گھر کی خبر نہیں

681

زاہد عباس
’’اور بھئی خالد کیا حال ہیں، کہاں چلا!‘‘
’’عارف بھائی کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘
’’وہ تو گھر پر نہیں ہیں، میں خود انہی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ نہ جانے کون سی جگہ جا بیٹھے ہیں، پچھلے دو گھنٹے سے تلاش کر رہا ہوں۔‘‘
’’تجھے کیا کام ہے! وہ پڑھا لکھا آدمی ہے، تیرا اُس سے کیا تعلق؟‘‘
’’سیزن آگیا ہے، اسی لیے ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
’’سیزن آگیا ہے! کیا مطلب؟ عارف تو کوئی کاروبار نہیں کرتا، پھر کیسا سیزن؟‘‘
’’یار خالد امتحانات آگئے ہیں، ان کو ہی ’سیزن‘ کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’پھر الٹی بات کررہا ہے۔ ابے امتحانات سے تیرا کیا واسطہ! تُو اپنے ورکشاپ جا، اور گاڑیوں کی مرمت کر۔ نئی پینٹ شرٹ پہن کر گھومنے سے پروفیسر نہیں بن جاتے۔ تجھے مزدوری کرنی ہے، وہی کر، فضول باتیں نہ کر۔‘‘
’’خالد یار میں مزدوری کی ہی تو بات کررہا ہوں۔ اصل میں جب بھی امتحان شروع ہو تو میں عارف بھائی کے ساتھ امتحانی کام کرنے لگتا ہوں جس سے اچھی خاصی رقم میرے ہاتھ لگ جاتی ہے جو مکینک کے کام میں نہیں ملتی۔‘‘
’’وہ کس طرح؟‘‘
’’یار بات دراصل یہ ہے کہ عارف بھائی امتحانی میدان کے چیتے ہیں، پیپر آؤٹ کرنے میں ماسٹر ہیں، پرچہ آؤٹ ہونے کے بعد حل شدہ پرچے کی فروخت میری ذمہ داری ہوتی ہے، پہلی شفٹ میں آٹھ دس ہزار روپے، جبکہ دوسری شفٹ کے امتحان میں بھی اتنے کی ہی ’’پیدا‘‘ ہوتی ہے۔ یوں سارا دن میں 18 سے 20 ہزار روپے کی دہاڑی لگ جاتی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ، ہے کوئی ایسا کام جس میں اتنے زیادہ پیسے اتنی جلدی کمائے جاسکیں؟‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے، یہ ہے تیری اور عارف بھائی کی دوستی کا راز۔ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے؟‘‘
’’کئی سال سے مال کما رہا ہوں، بہت ٹائٹ کام ہے، مال کا مال عزت کی عزت۔‘‘
’’او بھائی اب تھوڑی سی احتیاط کرلے، حالات اچھے نہیں ہیں۔ سنا نہیں پچھلے دنوں چیئرمین بورڈ نے نقل مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں اور کوئی بچانے والا نہ ہو۔ دیکھ اپنا گھر بار دیکھ، عزت کی روٹی کما، اور یہ سارے دھندے چھوڑ دے۔ یقین نہیں آتا تو آج کا اخبار خود پڑھ لے، اس میں بھی چیئرمین بورڈ کی پریس کانفرنس چھپی ہے۔‘‘
چیئرمین ثانوی بورڈ کے مطابق کراچی میں میٹرک کے امتحانات کے اختتام کے ساتھ ہی اعلیٰ ثانوی بورڈ کے تحت گیارہویں، بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات کا آغاز ہوگیا ہے۔
کراچی میٹرک بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں جو تماشا لگایا گیا اُس سے ہر شہری بخوبی واقف ہے۔ اب جب کہ انٹر بورڈ کے سالانہ امتحانات کا آغاز ہوچکا ہے تو بقول ہمارے حکمرانوں کے، پرانی باتوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے، لہٰذا ہماری تمام تر توجہ رواں ماہ ہونے والے انٹر کے امتحانات تک ہی محدود رہنی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ ہم امتحانات کی شفافیت پر لب کشائی کریں، چیئرمین انٹر بورڈ پروفیسر انعام احمدکی جانب سے انٹرمیڈیٹ کے جاری امتحانات کی شفافیت سمیت طلبہ کو دی جانے والی سہولیات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
چئیرمین انٹر بورڈ کے مطابق کراچی میں انٹرمیڈیٹ گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے سالانہ امتحانات کے پہلے مرحلے کا آغاز 15اپریل سے ہوگیا ہے۔9 مئی تک جاری رہنے والے امتحانات میں سائنس پری میڈیکل، پری انجینئرنگ، سائنس جنرل، ہوم اکنامکس، میڈیکل ٹیکنالوجی، کامرس ریگولر اور کامرس پرائیویٹ گروپس کے امتحانات ہوں گے۔ ان امتحانات میں صبح اور شام کی شفٹوں میں ہونے والے پرچوں میں 2 لاکھ 15 ہزار 800 طلبہ و طالبات شرکت کریں گے۔ صبح کی شفٹ میں صبح ساڑھے 9 بجے سے ساڑھے 12 بجے تک سائنس پری میڈیکل، پری انجینئرنگ، سائنس جنرل، ہوم اکنامکس اور میڈیکل ٹیکنالوجی گروپس کے امتحانات ہوں گے جس میں تقریباً ایک لاکھ 22 ہزار طلبہ و طالبات شریک ہوں گے، جبکہ شام کی شفٹ میں دوپہر 2 بجے سے شام ساڑھے 5 بجے تک کامرس ریگولر اور کامرس پرائیویٹ گروپس کے امتحانات ہوں گے جس میں تقریباً 94 ہزار امیدوار شرکت کریں گے۔ اس طرح انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات برائے 2019ء کے لیے صبح اور شام کی شفٹوں میں مجموعی طور پر 188 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، جن میں سے 103 امتحانی مراکز صبح کی شفٹ کے لیے، جبکہ 85 شام کی شفٹ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر 59 امتحانی مراکز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے، جن میں 32 صبح کی شفٹ میں، جبکہ 27 شام کی شفٹ میں ہیں۔ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے چیئرمین پروفیسر انعام احمد کے مطابق شفاف امتحانات کے لیے امن و امان، امتحانی مراکز کی سیکورٹی اور بجلی و پانی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرلیے گئے ہیں، امتحانات میں کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے اور نقل کی روک تھام کے لیے کمشنر آفس کراچی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی میں دو مانیٹرنگ سیل بنائے گئے ہیں، انٹربورڈ سمیت تمام امتحانی مراکز پر بینرز آویزاں کیے گئے ہیں جن میں طلبہ و طالبات اور والدین کو آگاہ کیا گیا ہے کہ امتحانی مراکز میں کوئی بھی الیکٹرانک ڈیوائس، موبائل فون اور کسی بھی شکل میں نقل کا مواد لے جانا ممنوع اور قانوناً جرم ہے۔ نقل روکنے اور امتحانی عمل کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی ویجی لینس کمیٹی کے قیام کے ساتھ سینئر اساتذہ پر مشتمل 3 سپر ویجی لینس ٹیمیں، اور معمول کی ویجی لینس ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو مراکز کا دورہ کرکے امتحانی عمل کا جائزہ لیں گی۔ بورڈ آفس کی طرف سے امتحانی مراکز تک پرچوں کی بروقت اور بہ حفاظت ترسیل اور امتحان ختم ہونے کے بعد جوابی کاپیوں کے سربمہر پیکٹس بورڈ آفس پہنچانے کے لیے سینٹر کنٹرول آفیسرز، جبکہ امتحانی عمل پر مسلسل نظر رکھنے کے لیے ہر امتحانی مرکز پر ویجی لینس آفیسر بھی تعینات کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ امتحانی مراکز کی انتظامیہ کو امیدواروں کو دورانِ امتحانات تمام سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔ امتحانی مراکز کے اطراف دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اطراف میں قائم فوٹو اسٹیٹ مشینوں کی دکانیں کھولنے، امتحانی مراکز میں غیرمتعلقہ افراد کی آمدورفت اور موبائل فونز کے استعمال پر سختی سے پابندی ہوگی۔
دیکھا آپ نے، چئیرمین انٹر بورڈ کراچی نے امتحانات کی شفافیت اور نقل کی روک تھام کے لیے کس قدر محنت کی ہے! اس سلسلے میں نہ صرف موبائل فونز کے استعمال اور فوٹو اسٹیٹ کی دکانیں کھولنے پر پابندی لگا دی گئی ہے بلکہ کاپی کلچر کے خاتمے کے لیے سپر ویجی لینس ٹیموں سمیت دوسرے اداروں کے افسران کو بھی بھرپور اختیارات دیے گئے ہیں، یعنی غیر متعلقہ اداروں کی اعلیٰ قیادت کو بھی اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت دی گئی ہے۔ چیئرمین انٹر بورڈ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے حقیقی معنوں میں ’’پڑھا لکھا کراچی‘‘ بنانے کی ٹھان لی ہے۔
بے شک نقل کی روک تھام ضروری ہے، اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات بھی قابلِ تعریف ہیں، لیکن چیئرمین انٹر بورڈ اور ناظم امتحانات کو امتحانی مراکز محفوظ بنانے اور کاپی کلچر کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی خبر بھی رکھنی چاہیے، جہاں ان کی ناک کے نیچے بدانتظامی اور کرپشن کا ایسا بازار گرم ہے ماضی میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیسیوں درجن ایڈمٹ کارڈ گم کردیے گئے ہیں، سیکڑوں بچوں کی تصاویر کی جگہ دوسروں کی تصویریں پرنٹ کردی گئی ہیں، کسی کا نام غلط، تو کسی کی ولدیت تبدیل کردی گئی ہے۔ کسی کے امتحانی مرکز کے نام میں، تو کسی سینٹر کے ایڈریس میں غلطی کی گئی ہے۔ کالجوں کی جانب سے جمع کروائے جانے والے امتحانی فارموں میں سے سیکڑوں غائب کردیے گئے۔ یوں بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے امتحان دینے والے طلبہ و طالبات کی خاصی بڑی تعداد دھکے کھانے پر مجبور ہے۔
ظاہر ہے جب کسی بھی ادارے میں اس قسم کی بدانتظامی ہو تو ’’سب اچھا‘‘ کی نوید سنانا اپنے دل کو تسلی دینے کے مترادف ہے۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ اس قسم کی خرابیوں کا مقصد ’’خرچہ پانی‘‘ کے حصول کے سوا کچھ نہیں۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے بچوں کو جانتا ہوں جن سے ایڈمٹ کارڈ پر بورڈ کی جانب سے لگائی جانے والی غلط تصویر کی تبدیلی کے نام پر رقم طلب کی گئی، یعنی ناظم امتحانات کی جانب سے کی جانے والی غلطی کی درستی کا بھگتان بھی بچہ ہی بھگتے۔ بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے رئیس کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے جس کا امتحانی فارم کالج فہرست کے مطابق بورڈ میں جمع تھا، لیکن اسے ایڈمٹ کارڈ نہ مل سکا۔ کبھی کالج تو کبھی انٹر بورڈ کی سیڑھیاں چڑھنے اترنے کے بعد اُسے فارم کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی، اور دوبارہ فارم جمع کروانے کی ہدایت ملی۔ فارم دوبارہ جمع کروانے پر کورنگی میں رہنے والے اس بچے کا امتحانی مرکز شپ اونر کالج نارتھ ناظم آباد نزد کٹی پہاڑی بنادیا گیا۔ یہاں بھی بورڈ کے عملے کی نااہلی کی سزا بچے کو ہی دی گئی۔ کورنگی کے ایریا میں قائم گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول نمبر 2 کو کورنگی نمبر 3 لکھ کر بچوں کو گھن چکر بنادیا گیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ امتحانات شروع ہونے کے باوجود درجنوں بچے اپنے ایڈمٹ کارڈ کے لیے کالج سے انٹر بورڈ اور بورڈ سے کالج کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں ہمارے پڑوسی فضل بھائی ان لوگوں میں شامل ہیں جو شاید کبھی اپنے محلے سے باہر نہ نکلے ہوں لیکن بیٹے کے ایڈمٹ کارڈ کے سلسلے میں وہ انٹر بورڈ آفس ناظم آباد کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں، ان کے بقول بورڈ آفس میں ایک میلے کا سماں ہے جہاں ہر دوسرا شخص بورڈ انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے چکر کاٹنے پر مجبور ہے-اس ساری صورتحال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ چیئرمین بورڈ کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس لالی پاپ کے سوا کچھ نہیں- بات سیدھی سی ہے,جس کے اپنے گھر یعنی انٹر بورڈ کی صورتحال درست نہ ہو وہ کس طرح پورے شہر میں ہونے والے امتحانات کی شفافیت کے دعوے کر سکتا ہے!میں آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ خدارا بورڈ انتظامیہ بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلے اور پروفیسر انعام احمد اپنے گھر پر خصوصی توجہ دیں تاکہ پریشان حال طلبہ کو ذہنی کرب سے نجات مل سکے-

حصہ