مسکراتے رہیے،اپنی بات

362

اجالا جب ہوا رخصت شب کی افشاں کا
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبحِ خنداں کا

اقبال کی تشبیہات کا حسنِ کمال کا ہے، اس شعر میں وہ ستاروں کو محبوبۂ شب کی پیشانی کی افشاں قرار دیتے ہیں، کہ جب زندگی کی نسیم مسکراتی ہوئی صبح کا پیغام لائی تو ستارے رخصت ہوگئے اور صبح ہوگئی۔ لیکن یہ صبح خنداں یعنی مسکراتی ہوئی صبح ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ عموماً تو صبح ہونا مشکل ہے کہ رات کو موبائل اور اس کی مختلف ’’ایپس‘‘ کے ہاتھوں جاگ جاگ کر دیر سے سونا ہوتا ہے، لہٰذا صبح دیر سے ہوتی ہے، بلکہ اُس وقت ہوتی ہے جب سورج نصف دن گزار کر اپنا آدھا سفر مکمل کرچکا ہوتا ہے۔
لیکن اگر پھر بھی صبح ہو جائے اور صبح کو اٹھنا ہی پڑے تو خواتین کے ماتھے کی شکنیں بمشکل دور ہوتی ہیں، بچے الگ بے زار بے زار سے رہتے ہیں۔ صبح کی مسکراہٹ کے لیے رات صحیح وقت پر سونا لازم ہے، جس کے لیے خواتین یعنی مائوں کو ہی سوچ کر کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا، ورنہ نسیم زندگی زندوں کو صبح خنداں کا پیغام دیتی ہے تو سوئے گور (قبرستان) میں جاکر مُردوں کو کچھ اور پیغام دیتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں ’’پیغام صبح‘‘ میں کہ

سوئے گورِ غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے
تو یوں بولی نظارہ دیکھ کر شہرِ خموشاں کا
ابھی آرام سے لیٹے رہو میں پھر بھی آئوں گی
سلا دوں گی جہاں کو، خواب سے تم کو جگائوں گی

مطلب قیامت… جب ساری دنیا ختم ہوجائے گی اور مُردے جی اٹھیں گے۔ سو نسیم صبح قیامت کی خبر بھی لے کے آئے گی۔ ہماری دعا ہے کہ ہر روز کی مسکراتی صبح سارے ساتھیوں کو مبارک ہو، کہ ہر روز خندہ پیشانی کے ساتھ کرنا بڑی نیکی ہے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراہٹ کو صدقہ قرار دیا ہے۔ مسکرایئے اور مسکراتے رہیں، اللہ زندگی کی ہر مشکل کو آسان کرے، آمین۔
غزالہ عزیز… انچارج صفحہ خواتین

حصہ