سوات:پاکستان کا سوئٹزرلینڈ

1275

شبیر ابن عادل
خوبصورت اور حسین فطری مناظر، بلند وبالا پہاڑوں، دلفریب آبشاروں، بل کھاتے اور شور مچاتے دریا اور بے شمار پرکشش تفریحی مقامات کی وجہ سے سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔
سوات کئی مرتبہ جانا ہوا، اور ہر مرتبہ یہی حسرت لے کر واپس لوٹے کہ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ کیونکہ اس کو جتنا دیکھو، دل ہی نہیں بھرتا، اور دل سے یہی صدا آتی ہے کہ کچھ دن اور ان فطری مناظر کو دیکھ لیں، کچھ دن اور اس جنت نظیر خطے میں گزار لیں۔ اپنے ربّ کی صناعی اور بہترین تخلیق کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے، اور کبھی سجدۂ شکر بجا لاتا ہے۔
مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، وہ لوگ خوش اخلاق، مہمان نواز اور محنتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ ہے۔ سوات صوبہ خیبر پختون خوا کا ضلع ہے اور یہ سابق ریاست تھی، جسے 1970ء میں ضلع کی حیثیت دی گئی ۔ پوری وادی پانچ ہزار 337 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ اور مغرب میں ضلع دیر واقع ہیں۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: بالائی سوات، زیریں سوات اور کوہستان ۔
سوات وسطی ایشیا کی تاریخ میں علم ِبشریات اور آثارِ قدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہرت حاصل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔
اس کا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد سے 254 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ جبکہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے 170کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے ضلعی صدر مقام سیدو شریف میں ایک چھوٹا سا ائیرپورٹ ہے، فضائی راستے کے علاوہ سڑک کے راستے بھی لوگ سوات جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو سڑک کے راستے سفر کرنے کا اپنا مزا ہے۔ پنڈی میں پیر ودھائی کے بس اڈے سے سوات جانے والی بس میں بیٹھیں تو واہ کینٹ اور مردان سے ہوتی ہوئی مالاکنڈ کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور پھر سوات کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جہاں مینگورہ پہنچ کر اس کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر آگے جانا ہو تو دوسری بس میں سفر کرنا ہوگا۔ چونکہ تھکن بہت تھی، اس لیے مینگورہ کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ مینگورہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، وہاں فضاگیٹ پارک اپنی مثال آپ ہے۔
ہم لوگ مینگورہ سے نکل کر مالم جبہ پہنچے، جہاں کے نظارے ہی منفرد اور دلکش تھے۔ یہاں سردیوں کے موسم میں بھی گئے۔ جہاں سیم سن اسکی ریزورٹ سردیوں میں آباد ہوتا ہے۔ بہت سے متوالے اسکینگ کرنے ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں اور بہت سے غیرملکی سیاح بھی آتے ہیں۔ وہاں بہت سے عمدہ ہوٹل ہیں، اس کے علاوہ چیئرلفٹ بھی ہیں، جن میں بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
سوات میں مجھے بحرین پسندآیا، جہاں دریا کا بلند آہنگ شور بہت مزا دیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا، جو بالکل دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ اس کا نام بحرین اس لیے ہے کہ یہ دریائے سوات اور دریائے درال کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں درخت اور سبزہ زار دیکھنے والوں پر سحر کی سی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کہ سوات میںکون سا مقام سب سے خوبصورت ہے۔
ایک صبح ہمارا رخ کالام کی طرف تھا، دریا کے کنارے پر واقع یہ دلکش قصبہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف دریا، اس کے اطراف سبزہ زار اور تھوڑے ہی فاصلے پر کئی آبشار۔ دریائے سوات کے کنارے پر ایک جھونپڑا ہوٹل پر بیٹھے اور چائے کاآرڈر دیا، سخت سردی اور دہکتے ہوئے کوئلوں کا دھواں اور چائے کی کیتلی سے بلند ہوتی ہوئی بھاپ ایک عجب سماں پیدا کررہی تھی۔ کالام میں پہلے پی ٹی ڈی سی کا موٹیل تھا، لیکن اب ایک خوبصورت فائیو اسٹار ہوٹل اور دوسرے بہت سے ہوٹل ہیں۔ لیکن دریا کنارے واقع ہوٹلوں میں قیام سے سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اگلی دوپہر کالام میں ٹراؤٹ مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا۔ ٹراؤٹ اُس علاقے کی خاص سوغات ہے جس کا سوندھا مزا اور لذت برسوں یاد رہتی ہے۔ کالام ہی میں سیف اللہ جھیل ہے، ایک جانب تو اس کا فطری حسن سیاحوں کو مبہوت کردیتا ہے اور دوسری جانب اسی جھیل میں مزیدار ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔
کالام سے گیارہ کلومیٹر آگے کی طرف سفر کریں تو مٹلتان کا علاقہ آتا ہے، جو اپنے گھنے جنگلوں، برف پوش پہاڑی چوٹیوں اور بڑے بڑے گلیشیرز کی وجہ سے مشہور ہے۔ کالام ہی سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر’’اپر اوشو‘‘ کی وادی میں مہوڈنڈ جھیل واقع ہے، جو اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ کالام سے 19 کلومیٹر کے فاصل پر ایک اور خوبصورت جھیل ہے، جسے کنڈول کہتے ہیں۔ جبکہ کالام میں گھنے اور بے پناہ خوبصورت جنگلات بھی ہیں۔ یہ جنگلات فطرت کو دریافت کرنے کی بہت سے لوگوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور وہاں مہم جوئی کے شوق بھی پوری ہوجاتے ہیں۔
یہ علاقے تو بہت سے سیاحوں نے دیکھے ہیں لیکن بحرین، مدین اور کالام کی ذیلی وادیوں، سرسبز چراگاہوں، خوبصورت جھیلوں اور پہاڑی راستوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اسپن خوار جھیل، اترور وادی کے مشر ق میں پہاڑوں کے درمیان چھپی ہوئی ہے۔ کھپیرو جھیل نیلے پانی کی دلکش جھیل ہے اور سطح سمندر سے تیرہ ہزار چار سو فٹ بلند ہے۔ اسی طرح سوات کی سعید گئی جھیل بھی اپنے حسن میں لاجواب ہے۔ سوات ہی میں کوہ ہندوکش کا خوبصورت سلسلہ سیاحوں کو ہائیکنگ اور مہم جوئی کی دعوت دیتا ہے۔
سیدو شریف سے تیرہ کلومیٹر دور مرغزار کے چھوٹے سے قصبے میں سفید محل واقع ہے، جسے 1940ء میں تعمیر کیا گیا اور اب اسے ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مانکیال گاؤں، میدیان، کالاکوٹ اور دیگر گاؤں کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مینگورہ کے شمال میں بیس کلومیٹرکا سفر طے کریں تو شنگرائی کی خوبصورت آبشار آتی ہے۔ سوات کے شاہی باغ کے کیا کہنے، جس کا سبزہ زار آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مینگورہ سے 56کلومیٹر دور میاں دم کا حسین قصبہ ہے۔ سطح سمند ر سے ایک ہزار آٹھ سو میٹر بلند ہونے کی وجہ سے یہاں گرمیوں میں بھی سخت سردی پڑتی ہے۔ سوات کی جروگو آبشار ملک کی بلندترین آبشار ہے۔ اسی علاقے میں دریائے گبرال بھی ہے، جو بے پناہ حسین فطری نظاروں سے بھرپور ہے۔
بہرحال سوات کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ بل کھاتا، شور مچاتا دریائے سوات، دلکش آبشاریں، سرسبز چراگاہیں اور لمبے لمبے درخت، آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والا سبزہ زار، شفاف پانی کے چشمے اور سردیوں میں برف باری اور برف سے ڈھکے علاقوں کی خوبصورتی کے لیے سوات جانا ہوگا۔

حصہ