اس عادت سے سخت پیچ و تاب کھاتی، ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، ’’اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سو کنوں سے زیادہ بھاری ہیں‘‘۔ میکالے کا قول ہے کہ ’’وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں‘‘۔ مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے، ’’مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لیے اور اس کی ترقی کی لیے بہت ضروری ہے‘‘۔ امریکہ کا مشہور صدر ابراہم لنکن کہتا ہے، ’’کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے‘‘۔ والٹیئر کا قول ہے، ’’وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں‘‘۔ رینے ڈیس کارٹیس کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے کہ، ’’تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہیں جیسے ماضی کی بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے‘‘۔
کتب بینی ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے زندہ کردار موجود ہیں جو کتب بینی جیسے عظیم الشان کام کو بطور مشغلہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی علم کے خزانوں میں سے موتی چننے میں مصروف اور اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہیں۔ اِن لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق تقریباََ دم توڑ چکا ہے۔ بہت کم نوجوان ایسے ہیں جو ذوقِ کتب بینی کی حلاوت سے آشنا، کتاب دوستی پہ نازاں اور کتابوں کی معیت میں فرحاں و شاداں ہیں ورنہ اکثر نوجوان کتب بیزار ہی واقع ہوئے ہیں۔ وہ اپنی نظروں کے سامنے ’’کتاب‘‘ کے علاوہ ہر چیز کی موجودگی برداشت کرسکتے ہیں۔ کتاب پڑھنا اُن کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں، فضول اور واہیات مجلسوں، ڈراموں اور فلموں کو کتب بینی کے عوض خرید چکے ہیں اور اس سودا پر بہمہ وجود راضی و قانع ہے۔
ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی بھی ہے جو کھیل کود، ناچنے تھرکنے، نت نئے فیشن اختیار کرنے، ملبوسات کے نئے سٹائلز زیبِ تن کرنے، بالوں کی تراش خراش درست کرنے اور خوب سے خو ب تر بلکہ خوب رُو ہونے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اِن اُمور سے کئی گنا اہم کام اُن کی نگاہ میں فضول، بے معنی، بے وقعت اور ہیچ ہیں۔ ایسے لوگوں کے ان معاشرتی رویوں اور بے کار مشغولیات کا ایک سبب اِن کے والدین بھی ہیں جو ان کی اصلاح و تربیت کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ چکے ہیں۔ وہ اپنے بچوں یا نوجوان بیٹوں کو عمر عزیز کی بہاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا درس دے کر اُن کے مستقبل کو ہی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو بھی مخدوش کردیتے ہیں۔ اس لیے کہ یہی نو نہالان ِ قوم کل ملک و ملت کی کشتی کے ناخدا بنیں گے۔ نتیجہ کے طور پر ایک ایسی نسل پیدا ہورہی ہے جو تعلیم کے زیور سے محروم اور لغویات کی بھرمار کا پلندا ہے۔
یہ کتب بینی سے دوری اور بُعد ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدر دانی اور مرتبہ شناسی کا عنصر ناپید ہے۔ اساتذہ اور ہمسایہ کے حقوق سے عدم واقفیت اپنے عروج پر ہے۔ اِس سے زیادہ پر خطر، باعث تشویش، قابل ِ غور اور قابل ِاصلاح بات یہ ہے کہ نئی نوجوان نسل کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ بھی قابلِ افسوس، قابلِ ماتم اور قابلِ مذمت ہے۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کی لذت ، حلاوت، شیرینی اور چاشنی سے آگاہ کریں اور اُنہیں مطالعہ کا خوگر بنائیں، اپنے مشرقی روایات کی پاسداری کا پابند بنائیں اور سچے مسلمان ہونے کا درس دیں تو قوی اُمید اور امکان ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے پیمانے پر حقیقی معنوں میں تبدیلی آجائے گی اور ملک و ملت کا نام دنیا کی مہذب ترین اقوام میں شمار ہونے لگے گا۔

حصہ