گھر سائبان

513

رقیہ فاروقی
میں ہما کے تسلسل کے ساتھ بہتے ہوئے آنسوئوں کو دیکھ رہی تھی۔ گمبھیر آواز میں اس کی التجا میرے دل کو زخمی کررہی تھی۔ ’’باجی! میری شادی کے سلسلے میں مناسب رشتے کے لیے رہنمائی کردیجیے۔ میں بیس سال سے پارلر میں کام کر کرکے تھک گئی ہوں۔ میں باہر کی دنیا سے عاجز آگئی ہوں‘‘۔ میں نے حیرانی سے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھے بنا رہ نہ پائی ’’کیا واقعی! تم اپنی اصل یعنی گھر کی طرف لوٹنا چاہتی ہو؟‘‘
وہ تو گویا پھٹ ہی پڑی۔ ایک ترنگ میں بولتی ہی چلی گئی ’’باجی! آپ کو کیا معلوم، جو عورت گھر سے باہر قدم نکالتی ہے اُسے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی ادارے میں ملازمت ہو تو مالکوں کی جھڑکیاں روزمرہ کی بات ہے، اس کے علاوہ تنخواہوں کے حصول میں جان توڑ کوششیں ہوں یا ٹھٹھرتی صبحوں میں سواری کا جان لیوا انتظار۔ ہر رخ اس صنفِ نازک پر گراں ہے۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ نکاح کے بندھن میں بندھ کر کسی محافظ کی حفاظت کے مضبوط حصار میں پناہ لے لوں۔‘‘
اُس کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ اصل کو کون بدل سکتا ہے! کیا چند پوسٹروں کے ذریعے عورت کی فطرت کو بدلا جا سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ عورت کی اصل پردہ ہے۔ اس لیے اُسے چھپنے میں ہی راحت ملتی ہے۔ جس قدر وہ عیاں ہوتی ہے، اسی قدر بے سکون ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر یہ بے سکونی اس کے لیے جان کا روگ بن جاتی ہے، لیکن اس کو آزادی کے خواب دکھا کر ایک ایسا حیوان بنادیا جاتا ہے، جو محض خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کا ذریعہ ہو۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت عزت دی ہے، مگر عزت کے اس مقام کو پانے کے لیے اس کے گرد ایک حصار باندھ دیا ہے، چاہے وہ شوہر کی صورت میں ہو یا کسی بھی محرم کی صورت میں۔ اس سے باہر نکل کر تو ایک خوفناک جنگل ہے، جہاں ہر قدم پر شیطان تاک میں ہے۔ اِدھر اس کا پائوں پھسلا ، اُدھر پستیوں کے پاتال میں اتری۔
پھر عورت ہی مطعون ٹھیرتی ہے۔ ساری زندگی اس کا گناہ زمانہ یاد رکھتا ہے۔ وہ اپنا تشخص کھو بیٹھتی ہے۔ لیکن فہم کی آنکھ کھلنے تک تباہی کے وہ در وا ہوچکے ہوتے ہیں جن کے پٹ کو دھکیلنے کے لیے مدتوں کی توانائیاں درکار ہوتی ہیں۔ پھر سوچتے سمجھتے اور جانتے بوجھتے کتنی معصوم لڑکیاں زندہ لاشوں میں بدل جاتی ہیں، جہاں آنکھیں دیکھتی ہیں، لیکن رنگوں کی جھلک معدوم ہوجاتی ہے۔
اے بنتِ حوا! تم تو شرم کا استعارہ ہو، اپنے دامن کو سنبھال لو۔ تمھیں تو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نازک آبگینے کی مانند فرمایا ہے۔ تمھارا جھوٹا پانی پی کر جاہلیت کے تاثرات کو مٹادیا ہے۔ تمھارے لیے محرم رشتوں کو محافظ بنایا ہے۔ اتنے احسانات کی ناقدری مت کرو۔ چند ٹکوں کی خاطر نکاح جیسے مقدس رشتے کی توہین مت کرو۔
نام نہاد آزادی میں کتنا دور جائوں گی؟ خیال کرنا، کہیں واپسی کے دروازے بند نہ ہوجائیں، پھر تم ویرانوں میں کسی بدروح کی طرح بھٹک جائو۔ اس سے پہلے ہی اسلام کے دیے ہوئے مقام کو پہچانو اور اپنی اصل کی طرف لوٹ آئو، جو تمھارے نام کا مطلب ہے۔ ہاں! بے حیائی سے تائب ہوکر ستر کی طرف لوٹ آئو۔

نرگسی پوریاں

اجزاء: آٹا 2 پیالی، کوکنگ آئل 2 کھانے کے چمچ، نمک حسبِ ذائقہ، انڈے (ابال کر کچل لیں) 2 عدد، آلو (ابال کر بھرتہ کرلیں) 2 عدد، ہرا دھنیا (کٹا ہوا) ایک کھانے کا چمچ، پودینہ (کٹا ہوا) ایک کھانے کا چمچ، ہری مرچ (کٹی ہوئی) ایک عدد، گرم پانی آٹا گوندھنے کے لیے، آئل یا گھی پوریاں تلنے کے لیے۔
ترکیب: کچلے ہوئے انڈوں، آلو کے بھرتے، ہرا دھنیا، ہری مرچ اور نمک کو آپس میں ملا کر گوندھ لیں اور اسے آٹھ برابر حصوں میں تقسیم کرلیں۔ آٹے کو چھان لیں اور اس میں نمک یا تیل ڈال کر اچھی طرح مکس کرلیں، پھر آہستہ آہستہ گرم پانی ڈالتے ہوئے اسے گوندھیں۔ اب گوندھے ہوئے آٹے کے آٹھ برابر پیڑے بنا لیں۔ ہر پیڑے کو معمولی سا بیلیں تاکہ گول ہوجائے، درمیان میں انڈے اور آلو کا بھرتہ رکھ کر پیڑے کو تہہ کریں اور کناروں کو آپس میں جوڑ دیں۔ اب ہر پیڑے کو 2 انچ قطر کی گول پوری کی شکل میں بیل لیں، اب کسی کڑھائی میں آئل گرم کریں اور باری باری ہر پوری گولڈن ہونے تک ڈیپ فرائی کریں۔ گرم گرم پوریوں کو دہی کے ساتھ پیش کریں۔
٭٭٭٭

حصہ