جرائم کاحل

607

قدسیہ ملک
کل رات ہی سے مجھے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑ رہا تھا کہ صبح مجھے ایک سرکاری ادارے میں اپنے کچھ اہم دستاویزات کے سلسلے میں جانا ہے۔رات میں اسی گھبراہٹ سے مکمل نیند ناآسکی۔صبح ہوئی تو سب سے پہلے اسی بات کا خیال آیاکہ کیا معلوم کام ہویانہ ہو۔ ہم سب اپنے سرکاری اداروں کے نظام سے اچھی طرح واقف ہیں۔سب یہی سوچتے ہیں کہ کبھی کسی کا سرکاری ادارے سے کوئی واسطہ نہ پڑے یا اگر مجبوری کی حالت میں ہو بھی تو کوئی بااثر بندہ ہماری پشت پناہی کے لئے موجود ہو تاکہ کام جلد سے جلد ہوسکے اور ہم اس ماحول سے جلد واپس آسکیں۔ لیکن مجبوراًجب شناختی کارڈ بنوانا ہو، بچے کی پیدائش ہو،خدانخواستہ کسی کا انتقال ہو،آپ کا شناختی کارڈ کھوجائے،گر جائے یاچوری ہوجائے، جب آپ نیاسپورٹ،پی آر سی، ڈومیسائل،انٹرسرٹیفکیٹ بنوا ناہواس کے لیے ہمیں مجبورا سرکاری اداروں اور ان کے اہل کاروں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔رشوت اقرباپروری کرپشن اس قدر عام ہے کہ ایک عام آدمی با آسانی اپنا کام کر انے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اسی وجہ سے میں صبح ہی سے اپنا ذہن تیار کر رہی تھی خیر خدا خدا کرکے دفتر پہنچے کام کروایا اور وہی ان کے انداز اور ان اہل کاروں کی باتیں بڑے سے بڑے افسر سے لے کر چھوٹے سے چھوٹا کلرک تک اپنی اپنی اہمیت کو منواتا ہے.اللہ کا کرم ہے کہ ان میں بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں۔جو اپنے فرض کی ادائیگی کو اپنے اوپر واجب کر کر لیتے ہیں اور بغیر کسی رشوت اور جھوٹ کے اس کام کو سہل بنا دیتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔خیر الحمدللہ میرے شوہر کی محنت اور حاضر دماغی سے جلد میرا کام مکمل ہوگیا۔اللہ کا شکر اداکیا۔گھر آکر اخبار کا مطالعہ کیا جہاں بہت ساری خبریں تھیں اس میں ایک دل دہلا دینے والی خبر بھی موجود تھی خبر یہ تھی کہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں 95 افراد جان کی بازی ہار گئے کراچی میں رواں برس میں اب تک پچانوے افراد قتل ہوگئے۔شہر قائد میں رواں سال کے ابتدائی 3 ماہ میں جرائم کی وارداتوں کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے بظاہر اس خبر سے کسی قانونی ادارے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ایک ذی شعور انسان اس خبر کو پڑھ کر یقینا بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ایک عام انسان جو اس معاشرے کا فرد ہے وہ ضرور یہ بات سوچتا ہے کہ اس معاشرے میں ایک فرد کی کیا اہمیت ہے۔وہ انسان جو اس معاشرے کاایک شہری ہے۔وہ اپنی پیدائش سے لے کر اپنے انتقال تک سرکار کو ٹیکس دیتا ہے۔ اپنی اولاد کی پیدائش پر اس کا سرٹیفکیٹ بنواتاہے اس کے پیسے سرکار کو دیتا ہے۔ اپنی حلال کمائی سے اس بچے کی پرورش کرتا ہے۔اس بچے کو سرد اور گرم سے بچاتا ہے اسکی بہترین تربیت کرتاہے۔یہاں تک کہ وہ بچہ اسکول جانے کے قابل ہو جاتے ہے۔ اسکول میں داخلے کے وقت وہ اس بچے کی بھاری فیس بھرتاہے اس کے لنچ باکس میں طرح طرح کے مختلف قسم کے لوازمات دیتا ہے تاکہ بچہ دوسرے بچوں سے کم نہ ہو،اسکی کاپی ربر،پینسل کتابوں کے علاوہ اسکول میں اسکے اسٹشنری چارجزادا کرتاہے، اس کی پڑھائی کو بہتر بنانے کے لیے اس کے ٹیوشن کا انتظام کرتا ہے۔ اس کو بہترین ٹیوشن پڑھاتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کے اچھے برے رویوں کی دیکھ بھال کرتا ہے تاکہ بچہ معاشرے میں بہترین فرد بن سکے۔ اسی طرح بچہ درجہ بدرجہ اپنے تعلیمی مدارج طے کرتے کرتے ہوئے اسکول کالج اور یونیورسٹی میں پہنچتا ہے بہترین طریقے سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اس کو نوکری کے لیے ہر جگہ درخواستیں دیناپڑتی ہیں۔بالآخر نوکری مل جاتی ہے۔ نوکری کرنے کے بعد وہ نوجوان اپنے بوڑھے والدین کے لیے سہارا بنتا ہے۔ اسکے والدین اپنی اولاد کے لئے اسکی نوکری ہی سے ایک مخصوص رقم جمع کرتے ہیں تاکہ بااحسن و خوبی وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہوسکیں وہ اسکی شادی کرتے ہیں اسطرح وہ بھی اپنے بچوں کی پرورش کے قابل ہوتا ہے لیکن پھر اسے اپنی حلال کی کمائی کسی لٹیرے، ڈکیت چور اور سرکاری اداروں کی آشیرباد پر پلنے والے معاشرے کے ناسور عناصر کو نہ دینے کے عوض جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اور وہ ناسور برسوں کی والدین کی خون پسینے، دن رات کی محنت کو چند منٹوں میں مٹی تلے دبالے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔۔سی پی ایل سی کے مطابق جنوری، فروری اور مارچ میں بالترتیب 13، 13 اور 16 گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ 3 ماہ میں 321 گاڑیاں چوری ہونے کے واقعات پیش آئے جن میں سے پولیس 133 گاڑیاں برآمد کرسکی۔کراچی کے مختلف تھانوں نے مارچ میں43،فروری میں41،جنوری میں49گاڑیاں برآمد کیں۔فائرنگ کے مختلف واقعات میں 95 افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے مارچ میں 36، فروری میں 38 اور جنوری میں 21 شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔سی پی ایل سی کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا،پولیس پرتشدد واقعات کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔ سی پی ایل سی نے 3ماہ کے دوران جرائم کے اعداد و شمار جاری کیے جس کے مطابق رواں سال 42 گاڑیاں چھینی اور 321 چوری ہوئیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔کیا کسی انسان کی جان لینا اس قدر آسان ہے؟شریعت اسلامیہ میں جتنی تاکید کے ساتھ انسان کے قتل کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، عصر حاضر میں اس کی اتنی ہی بے حرمتی ہو رہی ہے، چناں چہ معمولی باتوں پر قتل کے واقعات روزانہ اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں علمائے امت کا اتفاق ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والے کی آخرت میں بہ ظاہر معافی نہیں ہے اور اسے اپنے جرم کی سزا آخرت میں ضرور ملے گی، اگرچہ مقتول کے ورثاء قاتل سے قصاص لے کر یا اسے معاف کردیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے اپنے عظیم خطبے میں اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کا خون نہ بہایا جائے، کیا کسی انسان کو صرف اس لیے مار دینا درست ہے؟ کہ وہ ٹیکسوں کی بھرمار کے باوجود،اپنی دن رات کی محنت،اپنے خون پسینے کی کمائی اورسرکاری اداروں کے کلرکوں سے بچے ہوئے اپنے جائز اور حلال پیسوں سے اپنے خاندان کی خوشیاں خرید رہا تھا۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں۔ بقول شاعر

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

آپ ؑﷺنیارشاد فرمایا: ’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) اور تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملو گے، پھر وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔کیا یہ قاتل جو ناحق شہریوں کاخون کرتے ہیں اس بات سے قطعی ناآشناہیں کہ قتل نفس کتنابڑا گناہ ہے۔ ضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔‘‘ (صحیح بخاری)
اب شہری حقوق کی بابت بات کرلیتے ہیں۔ شہری حقوق سے مراد کسی بھی جگہ بسنے والے شہریوں کو حاصل ان حقوق سے ہوتی ہے کہ جن کے ذریعے سے ان کو حکومت یا ریاستی طاقت کی جانب سے کسی بھی حق تلفی، زیادتی و ظلم سے پناہ حاصل ہوتی ہو، مزید یہ کہ شہری حقوق نا صرف افراد کو حق تلفی و زیادتی سے بچانے کا سبب ہوتے ہیں بلکہ ان کے وسیلے سے معاشرے کے افراد کو شہری و سیاسی زندگی میں کردار ادا کرنے کی قانونی آزادی اور ایسا کرنے کی اہلیت کے لیے درکار اسباب بھی مہیا کیے جانا لازم قرار دیے جاتے ہیں کیا ایک پاکستانی شہری ایک کراچی کے باسی کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اس شہر میں پرسکون زندگی گزار سکے، وہ اپنی فیملی کے ساتھ باآسانی کہیں جا سکے، اور اسے لوٹنے والے نہ ہو، وہ شہری جو ہوٹل میں کھانا کھانے بس میں سفر کرنے موبائل کارڈ لوڈ کرنے اپنی یونیورسٹی میں پڑھنے اپنی تنخواہ لینے، اپنے گھر پر رہنے تک کا ٹیکس دیتا ہے کیا اس کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ سکون سے اس معاشرے میں زندگی بسر کر سکے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں فرانس کے مشہور فلسفی جین جیکس روسو نے کہا: ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر آج کل وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘‘۔اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کنوینٹ، سوشل اینڈ پولیٹیکل رائٹس‘‘ جنرل اسمبلی کی قرارداد 2200A (XXI) بتاریخ 16دسمبر 1966جسے 23مارچ 1967کو نافذ العمل کیا گیا ہے ان کے مطابق انسان کے بنیادی حقوق کاتحفظ ریاستوں کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے چندایسے حقوق ہیں جو ریاستیں قانون سازی کرکے اپنے شہریوں سے ان کے حقوق چھین لیتی ہیں ان کا ذکر ضروری ہے۔تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد ہیں حقوق اور وقار کے لحاظ سے برابر ہیں۔ہر شخص سارے حقوق اور آزادیوں کا مستحق ہے۔ ہر شخص کو زندگی، آزادی اور شخصی تحفظ کا حق حاصل ہے اور قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ ہر شخص کو بغیر مداخلت، سوچنے، بولنے، اپنی سوچ کو زبانی،تحریری یا کسی بھی ذریعے دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو بغیر مداخلت، سوچنے، بولنے اپنی سوچ کو زبانی، تحریری یا کسی بھی ذریعے دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو پرامن اجتماع کرنے اور جماعتیں بنانے کا حق حاصل ہے کسی کو بھی جماعت میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو قومی معاملات اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ اور برابری کی بنیاد پر قومی ملازمت کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘دستور پاکستان 1973میں تمام بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہیں اور ہر پاکستانی کو وہ تمام حقوق دئیے گئے جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں بتائے گئے ہیں غور کیا جائے تو اقوام متحدہ اور دستور پاکستان 1973میں وہ تمام حقوق دئیے گئے جو حضورؐ پر نازل ہوئے قرآن پاک میں دئیے گئے ہیں۔آج بھی اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو یہ تمام مظالم کا خاتمہ ہوسکتاہے۔قرآن کے نظام کو نافذ کرنے کی ضرورت پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی ہے۔اللہ سے دعاہے کہ ہم سب کو اسلام کی بہاریں دیکھنانصیب کرئے اور اسلام کے نظام کو نافذ کرنے کے لئے ہمارا حصہ بھی شامل ہوجائے۔
بقول شاعر

اسلام کے احکام تو موجود ہیں لیکن
مسلم ہوتوسر اپنا جھکا کیوں نہیں دیتے؟
اسلام ہی ضامن ہے فقط امن و سکوں کا
دنیا کو یہ پیغام بتاکیوں نہیں دیتے؟

حصہ