ابھی کچھ لوگ اردوبولتے ہیں

488

عائشہ پرویز صدیقی
چند روز پہلے ایک شناسا خاتون کا اِن باکس میسج انگریزی زبان میں موصول ہوا۔ عموماً ہم شعوری طور پہ اردو میں ہی جواب دیتے ہیں، مگر اُس وقت کچھ جلدی میں تھے اور کچھ بے دھیانی میں بھی، اسی زبان میں جواب دے دیا۔ فوراً ہی پہلے کھلے منہ اور حیرت سے پھٹی آنکھوں والے دو ایموجیز موصول ہوئے، اور پھر میسج آیا: ارے… آپ تو انگریزی میں بھی دل چسپ رپلائی کرتی ہیں۔ مطلب، ہماری قابلیت کا معیار جانچا جارہا تھا… اور شاید اتفاقیہ طور پہ ہم نے اُن کا یہ مطلوبہ ہدف پورا بھی کرلیا تھا… گویا سراسر ہماری خوش نصیبی۔
ہمارے لیے یہ کوفت بھری صورت حال بالکل غیر متوقع نہیں تھی۔ یہ کوئی نئی بات کب ہے! معاشرتی المیہ ہی یہ ہے کہ اگر کوئی اردو میں تبصرہ یا پیغام رسانی کرتا ہے تو وہ یقینا ’’پیلے اسکول‘‘ سے پڑھ کر نکلا ہے… برگر نہیں… نرا بن کباب… یعنی عجیب بے چارہ اور مسکین سا، یا یوں کہہ لیجیے کہ ناخواندہ غریب عوام کا سا تصور خودبخود قائم کرلیا جاتا ہے… ایک خودساختہ معیار۔
کسی بھی قوم کی پہچان اُس کی تہذیب و ثقافت اور قومی زبان ہی ہوتی ہے۔ باوقار قومیں ہمیشہ اپنی ثقافت اور زبان پہ ناز کرتی ہیں… احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتیں۔ اردو میں لکھنا اپنی زبان اور اپنے رسم الخط سے محبت کے اظہار کی ادنیٰ سی کوشش بھی تو ہوسکتی ہے…اپنی زبان سے محبت کا زبانی کلامی دعویٰ کرنے کے بجائے ہم اسے اپنا کیوں نہیں سکتے؟ کیوں اس بات کی ہمت نہیں جٹا پاتے؟ اور اگر کوئی اس پر عمل پیرا ہو تو کیوں اپنی سوچ کو وسیع اور مثبت نہیں بنا سکتے؟ اپنے بنائے ہوئے اس معیار پہ کیوں نظرِثانی نہیں کرسکتے؟ اردو میں لکھنے والے بھی اتنی ہی قابلیت رکھتے ہیں جتنا دقیق انگریزی میں لکھنے والے، یا اردو اور انگریزی کے ملے جلے الفاظ کی مدد سے رومن میں لکھنے والے لوگ! یقین کیجیے اردو میں بات کرکے ہماری جدیدیت پر اور ہماری فیشن ایبل شخصیت پر بٹّا نہیں لگتا۔ موجودہ دور میں ہماری زبان اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے کہ اب ہمیں اپنے بچوں کو ہی نہیں بلکہ بڑوں کو بھی اردو الفاظ کا ترجمہ انگریزی میں سمجھانا پڑتا ہے۔
کل ایک سہیلی سے فون پہ گفتگو ہورہی تھی، اس دوران ہم نے رواروی میں کہہ دیا ’’کل شام ہمارے گھر آنے میں آپ کو کیا قباحت ہے…!آپ کے بنائے ہوئے پروگرام پہ ہم تو ہمیشہ بلا تردد عمل کرتے ہیں۔‘‘
فوراً بولیں ’’کیا کہا…؟ دوبارہ بولنا … بھئی ایک تو تم اور تمھاری یہ گاڑھی اردو…‘‘ تب آسان زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا… فوراً بولیں ’’نہیں نہیں مجھے تو کوئی ان کنوینس نہیں ہے۔ میں تو اس لیے ہیزیٹیٹ کررہی ہوں کہ کچھ گیسٹ آنے والے ہیں۔ ان کا پروگرام ابھی کنفرم نہیں ہے…!!‘‘ گفتگو کا یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر انداز اور یہ ملی جلی زبان ہماری نظر میں قابلِ اعتراض تو نہیں، مگر کم ازکم اتنا تو ہو کہ ہمیں ان الفاظ کے اردو میں متبادل بھی معلوم ہوں… اردو وسیع ذخیرۂ الفاظ رکھتی ہے مگر ہم خود ہی تہی داماں ہونے پر مُصر ہیں، اسی میں خوش بھی ہیں اور مطمئن بھی۔
اپنی زبان کی شیرینی اور چاشنی کو محسوس کرکے دیکھیے… اپنا یہ تہذیبی ورثہ اپنی نسلِ نو میں منتقل کیجیے… یقین جانیے آپ کو محسوس ہوگا کہ اس کا مزا اور اس کا لطف ہی اور ہے۔

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

حصہ