ڈیٹا کی منڈی

1092

بظاہر تو دی اکنامسٹ ، عالمی سطح کا انگریزی زبان شائع ہونے والاایک مقبول ترین رسالہ ہے جو 1843ء سے مستقل شائع ہو رہا ہے ۔یہ ایک ہفت روزہ رسالہ ہے جو برطانیہ سے جاری ہوتا ہے اور اس کی اشاعت یا سرکولیشن کا تخمینہ کوئی پندرہ لاکھ لگایا جاتا ہے ( ویب ایڈیشن کی تقسیم کار الگ ہے )۔2016ء میں اس رسالے نے 61ملین پاؤنڈ منافع کمانے کا اعلان کیا۔وہ خود کہتا ہے کہ ’ہم کاروبار، مالیاتی شعبے اور حکومتوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ دنیا کس طرح تبدیل ہو رہی ہے اور کس طرح اس کے مطابق ڈھلنے اور کاروباری خطرات کو کس طرح کم سے کم کیا جائے۔‘اس لیے آپ اس میگزین کو معمولی قطعاً نہیں سمجھیں۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی حرکات و سکنات ، حکمت عملی، عالمی منظر نامہ کو سمجھنے کا اہم ترین ابلاغی اوزار قرار دیں تو غلط نہ ہوگا۔اکنامسٹ اپنے ایڈیٹوریل پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے صاف کہتا ہے کہ وہ کلاسیکی اور اقتصادی لبرل ازم کا علم بردار ہے جسے ہم سادہ الفاظ میں جدیدیت بھی کہہ سکتے ہیں۔اکنامسٹ کہتا ہے کہ وہ آزادانہ تجارت، عالمگیریت ، مفت امیگریشن ، ثقافتی لبرل ازم کی حمایت کرتا ہے جس میں ہم جنس پرستوں کی قانونی شادی یا منشیات کی لبرلائزیشن بھی شامل ہے ۔ اکنامسٹ اپنے آپ کو آدم اسمتھ اور ڈیوڈ ہیوم کے نظریات پر مبنی ایک مصنوعہ قرار دیتا ہے ۔ڈیوڈ ہیوم ، کلاسیکی الحاد کا بانی ہے جس نے دنیا کو یہ نظریہ پیش کیا کہ جس چیز تک ہماری ذہنی رسائی کا کوئی امکان ہی نہ ہو اُس کے وُجود کو تسلیم کرلینا بدترین مغالطہ ہے۔اب آپ اندازہ کرلیں کہ کہ یہ کس فکر کا ترجمان ہے ۔
اب چلتے ہیںاصل موضوع کی جانب جو کہ سوشل میڈیا کے دائرہ کار سے متعلق ہے ۔میرے ایک قریبی دوست نے 6مئی 2017 کواکنامسٹ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کا لنک اپنی وال پر پیسٹ کیا ۔ آرٹیکل کی سرخی نے مجھے وہیں روک دیا ۔ اُسی سرخی اور اسکرین شاٹ کو میں نے مضمون کے ٹائٹل پر جان بوجھ کر لگایا ہے کہ یہی ہمارا موضوع ہے ۔مضمون کا آغاز کرنے سے قبل اس کی اشاعت کے پس منظر کو بتانا ضروری تھا ، یہ بات کون کہہ رہا ہے؟ کیا بتانا چاہتا ہے ؟
بات یہاں ختم نہیں ہوئی ، اس مضمون کی سرخی تک کی سچائی یا عملی صداقت مجھے اپنے اطراف محسوس ہونا شروع ہوگئی۔مجھے اپنا ’اسمارٹ فون ‘انتہائی ’کریہہ‘ لگنے لگا۔مجھے لگا کہ میں اس جال میں بری طرح پھنس چکا ہوںنہ چھوٹتاہے نہ تعلق ٹوٹتا ہے۔اس کے ایک اثرات بد کے بارے میںسو فیصد درست پیش گوئی کی ہے حکیم الامت ؒنے ایسے وقت میںجب ایسی کسی شے کاشاید تصور بھی نہیں تھا ۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچھ دیتے ہیں آلات بہر حال پہلے سرخی پر آتے ہیں۔’’دنیا کاسب سے بڑا معاشی وسیلہ اب تیل نہیں بلکہ ڈیٹا ہے۔‘‘ ڈیٹا جسے سادہ لفظوں میںمعلومات یا اعداد و شمار بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ کیا ہے ؟ کہاں سے حاصل ہوتا ہے ؟ اس کے ذریعہ کیا کچھ ہو رہا ہے۔اس کی ایک جھلک دکھاتے ہیں ۔
بھارت کی فلم انڈسٹری 1.9بلین ڈالر آمدن کے ساتھ ، 90ممالک میں رسائی رکھنے والی بلاشبہ ایک بڑی صنعت ہے جہاں ایک اوسط اندازے کے مطابق 1600فلمیں (کئی زبانوں میں) سالانہ جاری ہوتی ہیں۔اتنی بڑی انڈسٹری بالی ووڈ (ہندی)، ٹالی ووڈ( تامل)،پالی ووڈ( پنجابی)، سندل ووڈ(کناڈا)کے علاوہ کئی زبانوں میں تقسیم ہے ۔بالی ووڈ کے بعد جنوبی بھارت یعنی تامل فلموں کا نمبر آتا ہے ۔ ان فلموں کی سب سے اہم بات ان کا ایکشن اور موضوعات ہوتے ہیں۔ تامل فلموں میں معاشرتی خرابیوں کو سامنے لانے ، ان سے نفرت کرنے اور ان کو دور کرنے کے لیے نت نئے آئیڈیاز لائے جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات میں نے یہ محسوس کی ہے کہ بالی ووڈ کے مقابلے میں تامل فلموںکے موضوعات میںمسلمان مخالف، پاکستان مخالف مواد کہیں نظر نہیں آتا۔اس کے برعکس وہاں کے اکثریت فلمساز وں کی توجہ نت نئے موضوعات اور ایکشن مناظر پر ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بالی ووڈ کو تامل فلموں کا ری میک بنانا پڑ جاتا ہے اور وہ ری میک فلم بھی عوام میںکامیابی پاتی ہے ۔
تامل فلموں میں مقصدیت ( سماج سدھار) کا عنصر اتنا غالب محسوس ہوتا ہے کہ ’ارمبو تھرائی ‘ یعنی لوہے کا پردہ نے یہاں ذکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ارمبو تھرائی بنیادی طور پر ایک سائبر کرائم تھرلر فلم کی کیٹگری میں شمار ہوتی ہے ۔اس فلم کے بے شمار کلپس سوشل میڈیا پر مختلف عنوانات سے وائرل رہے ہیں۔سینما نمائش کی مد میں فلم نوے کروڑ کما چکی ہے جبکہ یو ٹیوب پر اس فلم کو.1 7کروڑ لوگ دیکھ چکے ہیں۔
اکنامسٹ نے2017میں جو بات سمجھانے کی کوشش کی ،اگلے سال 2018میں اس ایک فلم نے اُس کی ایک حقیقت بیان کر کے رکھ دی۔یہ ڈیٹا کیا ہے ؟ کس طرح سے آپ بے دھیانی میں اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیںاور کوئی کیسے اسے معیشت یا آمدن میں تبدیل کرتا ہے ۔ہم جو اپنے ’اسمارٹ فون‘ سے چپکے رہتے ہیںاور اس چھ انچ اسکرین کی دنیامیں اپنے شب و روز لگا رہے ہوتے ہیںیہ سب معلومات محفوظ ہو جاتی ہیں۔ہیکنگ ، ڈارک ویب (جس کا ذکر اس سے پہلے قصور کی معصوم زینب کے ضمن میںآچکا ہے ) کے کارنامے سائبر کرائم کی ایک گہری دنیا یہ سب بتا رہے ہیں کہ آپ کا ’ڈیٹا‘ ، یعنی آپ کا نام، آپ کا شناختی کارڈ نمبر ، ای میل پاس ورڈ، فیس بک اکاؤنٹ، آپ کی مشغولیات، دوست، خاندان، سب کچھ سب کچھ مانیٹر ہو رہا ہے ۔کسی بھی وقت اس ڈیٹا کو استعمال کرنے والی قوت جو چاہے کر گزر سکتی ہے ۔یہ جو مختلف انعامی اسکیموں میں رابطہ نمبر لیے جاتے ہیں، یہ جو فوٹو کاپی کی دکان پر کبھی شناختی کارڈ وغیرہ کی اضافی کاپیاں نکل جاتی ہیں، کئی شاپنگ مالز میں کسی نہ کسی بہانے سے کم سے کم آپ کا موبائل نمبر ، نام معلوم کیا جاتا ہے ۔ یہ جو آئے دن میسیجز یا کال آتی ہیں کہ ہم فلاں بینک، فلاں ادارے سے بات کر رہے ہیں اور کچھ معلومات مانگتے ہیں۔ ای میلز پر اکثر سروے کے لیے سوالات آتے ہیں۔اپنے موبائل فون پر ایپلی کیشن ڈاؤ ن لوڈ کرنے کے بعد جب وہ آپ کے فون بک، کیمرا ، تصاویر سب تک رسائی Accessمانگتا ہے اور ہم ہاں کر دیتے ہیں۔ جہاز کے ٹکٹ پر موجود کیو آر کوڈ میں چھپے آپ کے پاسپورٹ نمبر و دیگر کوائف۔آئے دن مختلف اداروں سے آپ کے پاس واٹس ایپ یا ایس ایم ایس کا آنا۔یہ سب کیا ہے؟کسی بھی جگہ آپ اپنا نام یا کوئی معلومات درج کرواتے ہیں وہ ڈیٹا ہوتا ہے جو منصوبہ بندی کے تحت پھر مارکیٹ میں مختلف مقاصد کے تحت فروخت ہو تا ہے ۔آ پ کو پتہ ہی نہیں اور آپ کا نمبر آپ کی مرضی کے بغیر کئی بار فروخت ہو رہا ہے ۔غرض کہ اسمارٹ فون کی آمد کے بعد نجی زندگی کا تصور ختم ہو چکا ہے ۔بات ختم نہیں ہوتی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ گوگل یا یوٹیوب اب اسکرین پر وہی کچھ لنک دکھاتا ہے جو آپ کی دلچسپی، شوق سے متعلق ہوںیا آپ نے ماضی میں تواتر سے ان اشیاء کو سرچ کیا ہو ۔gimalto ڈجیٹل سیکورٹی میںعالمی لیڈر مانا جاتا ہے ، اس کے مطابق صرف 2018میںجو کچھ ہوا ہے وہ من و عن پڑھ لیں:
Data breaches compromised 4.5 billion records in only the first half of 2018. The most recent of these high-profile scandals is the Marriott data breach, where hackers stole private details from around 500 million customers. These details include names, addresses, credit card and phone numbers, as well as passport numbers and travel details.
سائبر کرائم دنیا کا تیزی سے پھیلتا ہوا جرم بنتا جا رہا ہے ، عوام اپنے ڈیٹا(معلومات) کے تحفظ سے بے پرواہ ہیں۔ بھارت میں ا س حوالے سے تحفظ ڈیٹا کی قانون سازی بھی کی جا رہی ہے ۔
Amazon, Apple, Facebook, Microsoftجیسے ادارے اس وقت سب سے بڑے ڈیٹا ہولڈرز ہیں۔ نہ ہمارا دیٹایہاں محفوظ ہے اور شاید کہیں نہیں۔ایک عام آدمی تو صرف ٹچ موبائل ہی جانتا ہے اس کے آگے وہ کچھ نہیں جانتا ، اس لیے ایسوں کو لوٹنا نہایت آسان ہوتاہے ۔یہ جوپچھلے سال ’نادرا ‘کا ڈیٹا چوری ہونے کی خبرسے ہل چل مچی تھی ۔ یہ جو الیکشن ایا م میں ووٹرز کی معلومات جمع کی جاتی ہیں ۔ویسے جن پارٹیوں نے اس ڈیٹا سے مدد لینا چاہی اور ڈیٹا بیس کی مدد سے ایسے سافٹ ویئر ایپلی کیشن تیار کیے جس کی وجہ سے الیکشن کے دن ووٹر کا اندراج دیکھنے اور نکالنے میں آسانی رہی انہوں نے اتفاق سے اقتدار بھی حاصل کیا۔اسی طرح چند مثالیں اور ہیں جن میں حالیہ دنوں پاکستان میں بینکوں کے آن لائن سسٹم پر بین الاقوامی ہیکرز کے حملے کے بعد جہاں بینکوں کے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا وہیں صارفین میں بھی اپنے ڈیٹا پر شدید تشویش سامنے آئی ۔فیس بک ڈیٹا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد میسجنگ ایپ واٹس ایپ نے واضح کیا ہے کہ اس کے صارفین کے پیغامات اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے باعث محفوظ ہیں اور وہ کسی قسم کا مواد میسجز سے اکھٹا نہیں کرتی۔واٹس ایپ دنیا کی مقبول ترین مسیجنگ ایپ ہے جس کے ماہانہ صارفین کی تعداد ایک ارب 50 کروڑ سے زائد ہے اور اس حوالے سے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ فیس بک کی زیر ملکیت اس اپلیکشن میں بھی صارفین کا ڈیٹا محفوظ نہیں۔چیک ریپبلک کی ایک سکیورٹی کمپنی نے ’فیکٹری ری سیٹ‘ یعنی مکمل طور پر غیر استعمال شدہ حالت میں لائے گئے فونز میں سے بھی لوگوں کی ذاتی تصاویر نکالی ہیں۔فیس بک صارفین کی پسند، ناپسند، لائف سٹائل اور سیاسی رجحان سے ان کے پروفائل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے ڈیٹا کو مکمل طور پر محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ اپنے پرانے فون کو تباہ کرنا ہے۔( بحوالہ بی بی سی)
مذکورہ فلم کے ذریعہ اکنامسٹ کی تحریر سے کھینچی گئی تصویر میں رنگ بھرا گیا ہے۔جیسے یہ بات حقیقت ہے کہ تیل پر حکومت کرنے والوں نے ہی معیشت کو قابو میںرکھاہوا ہے اسی طرح اب اگر تیل کی جگہ ڈیٹا نے لے لی ہے تو آپ اندازہ کرلیں کیا ہونے جا رہا ہے ۔ڈیٹا کی معیشت اپنی شناخت کے قوائد کا نیا نقطہ نظر طلب کرتی ہے ۔بات یہ ہے کہ لوٹنے کی اب ایک اور جدید شکل یہ بھی آئی ہے کہ ملٹی نیشنل کے گاہگ کے ذہن، عادت ، اطوار ، شوق ، ذوق کے مطابق اس کو چیز فراہم کی جائے ، یہ کام اس کے ڈیٹا کے بغیر ممکن نہیں۔اس لیے سرمایہ دارانہ نظام جو کہ جدیدیت کے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتا ہے اُس میں سرمایہ بنانے کے لیے اب آپ کا ڈیٹا بھی استعمال ہوگا۔
یہ ہفتہ حکومت کے لیے اچھا نہیں گزرا ، صدارتی نظام کے حق میں رائے عامہ کی کوشش کرتے کرتے اسد عمر ، وزیر خزانہ کا استعفیٰ ، کوئٹہ بم دھماکے ، اسکے بعد بھارتی پشت پناہی پر سانحہ اورماڑہ نے سماجی میڈیا پر جگہ بنائے رکھی ۔حکومت کے بار بار یو ٹرن اور بڑھکیاں، مہنگائی میں تیز ترین اضافہ ، سب کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ نغمے کی بھارتی کاپی بھی وائرل رہی ۔ کراچی میں پولیس کے ہاتھوں معصوم بچے کی موت ،ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت سے نشوہ ودیگر کے ساتھ ہونے والے سانحہ بھی سماجی میڈیا پر موضوع بنے رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود لاکھوں پاکستانی اصل ایشوز سے دور بہت دور ہیں ۔جان لیں کہ سرمایہ دارانہ نظام صرف ایک پاور پراجیکٹ یا ٹیکنالوجی نہیں ، بلکہ یہ ایک مکمل طرز فکر ، پورا طرز زندگی ہے ۔یہ اتنا خطرناک ہے کہ اگر ہم اس کے لیے ایک چیلنج اور نتیجہ خیز قوت نہیں بنیں گے تو جدیدیت کی شکل میں ہمارے مذہبی لبادے کو برقرار رکھتے ہوئے جس تیزی سے ہمیں اندر سے ماڈرنائز کر رہا ہے اس کے بعد ہماری کوئی اصل شکل باقی نہیں رہے گی ۔احمد جاوید کے بقول ضروری ہے کہ ہم ایک اجتماعی و ملی وجود بن کر سوچیں ۔ یہ ہماری نظریاتی ،وجودی و تہذیبی بقاء کا مسئلہ ہے اور اس بقاء کی جنگ میں اگر ایک فرد بھی غافل ہے تو وہ گویا اپنے مسلمان ہونے ہی سے غافل نہیں بلکہ اپنے موجود ہونے میں بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔

حصہ