برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

800

قسط نمبر 185
(تیرہواں حصہ)
مولانا سید ابو الاعلی مودود ی ؒ کی شخصیت کو متناز ع بنانے کی کوشش تو خیر اسی وقت سے شرو ع ہو چکی تھی جب مولانا نے کانگریسی علماء کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے جواب میں اپنامقالہ” مسئلہ قومیت ” لکھا اور پھر اس کتابچے کو شا ئع کروایا۔ اشاعت کے چند دنوں میں ہی اس کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوچکیں تھیں۔۔
”ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سید مودودی کی تحریرات سے کس قدر متاثر تھے ؟ ملا حظہ فرمائیں…میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام)، اپنے ہفت روزہ اقدام میں لکھتے ہیں کہ علامہ موصوف ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اُن مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ اُن (مضامین) ہی سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی اور اسی دعوت پر مولانا 1938ء میں پنجاب آئے۔ بقول میاں محمد شفیع صاحب ’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوں کی ضد تھے اور میں یہاں پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی ان کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے‘‘۔ علامہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدرآباد دکن کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی۔ بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا
(لاہور کی ڈائری۔ ہفت روزہ اقدام۔ لاہور۔ 9 جون 1963)
آل انڈیا مسلم لیگ کے جو ائنٹ سیکریٹری، اور اس کی مجلس ِ عملCommittee Of Actionاور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری مولانا ظفر احمد انصاری(مرحوم) لکھتے ہیں۔
’’اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ’’مسئلہ قومیت‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ ئِ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی، زور ِ استدلال اور زور ِ بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہو گیا۔ اس اہم بحث کی ضرب ‘متحدہ قومیت ‘ (کانگریس کا نعرہ) کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی’ جداگانہ قومیت’ کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت علماء ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوؤں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جدا گانہ قومیت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ملی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے تاکہ عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔”
تحریک پاکستان اور علماء۔۔۔نظریہ پاکستان نمبر۔۔۔چراغ راہ صفحہ نمبر 232
مولانا مودودی پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ان کی نوعیت دو طرح کی تھی، ان اعتراضات کی پہلی نوعیت تو تھی مولانا کے علمی و تحقیقی کام پر اعتراضات اور دوسری نوعیت ان کے سماجی و سیاسی حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر اعترض۔
سب سے بھو نڈ ا اور بے سرو پااعترا ض تو یہ تھا کہ مولانا مودودی نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ اس الزام کا تعلق ان کے علمی کام سے نہیں بلکہ ان کے سیاسی فیصلے سے کسی حد تک بن سکتا ہے، مگر میرے نزدیک اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک انتہائی بے سرو پا الزام ہے جس کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ مولانا مودودی تو نظریہ پاکستان کی علامہ اقبال کے انتقال کے بعد واحد فکری اساس تھے، ان کی تحاریر کی بدولت قائد اعظم علیہ رحمہ کے’ علیحدہ خطہ زمین ‘ حاصل کرنے کے مطالبے کا عقلی جواز فراہم ہوا تھا۔ پاکستان کے لیے رائے عامہ کی ہمواری میں درکار عقلی وفکری مواد صرف اور صرف ان حالات میں مولانا کے تصنیف کردہ لٹریچر میں فراہم کیا جارہا تھا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے اس وقت جب صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کا ‘ تاریخ ساز ‘ مشورہ دیا اور لوگوں کو اس موقع پر آمادہ کرنے کے لیے اس طرح ارشاد فرمایا…
’’اگرمیں صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندوستان کی تقسیم’ ہندو اور مسلم قومیت’ کی بنیاد پر ہورہی ہے تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے”
اس تاریخی موقع پر آئندہ کے نظام حکومت کے سلسلے میں مولانا مودودی نے واشگاف الفاظ میں لکھا
’’وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جارہا ہے، تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے، اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں ”
(سہہ روزہ کوثر۔ اشاعت۔مورخہ 5 جولائی 1947 و رسائل و مسائل جلد اول صفحہ 363)
اس میں کوئی دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں کہ مولا نا مودودی کی جانب سے ‘ دو قومی نظریہ’ کی شاندار، مدلل اور مؤثر تشہیر کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کو کانگریس کے جذباتی اور خطرناک جال یعنی ‘ متحدہ قومیت’ کے نعرے کو اگر کسی نے زمیں بوس کیا ہے تو وہ مولانا مودودی ہی تھے۔
اگرچہ مولانا مودودی پر اعتراضات ان کی زندگی میں ہی لگنے شروع ہوچکے تھے مگر مولانا مودودی نے ان کے جواب میں اپنی جانب سے ایک لفظ میں لکھنا گوارا نہ کیا کیونکہ وہ اپنا قیمتی وقت فضول مبا حث میں الجھ کر دعوت الیٰ اللہ کے عظیم فریضے میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب نہیں ہونا چاہتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا سے بڑھ کر تحریک پاکستان کی پر جوش حمایت اور وکالت کسی اور نے نہیں کی۔ مولانا کی بے شمار تقریریںاور مقالے موجود ہیں جن میں آپ نے آگاہ کیا کہ وہ ایک جداگانہ قوم ہیں۔
ممتاز صحافی اور مصنف جناب جلیس سلاسل اپنی کتاب ‘ معما ران جلیس ‘ (پاکستان کی نامور شخصیات کے تاریخی انٹرویوز اور خاکو ں پر مشتل مجموعہ۔صفحہ نمبر 64) میں اس سوال پر کہ ”کیا مولانا سید مودودی قیام پاکستان کے مخالف تھے؟” کے حوالے سے رقم طراز ہیں وہ لکھتے ہیں کہ
” پاکستان کے نامور ترین قانون دان، ممتاز مورخ و سابق وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور انصاف سید شریف الدین پیرزادہ جو تحریک پاکستان کے وقت قائد اعظم کے آنریری سکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے، انہوں نے ایک بالمشانہ گفتگو میں فر مایا تھا اور اپنے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران بھی اس بات کا اعادہ کہ ” تحریک پاکستان کے آخری سالوں میں قائد اعظم کے حکم سے میں نے ( یعنی شریف الدین پیرزادہ نے)
مولانا سید ابو الاعلی مو دودی کے دو قومی نظریے کے بارے میں مضامین کی نقول کروا کر تقسیم کیں تاکہ دو قومی نظریے کی وضاحت اور مسلم قومیت کی تعریف سے برصغیر کے مسلمانوں اور مسلم لیگ کے کارکنوں کو وا قف کرواسکیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم کی خواہش پر مولانا مودودی نے اسلام کے مختلف پہلوو ں پر پانچ تقا ریر(اسلا م کا سیاسی، معاشی، قانونی، تعلیمی اور عسکری نظام) کیں جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئیں ”
اسی کتاب میں آگے چل کر صفحہ نمبر 197۔ 196 پر اسطرح لکھا کہ انہو ں نے شریف الدین پیرزادہ سے دوران انٹرویو پوچھا کہ آپ تو قائد اعظم کے سکریٹری رہے۔ تحریک پاکستان کے زمانے میں تحریک پاکستان کے حمایتیوں اور مخالفین سے بخوبی واقف ہوں گے۔ یہ بتائیں کہ ”مولانا مودودی پاکستان کے خلاف اور قائد اعظم مخالفین میں شامل تھے؟ ”
وہ لکھتے ہیں کہ شریف الدین پیرزادہ نے میری طرف غور سے دیکھا اور پھر الٹا مجھ سے سوال کیا کہ ” کیا آپ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ مولانا مودودی نے قیام پاکستان کے لیے ووٹ بھی مسلم لیگ کو دیا تھا اور اپنے جماعت اسلامی کے ساتھیوں سے کہا تھاکہ آپ لوگوں پر جماعت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے، آپ اپنے ضمیر کے مطابق اپنا ووٹ مسلم لیگ یا کانگریس کے امیدواروں جس کو مناسب سمجھیں دیں۔ اب آپ خود سوچیں اگر مولانا مودودی مسلم لیگ کے مخالف ہوتے تو نواب اسماعیل خان جو مسلم لیگ یو۔ پی کے صدر تھے مولانا مودودی کو دستور سازی کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا ممبر کیوں اور کیسے بنا سکتے تھے؟ جس کے دیگر ارکان میں سید سلمان ندوی، مولانا اسحاق سندیلوی، مولانا عبدا لما جد دریا بادی، مولانا آزاد سبحانی جیسے لوگ شا مل تھے ”
علامہ اقبال، شریف الدین پیرزادہ، فیض احمد فیض، میاں محمد شفیع، مولانا ظفر احمد انصاری، قمرالدین جیسے زعماء امت نے حتی کہ قائد اعظم رح نے خود بھی مولانا مودودی رح کے کام کو سراہا اور دو قومی نظریہ کے حق میں دیے گئے زبردست دلائل اور کانگریس کے حامیوں کے زبردست تعاقب کا خیر مقدم کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما قمر الدینؒ نے مولانا مودودی کی ہدایت پر قائد اعظم ؒسے ملاقات کی تو قائد اعظم رح نے فرمایا: ’’میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں مگر ہم ایک ہنگامی صورتحال سے دو چار ہیں۔ اگر ہم آج اسلامیان ہند کے لیے الگ وطن حاصل نہ کر سکے تو کل جماعت اسلامی بھی اپنا کام مکمل نہ کر سکے گی.‘‘
سردار جمیل خان اپنے مضمون میں اس بات کا جواب اسطرح سے دیتے ہیں کہ‘‘
کسی نے مولانا مودودی رح کے کٹر نظریاتی مخالف معروف شاعر و دانشور فیض احمد فیض رح سے پوچھا،
کیا مولانا مودودی پاکستان کے مخالف تھے؟؟
فیض نے جواب دیا،
’’یہ انکشاف تو پاکستان بننے کے بعد ہوا کہ مولانا پاکستان کے مخالف تھے.‘‘
قائد اعظم رح ایک عرصہ تک کانگریس کے رکن اور اہم رہنما رہے، پاکستان بننے سے چند سال پہلے تک کنفڈریشن سمیت مختلف آپشن بھی ڈسکس کرتے رہے جبکہ دوسری جانب مولانا رح نے بلاشبہ مسلم لیگ کے طریق کار اور طرز عمل کی اوپن حمایت کرنے کے بجائے تنقید کی مگر مولانا ایک لمحہ کے لیے بھی کبھی کانگریس کے ممبر رہے نہ کبھی متحدہ قومیت کے وطنی تصور کو قبول قرارداد پاکستان 1940ء میں منظور ہوئی جس کا سیدھا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہی شخص پاکستان مخالف ہو سکتا ہے جو یا تو انگریز کا وفادار ہو، یا کانگریس کا حصہ ہو یا پھر متحدہ قومیت کا حامی۔
کیا ان تین باتوں میں کوئی ایک بات بھی ایمانداری سے مولانا مودودی رح کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے؟
مضمون:(قائداعظم، مولانا مودودی اور تحریک پاکستان اشاعت۔29 جنوری 2017۔دلیل)۔ مضمون نگار _جناب سردارجمیل خان۔
(جاری ہے)

حصہ