ابلاغِ عامہ اور والدین کی ذمہ داری

584

افروز عنایت
پچھلے ہفتے دارالارقم میں ’’میڈیا کے اثرات‘‘ کے سلسلے میں ایک محفل میں شرکت کا موقع ملا، جہاں مذاکرے میں شریک مہمان خواتین نے اپنی بہترین آراء سے حاضرینِ محفل کو آگاہ کیا۔ حاضرینِ محفل کو بھی اپنے آراء کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی۔ تمام خواتین نے اپنے اپنے خیالات، تجزیے اور تجربات کی روشنی میں تجاویز بھی پیش کیں۔ ایک متفقہ بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ہر ایک‘ میڈیا کی موجودہ صورتِ حال سے پریشان تھا اور نئی نسل کو اس سے دور رکھنے اور بچانے کی فکر میں تھا۔ بے شک کسی قوم و ملک کے لیے اس کی نئی نسل جو مستقبل کی معمار سمجھی جاتی ہے، اس کو سنوارنا، منظم کرنا، اس کی تعلیم و تربیت کرنا، اور بحیثیت مسلمان کے اسے ایک مومن کے روپ میں دیکھنا اوّلین ترجیح ہے۔ اس سے غافل رہنا دراصل پوری قوم کو تباہی کے گڑھے میں پھینکنے کے مترادف ہے۔ اجتماعی طور پر نئی نسل کو فلاح کی طرف لے جانے کے لیے ہر ایک کا کوشاں رہنا ضروری ہے۔
میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ میڈیا کی خرافات پر قلم اٹھا چکی ہوں۔ اور صرف میں ہی نہیں بلکہ قوم و ملک کے بہت سے خیر خواہ اس سلسلے میں طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ میں ان سطور کے ذریعے پھر ایک مرتبہ پیمرا سے التماس کرتی ہوں کہ وہ اپنی قائدانہ ذمہ داریوں کو ایمان داری سے انجام دے، اور ایک اسلامی ریاست کی اصلاح اور فلاح کے لیے ابلاغِ عامہ کی کارکردگی کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائے، اور وزیراعظم عمران خان جو اس مملکتِ عظیم کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے خواہاں ہیں، جنہیں اس قوم کے نوجوانوں کی بھرپور سپورٹ (معاونت) بھی حاصل ہے، اس طرف خصوصی توجہ فرمائیں تاکہ ہمارے ملک کی نوجوان نسل مستقبل میں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بھرپور خدمات انجام دے سکے۔ اس نوجوان نسل کو بیدار کرنے اور انہیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے ابلاغِ عامہ بہترین کردار ادا کرے۔ اس کے علاوہ والدین بھی نوجوانوں کو میڈیا کی خرافات سے بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بحیثیت ایک ماں کے عورت کو اللہ نے بڑا رتبہ عطا فرمایا ہے۔ اسے ’’ماں‘‘ کا حسین تاج پہنایا ہے، اس کے پیروں تلے جنت رکھی گئی ہے، کیونکہ وہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں اہم فرائض کی انجام دہی کے لیے دن رات کوشاں رہتی ہے۔ یہاں بھی یعنی میڈیا کی ’’بدی‘‘ سے، بے حیائی کی رنگینی سے اولاد کو بچانے کے لیے ماں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ویسے ماں باپ دونوں کا فرض ہے، لیکن خصوصی طور پر عورت یعنی ماں اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ ابتدائی عمر سے بچوں کو ابلاغِ عامہ کے صحیح استعمال کی طرف ابھارنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ اس کے لیے اسے خود عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ وہ بے حیائی پھیلانے والے ان پروگراموں کو دیکھنے سے اجتناب برتے۔ بچے موبائل کا استعمال کریں یا ٹی وی دیکھیں تو ماں جائزہ لے کہ وہ کیا دیکھ اور سن رہے ہیں۔ بحیثیت اساتذہ ہم نے کچھ بچوں کے موبائل پکڑے تھے جن میں غیر معیاری اور لہو ولہب سے بھرپوروڈیوز اور مواد تھا۔ ان کے والدین کو اطلاع کی گئی تھی۔ تو کیا یہ کام گھر میں ماں نہیں کرسکتی! ماں کو چاہیے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ خود ہی ان چیزوں سے دور رہیں۔ میری بڑی بہن جرمنی میں بہت عرصہ رہیں، اُس وقت ان کی تینوں بچیاں کمسنی کی عمر میں تھیں۔ جرمنی کے آزاد و بے باک ماحول کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ کھلے عام راستوں میں نوجوان جوڑے بے حیائی کے رنگ میں نظر آتے ہیں۔ بہن بتاتی ہیں کہ اس کڑے وقت میں جب بچیوں کے سامنے ایسے مناظر عام تھے میں اُن سے کہتی کہ ان کی طرف نہ دیکھو، ہم مسلمان ہیں، یہ ہمارا کلچر نہیں ہے، اللہ جو ہم سے پیار کرتا ہے وہ ہم سے ناراض ہوجائے گا۔ اس جملے کا بچیوں پر خاطرخواہ اثر ہوا، بلکہ اگر سب سے چھوٹی بیٹی جو چار پانچ سال کی تھی، وہ اگر راستے میں ان کو دیکھتی تو بڑی بہن (سات آٹھ سالہ) اس کا منہ دوسری طرف کردیتی کہ ’’یہ ہمارا کلچر نہیں، ہم مسلمان ہیں، اللہ ناراض ہوگا‘‘۔ اس طرح ماں کی کوششوں سے وہ بچیاں اس رنگ میں ڈھلنے سے بچ گئیں۔ تو کیا اپنے اسلامی ملک میں ماں اپنے پیار و توجہ سے بچوں کی توجہ کسی دوسری طرف راغب نہیں کرسکتی! چھوٹی سی عمر میں بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جاتا ہے۔ پہلے وہ اس میں ’’گیم‘‘ کھیلتے ہیں، پھر وقت کے ساتھ اس کا استعمال بدل جاتا ہے۔ آج تو ایک بڑی اسکرین کے آگے بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں، موبائل پر ہی سب خرافات مہیا کی جاتی ہیں۔ بچوں کو بچپن سے ہی اچھائی اور برائی کا ادراک اور آگہی پہنچائیں، تاکہ وہ برائی کو اپنانے سے پرہیز کریں۔ کسی بھی بات یا نصیحت پر دوسروں کو عمل کرنے کی تلقین کرنے سے پہلے اس پر خود عمل کرنا لازمی ہے، چاہے وہ استاد ہو یا والدین ہوں۔ آج کی ستّر فیصد مائیں خود موبائل، ٹی وی، نیٹ میں اس قدر ملوث ہیں کہ بچوں کو ان سے دور رہنے کی کیا تلقین کریں گی! اور اگر ایسی مائیں بچوں کو اس سلسلے میں نصیحت کریں گی بھی، تو کیا بچوں پر اس نصیحت کا اثر ہوگا؟ ہرگز نہیں… بچے یہی سوچیں گے کہ ضرور اس چیز میں کوئی خاص بات ہے جو ماں ہمیں تو دور رہنے کی تلقین کررہی ہے اور خود اس کا زیادہ وقت اس چیز میں گزرتا ہے۔ یعنی بچوں کو کسی بھی ’’گندگی‘‘ اور ’’برائی‘‘ سے دور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود اس سے پرہیز کیا جائے۔ اگر ایک باپ سگریٹ پینے کا عادی ہو، وہ گھر پر سارا دن سگریٹ پیے، اور اپنے بچے کو اس ’’بری عادت‘‘ سے دور رہنے کی تلقین کرے تو اُس کی نصیحت کا خاطرخواہ فائدہ کم ہی نظر آتا ہے۔ بحیثیت اساتذہ بھی ہماری ’’خاص تربیت‘‘ کی گئی کہ بچوں کو اگر کسی چیز یا برائی سے بچنے کی تلقین کریں تو پہلے اس برائی سے خود بچیں، اس طرح یقینا 70۔80 فیصد آپ کی نصیحت کا بچوں پر اثر ہوگا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دین پھیلانے کے لیے اسی خوبی پر عمل کیا۔ ہر وحی جو اللہ کی طرف سے نازل ہوتی پہلے اس پر آپؐ خود عمل پیرا ہوتے، پھر اسے صحابہ کرامؓ تک پہنچاتے تھے۔ آج بھی علمائے کرام کا یہی اصول ہے کہ کسی بھی نصیحت کو پہلے خود اپناتے ہیں، پھر آگے لوگوں کو تلقین کرتے ہیں۔
٭٭٭
ایک خاتون فرمانے لگیں: میں تو بچوں کو خوب ڈانٹتی مارتی ہوں لیکن وہ موبائل اور ٹی وی سے دور ہی نہیں ہٹتے، نہ جانے کیا ’’الم غلم‘‘ دیکھتے رہتے ہیں! پیچھا ہی نہیں چھوڑتے، تھک گئی ہوں، کیا کروں!
میں نے خاتون سے فرمایا: اپنا رویہ بدلیں اور نرمی سے سمجھائیں، اس کے برے نتائج سے آگاہ کریں۔ یعنی کسی دوسرے سے اپنی بات پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو اپنے رویوں میں تحمل، برداشت، نرمی، افہام وتفہیم اور موقع محل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بعض اوقات ہم صحیح بات کرتے ہیں لیکن ہمارا نامناسب رویہ، ہمارا انداز، منفی طریقہ کار نہ صرف اُس پر غلط اثر ڈالتا ہے، اسے بدلنے میں ناکامی ہوتی ہے، بلکہ وہ ہم سے دور بھی ہوجاتا ہے۔ آج سے تیس پینتیس سال پیچھے چلے جائیں، اُس وقت مائیں کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت کرتی تھیں۔ وہ اصلاحی کہانیوں کا سہارا لے کر نہ صرف بچوں کو وقت دیتیں بلکہ اُن کی اصلاح و تربیت بھی کرتی تھیں۔ والدین بچوں کو وقت دیتے تھے، اور لازماً بچے بڑے ہوکر والدین کو وقت دیتے تھے۔ آج ابلاغ عامہ کے غلط استعمال اور معاشرے کی اس میں دلچسپی کی وجہ سے بہت سی غلط باتیں ہمیں معاشرے میں سرایت کرتی نظر آرہی ہیں۔ کچھ خواتین کا یہ نظریہ ہے کہ ہم تو ٹی وی اور موبائل پر صرف ڈرامے اور گانے ہی دیکھتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ صبح کی نشریات وغیرہ۔ چلیں آپ ان ہی تین چیزوں پر غور کرلیں۔ نت نئے عریانیت پر مبنی گفتگو و لباس، بے ہودہ رسم و رواج، شادی بیاہ میں مخلوط ڈانس پارٹیاں، تعلیمی اداروں میں مخلوط ناچ گانے، سازشیں کرنا، گالی گلوچ، دوسروں کی حق تلفی، نوجوان نسل میں بے باکی (جسے ذہانت کا نام دیا جارہا ہے)… یہ سب برائیاں ان ہی تین قسم کی نشریات سے پھیل رہی ہیں، بلکہ اور بھی بہت سی جن کا میں یہاں ذکر نہیں کر پا رہی ہوں۔ اس لیے خدارا اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے والدین اور تعلیمی اداروں کو اصلاحی کوششیں کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ یہ خرافات ہمیں تباہی اور گمراہی کی طرف لے جارہی ہیں۔ عرب معاشرے میں پھیلی ہوئی ان ہی برائیوں کے خاتمے کے لیے نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے۔ آج ہم سب داعی ہیں، برائی کے خلاف آواز اٹھانا مثلِ جہاد ہے۔ آئیے اسلامی ریاست کے لیے سب اکٹھے کوشاں ہو جائیں۔ اِن شاء اللہ ضرور فلاح پائیں گے۔ (آمین)

حصہ