دنیا ایک سراب

447

رشیدہ صدف

وہ دن ہوا ہوئے جب پسینہ گلاب تھا
ہاں وہ دن بھی گئے جب تو نواب تھا

مسلسل پانچ سال سے بیمار ہی نہیں، فالج کی مریضہ جہاں آرا بیگم حسرت و یاس کی تصویر بن گئی تھی، وہ پوری طرح تھک سی گئی تھی، وہ اکثر کہتی: اسٹیشن پر تیار بیٹھی ہوں بس انتظار ہے، گاڑی ہی نہیں آرہی! کبھی کہتی: واہ! واہ! کتنی بھرپور زندگی گزاری ہے میں نے۔ بستر پر پڑا بیمار شخص ماضی کی گلیوں ہی میں گھومتا رہتا ہے، علالت کے دوران جسم ہی نہیں خیالات بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔ جہاں آرا بیگم کی آنکھوں کے کٹورے آنسوئوں سے بھرے رہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں کاٹ آجاتی، دل و دماغ میں یاسیت اور مایوسی کے جالے سے بُن گئے تھے۔
خوب صورت و رنگین پردے، بڑی نفاست سے سجے کرسٹل کے ڈیکوریشن پیس، دیوار کے اوپر آرٹ کے مختلف نمونے، حتیٰ کہ دل بہلانے کو ہر طرح کا دنیوی سامان، مگر دل اداس ہو تو نرم و گداز بستر بھی کانٹوں کا لگتا ہے، بہار بھی خزاں لگتی ہے۔

دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

اپنے دور کی چلبلی، رنگین مزاج، ماڈرن، شوخ جہاں آرا بیگم ہر مجلس کی جان ہوا کرتی تھی۔ ’’موسیقی روح کی غذا ہے‘‘ وہ اس فارمولے پر عمل بھی کرتی اور اس کے حق میں بڑھ بڑھ کر دلائل دیتے نہ تھکتی۔ سوشل اتنی کہ کبھی کسی اسکول میں مہمان خصوصی ہوتی، تو کبھی کسی پارٹی میں پیش پیش نظر آتی۔ سلم، اسمارٹ رہنے کے لیے جم جوائن کر رکھا تھا۔ بڑے دعوے سے کبھی کچھ ایسی باتیں کہہ جاتی کہ باقی کلب ممبرز کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتیں، کچھ کہنا چاہتیں مگر کہہ نہ سکتیں۔
کرنل علی حسن بیگم صاحبہ سے ایک ہاتھ آگے تھے، مخلوط محافل میں کرنل صاحب بڑے فخر سے اپنی روشن خیالی کا پرچار کرتے۔ علماء، داڑھی، پردے کا مذاق اڑاتے۔ افسری، مال و دولت، اوپر سے تین بیٹے، خوبصورت بنگلہ۔ دونوں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ دونوں اتنے مگن تھے کہ شاید یہ سب کچھ ختم نہ ہوگا۔ یہ تو انہوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب نعمتیں امانت ہیں۔ عالم شباب میں، جوانی کی ترنگ میں انسان بھول جاتا ہے، دھوکا کھا جاتا ہے، سمجھتا ہے یہ جوانی سدا رہے گی، یہ حسن کبھی ماند نہیں پڑے گا۔ انسان ہوا میں اڑنے لگتا ہے کہ ہمارے پاس مال ہے، کرسی ہے، ہمیں کسی کی کیا پروا؟ یہی معاملہ جہاں آراء بیگم کا تھا۔ وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی ہر زاویے سے خود کو دیکھتی، خوش ہوتی، گویا کہہ رہی ہو: ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ شہر کے مہنگے اور مشہور بیوٹی پارلر جاتی۔ وقت پَر لگاکر اڑنے لگا، ایسی ہی رنگین شام و سحر میں دونوں مگن تھے کہ اچانک دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ کرنل حسن اپنی فیملی کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ خطرناک ایکسیڈنٹ ہوگیا، جانیں تو بچ گئیں مگر کرنل صاحب کی ٹانگ دو جگہ سے ٹوٹ گئی، اور بھی شدید چوٹیں آئیں، بیگم صاحبہ اور بچے بھی شدید زخمی حالت میں اسپتال میں ہیں۔ سب کو چپ سی لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے عجیب پلٹا کھایا، نوکر چاکر گئے، مال و دولت ختم ہونے لگا۔ جہاں آرا بیگم کے ظاہری زخم کیا ٹھیک ہوتے کہ فالج کا بھی شدید حملہ ہوگیا۔ بستر کی ہوکر رہ گئی۔ بچے اپنی اپنی زندگی میں مگن ہوگئے۔ بیٹی تھی نہیں، ٹی وی دیکھ کر کتنی دیر دل بہلایا جا سکتا ہے! بیتے دنوں کو یاد کرکے اکثر آبدیدہ ہوجاتی۔ بے بسی، بے کسی اور صرف یادوں کا خزانہ تھا۔ ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتی اور پکار اٹھتی: اوہ کاش‘ آہ افسوس… وہ بے بس ہوکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔

کبھی نرمی، کبھی سختی، کبھی عجلت، کبھی دیر
وقت اے دوست بہر حال گزر جاتا ہے

زندگی کی بعض حقیقتیں بڑی تلخ ہوتی ہیں لیکن انہیں اپنی تمام تر تلخی کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ خوشی اور غم، خوش بختی اور بدبختی انسان کے ساتھ سائے کی طرح لگے ہوتے ہیں۔ غم کے بعد خوشی، آسانی کے بعد مشکل اور دکھ کے بعد سُکھ کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ ہر دو طرح سے انسان کا امتحان ہورہا ہے، بس انسان یہ بھول جاتا ہے کہ زندگی آخرت کی کھیتی ہے، امتحان کی جگہ ہے۔ یہ حادثات، بیماریاں، موت، بھوک غم انسان کو جھنجھوڑتے ہیں، خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔
’’صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے‘‘۔ ٹی وی آن کیا تو بڑی دل نشین آواز میں مولانا صاحب دنیا اور آخرت کی حقیقت سمجھا رہے تھے۔ موت و زندگی کا فلسفہ سمجھا رہے تھے۔ جہاں آرا بیگم سنتے سنتے گم سی ہوگئی۔ اپنے اردگرد سے بے نیاز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ بے شک تبدیلی کا ایک لمحہ ہی ہوتا ہے۔ اللہ مجھے معاف کردے، میرے اللہ، میرے معاف کرنے والے مالک! میں سچی توبہ کرتی ہوں، مجھے قبر سے سخت ڈر لگتا ہے۔ میرے لیے آسانی فرما، تُو ہی میرا سہارا ہے، واحد آسرا ہے۔ روتے روتے نڈھال ہوگئی۔ مولانا نے نماز، استغفار اور قرآن پاک جو کتابِ زندگی ہے، جو نصابِ زندگی ہے اس کو سمجھ کر پڑھنے پر بہت زور دیا۔ شرائطِ توبہ بتائیں۔ انداز کچھ ایسا تھا کہ غفلت کے پردے چاک ہونے لگے۔ بے اختیار دل چاہا کہ سجدے میں گر جائے، اٹھ کر قرآن پاک، مصحفِ خداوندی کو اپنے بازوئوں میں لے کر آنکھوں پر رکھے، چوم لے، سینے سے لگائے… مگر ہائے یہ بے بسی، یہ معذوری… پھر مجھے تو صحیح قرآن پاک پڑھنا بھی نہیں آتا، پھر مجھے تو اتنی عربی نہیں آتی کہ سمجھ سکوں کہ میرے رب نے میرے نام کیا پیغام دیا ہے، کیا کرنے کا حکم دیا ہے، کس چیز سے روکا ہے؟ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے؟ کامیاب کون ہے اور ناکام کون؟ میں نے تو کبھی اس طرح سوچا بھی نہیں، میں نے کبھی جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ میں تو اُن کو فرسودہ خیال سمجھتی تھی، بیک ورڈ کہتی تھی جو پردہ کرتی یا قرآن کو سیکھنے کو دعوت دیتی ہیں۔ مدرسے میں پڑھتی یا پڑھاتی ہیں۔ لیکن آج میں یقین سے کہہ سکتی ہوں وہی کامیاب ہیں، وہی صراطِ مستقیم پر ہیں، وہی میری خیرخواہ ہیں۔ اسی کشمکش میں تھی کہ اندر سے ایک آواز آئی، ایک میٹھی رسیلی آواز، پُرامید آواز: جہاں آرا توبہ کا در کھلا ہے، نزع سے پہلے پہلے موقع ہے منا لو اپنے روٹھے رب کو، راضی کرلو اپنے ناراض اللہ کو، جو ستّر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، جو ستارالعیوب ہے، جوغفار ہے۔
ایک نئے عزم کے ساتھ پوری طاقت جمع کرکے اپنی خدمت گار اماں کو آواز دی، اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے وضو کرائو، میرے کپڑے تبدیل کرائو، میں نماز اشاروں سے پڑھوں گی۔ پھر قرآن پاک کو بھی سمجھ کر پڑھنے کا عزم کرلیا جس کا اظہار کرنل صاحب سے بھی کیا۔ پُرعزم لہجے میں کہا: اب ہمیں اپنے مشاغل بدلنے ہوں گے، اپنی باقی زندگی رب کی بندگی میں گزارنے کا عزم کرلیں۔ دنیا کی تمام نعمتیں توبہ کی اِس نعمت کے سامنے ہیچ لگنے لگیں۔ طبیعت کو ایک قرار سا آگیا۔ ایک تسکین، ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے ایک تسکین کا سمندر ہے جو اس کے سارے وجود میں اتر گیا ہے، ایک نورانی لہر ہے جو اس کے اندر دوڑ گئی ہے، ایک کیف آور لذت روح تک سرایت کر گئی ہے۔ جھلستی تپتی روح کو جیسے خنک برف کا نخلستان مل گیا ہے۔ وہ کھلی شاہراہ پر تھی، اب اس کو اپنا فالج زدہ جسم بوجھ نہیں لگ رہا تھا، بلکہ مہلتِ عمل مانگ رہی تھی۔ اسے توبہ کے ساتھ یہ زندگی نعمت لگنے لگی تھی کہ شاید آخرت کے لیے کوئی زادِ راہ اکٹھا کرلوں۔

کھلی جو آنکھ وہ تھی نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا

حصہ