زندگی کو آسان کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

1282

لبنیٰ شاہ
تشویش سے نجات حاصل کریں
آپ نے اکثر ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جنہیں عموماً کسی نہ کسی معاملے میں فکریں لاحق رہتی ہیں۔ وہ زیادہ تر یہی سوچتے ہیں کہ معاملات بگڑنے والے ہیں۔ گویا تشویش ایک ذہنی رویہ ہے جو ہمیں معاملات کے سلسلے میں ڈرائونی فکروں سے دوچار رکھتا ہے۔
اس دور میں عام آدمی اس مرض کا خصوصیت سے شکار دکھائی دیتا ہے۔ تشویش آدمی میں کئی ذہنی اور جسمانی علامتیں ابھارنے کا سبب بنتی ہے۔ ان باتوں کے علاوہ اس کے ذہن میں ’’خوف‘‘ جاگزیں ہوجاتا ہے، اور یہ خوف بے حد پریشان کن ہوتا ہے۔ اس سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے خیالات کو خود ہی روکنے کی کوشش کرتا ہے، اوپر سے وہ پُرسکون نظر آنا چاہتا ہے مگر اس کے اندر خوف (تشویش) بڑھتا جاتا ہے۔ تشویش سے نجات حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کریں:
٭… اپنے خوف، خواہشات اور دبی ہوئی ضروریات کو تسلیم کریں، ان کی شناخت کریں، انہیں خود اپنے آپ سے نہ چھپائیں۔
٭… خود کو یہ کہہ کر دھوکا نہ دیں ’’مجھے اس کی کوئی شدید احتیاج نہیں‘‘۔ خواہشات اور محسوسات کو دبانے سے توانائی ضائع ہوتی ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں ’’مجھے تو غصہ نہیں آتا‘‘۔
٭… جائزہ لیں کہ آپ کی تشویش کہیں فضول اور بے معنی تو نہیں! یہ اکیلے پن کے احساس سے تو نہیں ابھری!
٭… اُن کاموں میں خود کو تھکانے کی ضرورت نہیں جو آپ کی تشویش دور کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ مصروفیات ذرا دیر کے لیے تو تشویش روک سکتی ہیں مگر مستقلاً نہیں۔
٭… تشویش کو ختم کرنے کے لیے حقیقت پسندی بہت ضروری ہے۔ اسے مکمل طور سے ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ زندگی میں ہر وقت بے یقینی اور خطرے کا عنصر ضرور رہتا ہے، صرف اُن خطرات کو پیش نظر رکھیں جو واقعی حقیقی ہیں۔ تھوڑی سی تشویش ہمیں زندہ رکھنے میں معاون ہے۔
٭… ورزش سے بھی تشویش کم ہوتی ہے۔ کم از کم آدھا گھنٹہ ورزش ضرور کیا کریں۔ کوئی ایسا کام کریں جو جسم کو مسلسل ایک خاص انداز میں حرکت دینے والا ہو۔
یاد رکھیں، تصور میں کوئی بات سوچنا اور چیز ہے، اور عملاً کچھ کرنا اور چیز ہے۔ لہٰذا خوامخواہ کی سوچوں کو اپنے اوپر مسلط نہ کریں۔
بوریت سے نجات:
اشیا، افراد یا کام میں دل چسپی نہ ہونے سے ہمارے اندر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے بوریت کہتے ہیں۔ اکثر اوقات ہم اسے متبادل مسئلے کا نام دے سکتے ہیں۔ زیادہ تر یہ موجودہ مسئلے کی بے کیفی کے بجائے کسی اور اہم معاملے سے کنی کترانے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ بوریت کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے، لیکن اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو یہ بعد میں ڈپریشن کا باعث بن جاتی ہے۔
٭… بوریت سے نجات کے لیے اپنی قوتوں کو حرکت میں لائیں، اپنے بارے میں اپنی رائے کو بہتر بنائیں، کوئی ایسا کام کریں جو آپ کو اچھا اور بامعنی لگتا ہو۔
٭… حال پر زیادہ توجہ دیں۔
٭… کسی کام میں مشغول ہوجائیں، کوئی ذمے داری قبول کریں، اپنی یادداشت میں ماضی کی کامیابی یا کوئی اور اچھی بات ابھاریں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔
٭… کسی ایسی جگہ جہاں انتظار کرنے کا امکان ہو تو اپنے ساتھ کوئی دل چسپ کتاب یا میگزین وغیرہ لے جائیں۔
٭… اپنے کاموں کے بارے میں سنجیدگی سے منصوبہ بندی کریں، اپنی موجودہ احتیاجات کا جائزہ لیں اور اپنے لیے مناسب مقاصد کا تعین کریں۔
ناکامی کے چند اسباب:
یہ خیال کہ رقم کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، غلط ہے۔ اس طرح آدمی عمل ہی نہیں کرتا۔
٭… ماضی اور حال کا ٹکرائو، اس میں ماضی حال کو بھی تباہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔
٭… ذہنی طور پر متبادل راستہ نکالنے سے رک جانا۔
٭… یہ سوچنا کہ اب حالات قابو میں نہیں آسکتے۔
٭… مشکل وقت میں گھبرا جانا۔ کوئی بھی مسئلہ ہو چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہاتھ پر ہاتھ دھرکر مت بیٹھیں، اسے حل کرنے کے لیے کوشش ضرور شروع کردیں۔
٭…غیر معمولی مسائل کے حل کی تجاویز: مسئلہ جتنا دشوار ہوگا اسی قدر اس کا حل بھی غیر معمولی ہوگا۔
٭… زندگی کے مسئلے بھی ریاضی کے سوالات کی مانند جوڑنے، گھٹانے سے ہی حل ہوتے ہیں۔
٭… کیا ضروری ہے؟ اور کون اس میں اہم ہے؟ دونوں کا پتا کریں۔
٭… یہ مت سوچیں کہ جس نے آپ کو دشواری میں ڈالا ہے جان بوجھ کر ڈالا ہے۔
٭… یاد رکھیں، ہم میں سے کوئی فرشتہ نہیں۔ اکثر مشکلات غلط فہمیوں سے جنم لیتی ہیں، انہیں عمل سے قبل ہی دور کردیں۔
٭… پہلے اپنے مسئلے کے سبھی پہلوئوں کو اچھی طرح دیکھ لیں، اس میں اچھی طرح ذہنی اور جسمانی طور پر شامل ہوکر دیکھیں‘ خود کو اپنی جگہ سے ہٹاکر دوسروں کی جگہ پر رکھیں اور سوچیں۔ دیکھیں دوسروں کا کردار کس طرح معاملے کو متاثر کررہا ہے۔ اس کے بعد ماضی کے تجربات اور حالات کو بروئے کار لائیں۔ یہ بھی یاد رکھیں مشکلات سے اور طرح بھی نمٹا جا سکتا ہے، یا تو آپ مشکلات کو تبدیل کردیں یا پھر خود کو تبدیل کرکے مشکلات کا سامنا کریں۔
ان تجاویز پر اپنی قوتِ ارادی سے عمل کرکے ہم نہ صرف ان مشکلات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کو مزید آسان بنا سکتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں ہر پریشانی اور مشکل کے وقت خدا کی ذات پر بھروسا کرنا چاہیے اور اس سے تعلق جوڑنا چاہیے، کیوں کہ یہ روحانی تعلق ہمیں ہر قسم کی ذہنی و جسمانی پریشانیوں اور الجھنوں سے بچا سکتا ہے۔

خواتینِ اسلام کی ذہانت

عورت کی عقل مندی
اصمعی فرماتے ہیں کہ ہم کو علی بن قاسم قاضی نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے ایک واقعہ سنا ہے کہ موسیٰ بن اسحاق ایک قاضیِ وقت تھا اور وہ کبھی مسکراتا نہ تھا۔ ایک عورت نے کہا کہ میں اس کو ہنسا سکتی ہوں۔ لوگ حیران ہوئے اور کہا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے، قاضی کبھی ہنسا نہیں۔ عورت نے کہا کہ میرے پاس بھی ایک گُر ہے جس کی وجہ سے قاضی کو ہنسنے کے سوا چارہ نہیں ہوگا۔ لوگوں نے کہا: اچھا، قاضی کو ہنسا کر دکھائو۔ وہ عورت قاضی کے سامنے آئی اور اس سے کہا: اے قاضی، آپ کو دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ پوچھا: کیوں؟ کہا: اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ’’قاضی دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔‘‘ قاضی یہ سن کر مسکرا دیا۔
ایک بوڑھی عورت کی ذہانت
حجاج بن یوسف اپنے وقت کا سخت گیر حاکم تھا۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے۔ اس نے ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت کے بیٹے کو سزا دی۔ اس بوڑھی نے آکر حجاج کو سخت سست کہا کہ اے حجاج! تم ظلم کرنا چھوڑ دو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایسا مٹائے گا جیسے اس نے قرآن مجید کے پہلے پندرہ پاروں میں ’’کلا‘‘ کا لفظ اڑا دیا ہے۔ حجاج بھی حافظِ قرآن تھا، قرآن کا قاری تھا، بلکہ مقری تھا۔ جب اس نے قرآن پر نظر ڈالی تو پہلے پندرہ پاروں میں اسے کہیں ’’کلا‘‘ کا لفظ نظر نہ آیا۔ کہنے لگا: واقعی تم نے بات تو سچ کہی ہے، اگر کہیں کلا کا لفظ ہوتا تو میں تمہیں بھی سزا دلواتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت کی بوڑھی عورتیں اپنی روزمرہ کی گفتگو میں کیسے کیسے علمی نکات بیان کیا کرتی تھیں۔
ایک باندی کی حاضر جوابی
عطار ماجن کے سامنے ایک باندی کھڑی ہوئی۔ شکل کی ذرا بدصورت تھی۔ عطار کی رگِ ظرافت پھڑکی اور اس پر چوٹ کرنے کے لیے اُس نے قرآن پاک کی آیت پڑھی واذالو حوش حشرت یعنی جب وحشی جانور اکٹھے ہوجائیں گے۔ باندی بھی حاضر جواب تھی، اس نے جواباً آیت پڑھ دی وضرب لنا مثلا ونسی خلقہ یعنی ہمارے لیے تو مثال دیتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا۔
انتخاب: ’’حافظہ اور ذہانت کے حیرت انگیز واقعات‘‘
(از:مولانا روح اللہ نقشبندی)

حصہ