جنت

858

سیدہ عنبرین عالم
’’اور لوہا اتارا گیا، اس میں خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں۔‘‘ (سورۃ الحدید۔25)
دنیا میں ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکاری ہیں۔ جو باتیں قرآن میں لکھی ہیں وہی انگریز سائنس دان کہہ دیں تو مان لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو لبرل، سیکولر یا ماڈرن کہا جاتا ہے۔
ہماری زندگی میں مختلف دھاتوں کا استعمال روزمرہ کی بات ہے، ان تمام دھاتوں میں لوہا سب سے اہم ہے۔ اسی ’’لوہے‘‘ کے لیے اللہ تعالیٰ لفظ ’’اتارا‘‘ استعمال کررہا ہے، جب کہ قرآن کا دیگر اندازِِ گفتگو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کے لیے لفظ ’’پیدا کیا‘‘ استعمال کرتا ہے۔ یوں ایک شک سا پیدا ہوتا ہے کہ ’’لوہا‘‘ زمین کی دھات نہیں ہے بلکہ اسے پیدا کسی دوسری جگہ کرکے زمین پر اتارا گیا ہے۔ مغربی محققین کہتے ہیں کہ شمسی نظام میں وہ اہلیت ہی نہیں کہ یہ لوہے جیسی دھات کو پیدا کرسکے، یہ سورج سے بہت بڑے سائز کے ستاروں میں پیدا ہوسکتا ہے، جہاں حدت بھی سورج سے کئی گنا زیادہ ہو، نظام شمسی میں اس کا تشکیل پانا ممکن نہیں۔ جب کسی نظام شمسی سے باہر کسی بہت بڑے اور بہت گرم ستارے میں لوہے کی مقدار ایک خاص حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے ایک بہت بڑے دھماکے کے ساتھ Release کردیتا ہے، اس اخراج کو Nova یا Super Novaکہا جاتا ہے۔ یہ دراصل لاکھوںکی تعداد میں شہابیے ہوتے ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد خلا میں پھیل جاتی ہے، پھر کسی سیارے میں گر جاتے ہیں۔ یہ تحقیق NASA کے سائنس دان آرم اسٹرانگ نے شائع کروائی، جب کہ یورپ میں اس مسئلے پر 1300 سال سے تحقیق جاری تھی۔
1925ء میں Harward Cartar نے فرعون خامن جو کہ 3300 سال قبل مرا تھا، کی ممی کے پاس سے دو خنجر دریافت کیے، ان خنجروں پر 3300 سال کے عرصے میں بھی زنگ نہیں آیا تھا اور یہ نئے کی طرح چمک رہے تھے۔ قدیم مصریوں کے پاس ایسی تیکنیک کا ہونا ایک حیران کن بات تھی، لہٰذا ان خنجروں پر تحقیق کا آغاز کیا گیا، جس کی رپورٹ ایک جریدے Matoratix and Planetary Science میں شائع ہوئی۔ یہ تحقیق Dr. Comeli نامی سائنس دان نے انجام کو پہنچائی، ان کے مطابق یہ خنجر کسی شہابیے سے برآمد کردہ لوہے سے بنائے گئے ہیں جن میں جست اور کوبالٹ کی بھی خاصی مقدار شامل ہے۔ مصر اور اٹلی کے محققین کے مطابق یہ دھات ویسی ہی ہے جیسی مصری بحیرہ احمر کے پاس اسکندریہ سے 240 کلومیٹر دور گرنے والے ایک شہابیے میں پائی جاتی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1300 قبل مسیح میں مصری اس قدر علم رکھتے تھے کہ وہ جان چکے تھے کہ لوہا زمین کی دھات نہیں۔ اس قدر ذہانت اور علم رکھنے کے باوجود میرے رب سے سرکشی اور صرف اپنے کمال پر ناز انہیں لے ڈوبا۔ آج ہم جو انسان کی ترقی پر اس قدر نازاں ہیں اور اللہ کو بھول گئے ہیں، کہیں ہمارا بھی تو یہ حال نہیں ہوگا؟ کیا یہ ترقی اور سائنس ہمیں اللہ کی نافرمانی کی سزا سے بچا سکے گی؟
’’پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے نیچے اتروا دیا، اور وہ جہاں تھے وہاں سے ان کو نکلوا دیا، اور ہم نے کہا دفع ہوجائو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور ایک مقررہ وقت تک کے لیے زمین میں رہو، جہاں تمہاری رہائش اور معاش ہوگا۔‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 36)
غور فرمایئے یہاں آدم و حوّا کو بھی ’’اتارنے‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی انسان بھی زمین کی مخلوق نہیں ہے بلکہ کہیں اور سے زمین پر آئی ہے۔ زمین کی مخلوق یعنی دیگر جانور مکمل طور پر زمین کے حالات میں ایڈجسٹ ہیں، جب کہ انسان بہت پریشان ہیں اور مستقل تگ و دو سے زمین کے حالات کو اُس جگہ کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جہاں سے وہ آئے ہیں۔ ساری لوٹ مار، لالچ اور ہوس کا ایک ہی مقصد ہے، زیادہ سے زیادہ آرام اور تفریح حاصل کی جاسکے۔ نہ ہاتھی ایسی کوشش کرتا ہے، نہ بکرا… کیوں کہ وہ زمین کے اصل باسی ہیں، ان کو پتھروں پر سونے اور کچا کھانا کھانے کی ہی فطرت اور عادت ہے، مگر انسان زمین کے رہائشیوں کی طرح نہیں ہے۔
٭ زمین کے اصل رہائشی یعنی جانور گھر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، ان کے جسم کے درجۂ حرارت موسم کے مطابق ہی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یوں وہ سخت ترین دھوپ میں بھی ویسے ہی بے لباس اور بے گھر ہوتے ہیں جیسے برف باری میں۔ جب کہ انسان جس جگہ سے زمین پر اتارا گیا ہے، وہاں موسموں کی ایسی سختی نہیں تھی جیسی زمین پر ہے۔ اس لیے انسان کو زمین کے موسم کو جھیلنے کے لیے گھر کی بھی ضرورت ہے، پنکھے اور ائرکنڈیشنر کی بھی، اور سردیوں میں کمبل، گرم کپڑے اور آتش دان کی بھی۔
٭ زمین کی مخلوق یعنی جانور چاہے پرندے ہوں، ممالیہ ہوں، چاہے رینگنے والے جانور… سب بغیر پکا کھانا کھانے کے عادی ہیں، مگر انسان جہاں سے اتارا گیا ہے وہاں نہایت ملائم، رسیلی اور نہایت ذائقے دار غذا کا رواج تھا، اس لیے انسان زمین پر رہنے والی وہ واحد مخلوق ہے جسے اپنی خوراک کو پکا کر اور طرح طرح کی لذتیں دے کر کھانا پڑتا ہے۔
٭زمین کی ہر مخلوق شروع سے آخر تک ایک ہی حالت پر قائم ہے۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ غاروں، جنگلوں اور سمندروں میں رہنے کے علاوہ بھی کوئی طریقۂ زندگی ممکن ہے، مگر انسان آدم کے زمانے سے اپنے طریقۂ زندگی میں بہتری کی جستجو میں ہے۔ یعنی قیامت آنے تک۔ اب ہم اپنی زندگیوں کو انتہائی پُرتعیش، تقریباً جنت جیسا بنا چکے ہیں۔ جیسے دوزخ میں پڑے لوگ سورہ اعراف میں، انتہائی دور دیوارِ اعراف پر بیٹھے شخص سے گفتگو کرتے ہیں، ہم اسی طرح سعودی عرب اور امریکا میں بیٹھے لوگوں سے Live گفتگو وڈیو اور آواز کے ساتھ، اپنے اسمارٹ فون پر کرتے ہیں۔ ہم دبئی میں ہونے والا میچ اسی وقت کراچی میں بیٹھ کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہم سو سال پرانی چارلی چپلن کی فلمیں آج تک دیکھتے ہیں، جیسے کہ قرآن میں برسوں پہلے کے اعمال فلم کی طرح چلانے کا ذکر ہے۔ پس ثابت ہوا کہ فیصلے کا دن قریب آگیا اور جلد ہی ہم اپنے اصل گھر جنت میں ہوں گے۔
٭ 99 فیصد جانوروں میں شرم و حیا کا عنصر نہیں پایا جاتا، یہ صفت صرف اور صرف انسانوں میں ہے جو کہ اسے غیر زمینی مخلوق ثابت کرتی ہے۔ کوئی جانور ہنس نہیں سکتا، صرف انسان ایسی مخلوق ہے جو زمین کی پیٹھ پر قہقہے لگاتی ہے۔
٭ کینسر، گردے فیل ہونا، جگر کا ناکارہ ہونا اور ایسے دیگر دائمی مرض صرف انسانوں میں ہیں، جانوروں میں موروثی یا دائمی مرض نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زمین پر Alien ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگوں کے جسم زمین کے ماحول کو قبول نہیں کر پاتے اس لیے شدید بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہم جنتی ہیں، ہم صرف وہاں کے ماحول میں خوش رہ سکتے ہیں، زمین پر ہمیں سزا کے لیے بھیجا گیا ہے، عیش کے لیے نہیں۔ اس لیے جنہوں نے یہاں جنت کے عیش کرلیے تو سزا تو بھگتی ہی نہیں، اس لیے انہیں مرنے کے بعد سزا بھگتنی پڑے گی، اسی سزا کو جہنم کہا جاتا ہے۔ سورہ بلد میں فرمایا گیا ’’ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا…‘‘ یعنی دنیا میں صرف سختی ہے۔ یہ اصول ہے، یہ قانون ہے۔ اور اگر آپ زندگی میں محلات میں رہتے ہیں، موسم کو اپنی مرضی کے مطابق ہیٹر اور ائر کنڈیشنر چلا کر کرلیتے ہیں، ایسی خوراک کھاتے ہیں جو زمینی مخلوق کے بس کا روگ ہی نہیں، بلکہ جنت کے مزے دیتی ہے، تو آپ نے زمین کی مشقت والا اصول الٹا دیا۔ اب آپ کو یہ مشقت جہنم میں سہنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الروم 30 میں فرماتے ہیں کہ قدرتی انداز میں جیو۔ یعنی جنت زمین پر بنانے کی کوشش نہ کرو، زمین پر زمین کے رہائشیوں کی طرح جیو۔ کیا وجہ ہے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سوتے تھے۔ وہ ایک سے ایک ریشمی، نرم اور کمخواب کے بستر استعمال کرسکتے تھے، آخر پورے عرب کے بادشاہ تھے… وہ جانتے تھے کہ زمین پر اللہ نے پھینک ہی دیا ہے تو زمین کے طریقوں سے رہ کر سزا مکمل کی جائے، زمین کو جنت بنانے کے بجائے اصل گھر یعنی جنت جانے کی کوشش کی جائے۔
کیوں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کبھی بیمار نہیں ہوتا اس میں کچھ خیر نہیں، کیوں کہ جو جنت کے سب سے اونچے درجے کا تھا، وہ سب سے زیادہ عیش میں تھا، اتنے عیش میں کہ اب وہ زمین کا ماحول بالکل قبول ہی نہیں کرپاتا اور آہستہ آہستہ اس کے اعضا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، بس اللہ کی محبت ایسے لوگوں کو چلاتی ہے۔ اسی لیے ہمارے مشرقی ماحول میں بیماروں سے دعائیں کرائی جاتی ہیں، کیوں کہ انہیں اللہ سے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔
پہلے ایک بات سمجھ لیں، اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک ساتھ ازل سے بھی پہلے بنا چکا ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ انسان بناتا جاتا ہے اور ایک کے بعد ایک بنا بنا کر زمین پر بھیجتا ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ ازل سے بھی پہلے تمام انسانوں کو ایک ساتھ میرے رب نے بنایا، پھر ایک دن جسے ’’یوم الست‘‘ کہتے ہیں، تمام انسانوں سے ایک عہد لیا گیا کہ وہ سب صرف اللہ کے بندے بن کر تابعداری کریں گے۔ اس کے بعد میرے خیال کے مطابق تمام انسانوں کو اُن کی آزمائش کے لحاظ سے مختلف سطحوں کی جنتوں میں ٹھیرایا گیا، جیسے جس کی قسمت میں رسول بننا، یا شہید بننا لکھ دیا گیا، انہیں انہی اعلیٰ درجے کی جنتوں میں رکھا گیا جن میں انہیں دنیا کی آزمائش میں کامیاب ہونے کے بعد آنا تھا۔ پھر جب ان کے پیدا ہونے کی باری آئی تو انہیں دنیا میں بچہ بناکر پیدا کردیا گیا، اور اگر وہ دنیا کی آزمائش میں رسول یا شہید کی حیثیت سے عہدِ الست کو یاد رکھتے ہوئے کامیاب ہوتے ہیں تو واپس اسی جنت میں پہنچا دیے جاتے ہیں جس کے لیے وہ بنائے گئے تھے۔ بصورتِ دیگر انہیں ادنیٰ درجے کی جنت میں رکھا جائے گا، اور بالکل ہی فیل ہوگئے تو جہنم میں۔
وہ لوگ جو کافر یا منافق بنے ہوئے ہیں، ان کی قسمت میں اگر چور کے گھر پیدا ہونا لکھا ہے تو انہیں ابتداً ادنیٰ درجے کی جنت میں رکھا جاتا ہے، پھر بچہ بناکر زمین پر پیدا کردیا جاتا ہے۔ یہ لوگ چونکہ جنت کی اعلیٰ آسائشوں کے عادی نہیں ہوتے اس لیے زمین کے ماحول میں آرام سے رہ لیتے ہیں، ان کا جسم زمین کی سخت آب و ہوا کو قبول کرلیتا ہے اور وہ بیمار نہیں ہوتے۔ یہ لوگ قسمت کو پس پشت ڈال کر اگر حق کو قبول کرلیتے ہیں، اللہ کے حکم کے مطابق سوچ بچار کرکے ایمان لے آتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں تو انہیں اعلیٰ جنتوں میں بھیج دیا جاتا ہے، ورنہ اعمال کے مطابق ادنیٰ جنتوں میں سے کسی ایک میں، یا جہنم کے کسی درجے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تین بھائی ہوں، ان میں سے ایک بچپن سے بیمار ہو، ایک چالیس سال کی عمر میں بیمار، اور تیسرا بھائی 80 سال کی عمر میں دنیا کی فضا کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے بیمار ہو تو یہ فرق کیوں ہے، جب کہ تینوں کی پرورش ایک سی ہوئی؟ کیا اس سب کی وجہ صرف اور صرف تقدیر ہے…؟ مجھے تو یہی طریقہ سمجھ میں آرہا ہے جو میں نے مختلف حقائق کے پیش نظر اخذ کیا ہے۔ اگر آپ متفق نہیں تو دلائل کے ساتھ میری اصلاح کیجیے۔ میں اگر غلط ہوں تو اللہ معاف فرمائے اور ہدایت دے۔ اگر آپ کو میرا یہ تجزیہ حقائق کے خلاف یا اللہ کے احکامات کے خلاف محسوس ہو اور اس تمام منظرنامے میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتا نظر نہ آئے تو براہِ مہربانی بتایئے کہ کس طرح ہم اصل طریقۂ کار کو جان سکتے ہیں۔ اصلاح کی طلب گار ہوں۔

حصہ