حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت…

2921

سید مہرالدین افضل
جس طرح ہر زمانے میں تمام پیغمبروں کی دعوت ایک تھی، اسی طرح اس دعوت کی مخالفت کرنے والوں کی ذہنیت اور ان کے اعتراضات بھی ایک ہی جیسے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لیڈر عوام کو آپؑ کی تعلیمات کے خلاف بہکانے کے لیے کہتے تھے کہ: ’’نوح تم ہی جیسا ایک آدمی ہے، کیسے مان لیا جائے کہ اس پر خدا کی طرف سے وحی آئی ہے‘‘ (الاعراف63۔ ہود 27)۔ ’’خدا کو اگر بھیجنا ہوتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا‘‘ (المومنون 24)۔ ’’اگر یہ شخص خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو اس کے پاس خزانے ہوتے، اس کو علم غیب حاصل ہوتا، اور یہ فرشتوں کی طرح انسانی ضرورتوں سے بے نیاز ہوتا‘‘ (ہود 31)۔
عام طور پر لوگ ہمیشہ سے یہی سوچتے رہے ہیں کہ خدا کی قربت حاصل کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اُسے انسانی معاملات اور ضروریات سے بلند ہونا چاہیے… اور وہ ایسا باکمال ہو کہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے… وہ حکم دے اور زمین سے خزانے اُبلنے لگیں… وہ لوگوں کو ان کی پچھلی زندگی اور آنے والی زندگی کے واقعات بتائے… وہ بتا دے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے… مریض بچ جائے گا یا نہیں… حاملہ کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی… بھلا وہ شخص کیسے خدا تک پہنچ سکتا ہے جسے بھوک اور پیاس لگے! جس کو نیند آئے! جو بیوی بچے رکھتا ہو! جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کرے۔ اسی قسم کے تصورات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں کے ذہنوں میں بھی تھے۔ وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیغمبری کا دعویٰ سنتے تھے تو آپؐ کی صداقت جانچنے کے لیے آپؐ سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے، معجزوں کا مطالبہ کرتے تھے ، اور آپؐ کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ… یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ سورہ الانعام آیت نمبر 50 میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب دلوایا گیا: ’’محمدؐ! ان سے کہو ’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ اور یہی جواب سورہ ہود آیت نمبر 31 میں حضرت نوح علیہ السلام نے دیا: ’’اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں‘‘۔ یعنی حقیقت یہ ہے کہ میں ایک انسان ہی ہوں، انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ میں نے کب کیا تھا،کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کر تے ہو۔ میرا دعویٰ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ وہی راستہ میں تمہیں دکھاتا ہوں، تم میری دعوت پر بات کرنے کے بجائے کبھی مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مطالبے کرتے ہو جیسے خدا کے خزانوں کی ساری چابیاں میرے پاس ہیں! اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا کیوں ہوں! میں انسان ہوں، فرشتہ ہونے کا دعویٰ تو میں نے نہیں کیا ہے۔
’’نوحؑ کی پیروی تو ہمارے اراذل (نچلے طبقے کے لوگ، ہمارے کمّی، کمین) نے بے سوچے سمجھے قبول کرلی ہے۔ اگر اس کی بات میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے بڑے اس پر ایمان لاتے‘‘ (ہود 27)۔ ’’نوح اور اس کے پیروئوں میں آخر کون سی کرامت نظر آتی ہے جس کی بنا پر ان کی فضیلت مان لی جائے‘‘ (ہود 27)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی مکہ کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ یہ اعتراض کرتے تھے کہ اِن کے ساتھ ہے کون؟ یا تو چند سر پھرے لڑکے ہیں جنہیں دنیا کا کچھ تجربہ نہیں، یا کچھ غلام اور ادنیٰ طبقے کے عوام ہیں جو بے عقل اور عقیدے کے کچے ہوتے ہیں۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ اس شخص کو ساتھی بھی کیسے کیسے معزز لوگ ملے ہیں، بلالؓ، عمّارؓ، صْہَیبؓ اور خَبّابؓ۔ بس یہی لوگ اللہ کو ہمارے درمیان ایسے ملے جن کو خدا سے قربت اور دوستی کا شرف دیا جاسکتا تھا! پھر وہ ان ایمان لانے والوں کی غربت کا مذاق اڑاتے تھے اور ان سے ایمان لانے سے پہلے کوئی اخلاقی کمزوری ظاہر ہوئی تھی اس پر بھی طعنے دیتے تھے، اور کہتے تھے کہ وہ جو کل تک یہ تھا اور وہ جس نے یہ کیا تھا وہ بھی ’’آج خدا کا دوست بن گیا ہے‘‘۔ ان باتوں کے جواب میں سورہ الانعام آیت نمبر 52 تا 54 میں ارشاد ہوا: ’’اور جو لوگ اپنے ربّ کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو۔ اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار اُن پر نہیں۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔ دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟‘‘… ہاں! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو اِن سے زیادہ نہیں جانتا ہے؟ جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو ’’تم پر سلامتی ہے۔ تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی بُرائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اُسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘ اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے۔‘‘
یہ اعتراض بدترین تکبر کی عکاسی کرتا ہے۔ قرآن مجید ان متکبرین کو براہِ راست جواب دینے کے بجائے خود داعیٔ حق کو نصیحت کرتا ہے، کیونکہ بعض اوقات داعی کو بھی یہ خیال آتا ہے کہ معاشرے کے بڑے دعوت قبول کرلیں تو عوام جانوروں کی طرح ان کے پیچھے آجائیں گے۔ تعلیم دی گئی کہ خدا کے یہاں ہر شخص اپنی اچھائی اور برائی کا ذمہ دار خود ہی ہوگا۔ نہ کوئی کسی دوسرے کی جواب دہی کے لیے کھڑا ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی کی اچھائی چھین سکے گا۔ جب یہ صرف حق کی چاہت میں تمہارے پاس آتے ہیں تو آخر تم کیوں انہیں اپنے سے دُور پھینکو۔ اور بتایا گیا کہ ایسے لوگوں کو جو سوسائٹی میں ادنیٰ حیثیت رکھتے ہیں، سب سے پہلے ایمان کی توفیق دے کر ہم نے دولت اور عزت کا گھمنڈ رکھنے والے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ جو لوگ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان میں کثرت سے ایسے لوگ بھی تھے جن سے زمانۂ جاہلیت میں بڑے بڑے گناہ ہوچکے تھے۔ اب اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگیاں بالکل بدل گئی تھیں، لیکن مخالفین ِ اسلام اُن کو پچھلی زندگی کے برے کاموں کے طعنے دیتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اہلِ ایمان کو تسلی دو، اور انہیں بتائو کہ جو شخص توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتا ہے اس کے پچھلے قصوروں پر گرفت کرنے کا طریقہ اللہ کے ہاں نہیں ہے۔ یہ جو تم کہتے ہو کہ ہم پر خدا کا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے اور وہ لوگ خدا کے غضب میں مبتلا ہیں جنھوں نے ہمارا راستہ اختیار نہیں کیا ہے، تو اس کی کوئی علامت ہمیں نظر نہیں آتی۔ فضل اگر ہے تو ہم پر ہے کہ مال و دولت اور خدم و حشم رکھتے ہیں اور ایک دنیا ہماری سرداری مان رہی ہے۔ تم ٹٹ پونجیے لوگ آخر کس چیز میں ہم سے بڑھے ہوئے ہو کہ تمہیں خدا کا چہیتا سمجھا جائے! اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا کہ: ’’اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا‘‘ (سورہ ہود آیت نمبر 31)۔ یعنی ان کی قدر و قیمت جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ربّ کو معلوم ہے اور اسی کے حضور جاکر وہ کھلے گی۔ اگر یہ قیمتی جواہر ہیں تو میرے اور تمہارے پھینک دینے سے پتھر نہ ہوجائیں گے، اور اگر یہ بے قیمت پتھر ہیں تو ان کے مالک کو اختیار ہے کہ انہیں جہاں چاہے پھینکے۔
غریب اور کم زور لوگوں کے اسلام کو پہلے قبول کرنے میں دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگوں کی آزمائش تھی کہ وہی آئیں… جو حق کو حق سمجھ کر آئیں… چاہے اس کو قبول کرنے والے معاشرے میں ان سے نیچے کے لوگ ہوں… حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔ یہ طبقات خود انسانوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بنائے ہیں۔ اگر خودساختہ اونچے طبقے کے لوگ پہلے اسلام قبول کریں تو کمزور لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا… ہم کہاں یہ کہاں! جبکہ کمزور طبقے کے آگے بڑھنے میں اور طاقت ور طبقے سے کچھ لوگوں کے حق قبول کرنے میں یہ طبقاتی نظام رد ہوجاتا ہے… اب سب برابر ہیں… سب ایک ہی صف میں ہیں… سب کے لیے آگے بڑھنے کا برابر موقع ہے۔ اس طرح سوسائٹی کی تعمیر میں ہر شخص کا پوٹینشل استعمال ہوتا ہے۔ (آج دنیا اگر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو تاریخ کے عظیم حکمرانوں میں شمار کرتی ہے تو اس کا سبب اسلام کی یہی تعلیم ہے، ورنہ آج کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوتا) اور اگر یہ تسلسل جاری رہے تو سوسائٹی معراجِ کمال تک پہنچتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہوتا یہی رہا ہے کہ جو لوگ انبیاء کی دعوت قبول کرکے ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھتے، اور کسی حد تک تعمیر کرکے جاتے رہے… ان کے پیروکاروں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے شیطانی شوق میں… پھر طبقات قائم کرلیے۔ اسلام اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے، اور تبدیلی وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو اس حاضر و موجود نظام کو بدلنا چاہتے ہیں… اور اس میں پیش پیش کمزور طبقہ اور اس کے بھی نوجوان ہوتے ہیں۔ سورہ یونس آیت نمبر 83 میں ارشاد ہوا:(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اِس قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا فرعون کے ڈر سے، اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں۔ اُس خطرناک زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور حضرت موسیٰؑ کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی… مگر مائوں اور باپوں اور قوم کے بڑی عمر کے لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے، جس کا راستہ اُن کو خطرات سے بھرا ہوا نظر آرہا تھا، بلکہ وہ اُلٹا نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰؑ کے قریب نہ جائو، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لائوگے۔ مکہ کی آبادی میں سے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے چند باہمت نوجوان تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو اِن آیات کے نزول کے وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں… صداقتِ اسلامی کی حمایت کررہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے ڈھال بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ علیؓ ابن ابی طالب، جعفرؓ طیّار، زبیرؓ، سعدؓ بن ابی وقاص، مصعبؓ بن عمیر، عبداللہؓ بن مسعود جیسے لوگ قبول ِ اسلام کے وقت 20 سال سے کم عمر کے تھے۔ عبدالرحمنؓ بن عوف، بلالؓ، صہیبؓ کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔ ابوعبیدہؓ بن الجراح، زیدؓ بن حارثہ، عثمانؓ بن عفان اور عمر فاروقؓ 30 سے 35 سال کی درمیانی عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت 38 سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہؓ بن حارث مُطَّلبی۔ اور غالباً پورے گروہ میں ایک ہی صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے، یعنی عمارؓ بن یاسر۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا انالحمد وللہ رب العالمین۔

حصہ