گٹھلیوں کے ڈھیر۔ ظلم کے گواہ

1077

افشاں نوید
پچھلے برس ترمذی صاحب رمضان کے روزے نہ رکھ پائے ان کا شوگر لیول اس تیزی سے اَپ اور ڈائون ہونے لگا کہ ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے منع کردیا۔ سارا سال ہر مہینے کی آخری جمعرات کو مسز ترمذی اپنے شوہر کی صحت کے لیے آیت کریمہ کا ورد کراتی رہیں۔ پڑوسی ہونے کے ناطے میں بھی ضرور شرکت کرتی۔ اس بہانے محلے کی خواتین سے بھی ملاقات ہوجاتی کچھ حال احوال معلوم ہوجاتے۔ آیت کریمہ پر بڑا اعنقاد ہے ہر مسلمان کا اور ہونا بھی چاہیے کہ اللہ کے کلام میں بڑی برکت ہے اور واقعی مسائل حل بھی ہوتے ہیں۔ سال کے شروع میں شدید خانگی مسائل کا شکار رہی۔ جس رشتہ دار کو علم ہوتا وہ ہمدردی کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی وظیفہ ضرور بتادیتا۔ کوئی کہتا اتنی سو بار یہ اسم مبارکہ پڑھو بڑی برکت ہے، کوئی کسی آیت کا بتاتا، کوئی کسی سورۃ کو بڑھنے کی نصیحت کرتا۔ سیکڑوں کتابیں ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ فلاں مشکلات کا حل فلاں ورد میں ہے اور فلاں آیت فلاں اثرات کو زائل کرتی ہے۔ یقینا لوگوں کی تحقیق رہی ہوگی اور یہ سب افادئہ عام کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو ’’منزل‘‘ پڑھنے کو دنیا کے تمام مسائل کا حل گردانتے ہیں اور ان کے خیال میں جو ایسا نہیں کرتے وہ خود آفات و بلّیات کو دعوت دیتے ہیں۔ میری کزن بولی کہ ’’میں نے اپنی ساس کو بہت مجبور کیا کہ وہ قرآن ترجمے سے پڑھا کریں، ہماری ہدایت اور نجات کا راستہ تو اس کتاب آخر میں ہے۔ مگر وہ بعد نماز فجر بہت عقیدت سے بس ’’منزل‘‘ کا ورد کرتی ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ہر مصیبت کا آزمودہ نسخہ بس یہی ہے۔ حالانکہ ہم ہدایت طلب کرتے تو مصیبتوں سے خود ہی راہ نجات روشن ہوجاتی‘‘۔
محلے بھر میں آیت کریمہ کی محفلوں میں امی جان کے ساتھ جانے کا موقع ملتا تھا۔ ہر دن کسی نہ کسی گھر میں کہیں وردِ نسجینا، کہیں آیت کریمہ، کہیں کسی سورۃ کا ختم جیسی تقاریب میں جانے کا موقع ملتا۔ ظاہر ہے کہ لوگ اپنی پریشانیوں میں اللہ ہی سے رجوع کرتے ہیں، وہی دکھے دلوں کا سہارا ہے اور وہی بگڑی بناتا ہے۔ کہیں سیکڑوں اور کہیں ہزاروں کی تعداد میں ان وظیفوں کا ختم ہوتا ہے۔ اہل محلہ اور خاندان کے لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتہائی احتیاط سے گنتی کرکے یہ وظائف مکمل کرتے ہیں اور اپنی حاجتوں کے لیے فریاد کرتے ہیں اور وہ کیوں نہ سُنے گا وہ تو بندے کی رگِ گلو سے بھی قریب تر ہے۔ اس وقت مسز ترمذی کے ساتھ بیٹھی میں بھی تسبیح پر آیت کریمہ کا ورد کررہی ہوں اور کمرے میں موجود دیگر خواتین بھی۔ اس مذہبی تقریب کے لیے انہوں نے کمرے کو بڑے سلیقے سے آراستہ کیا ہے۔ سفید براق چادریں، سرخ مخملی گائو تکیے، دو اطراف چھوٹی میزیں ایک پر تسبیح و کتب اور دوسری پر موتیے کے پھول ایک کرسٹل کے بڑے جار میں رکھے ہیں جو کمرے میں دھیمی دھمی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ درمیان میں پلاسٹک کی شیٹ پر املی اور کھجور کی خشک گٹھلیاں رکھی ہیں جن کو بہت احتیاط سے ان کی بہو شمار کرتی جارہی ہے کہ کتنی تعداد میں ابھی وظیفہ پڑھنا باقی ہے۔ رو در رو بیٹھی خواتین کے لب جنبش میں ہیں، سب کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ ادا ہورہا ہے کہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔
نہیں ہے کوئی معبود سوائے آپ کے، پاک ہے آپ کی ذات، بے شک میں ظالموں میں سے ہوں! اللہ آزمائشیں بندوں پر ڈالتا ہے کھی ان کا ایمان بڑھانے کے لیے اور ان کو رجوع کا موقع دینے کے لیے، کبھی ان کے گناہوں کی سزا کے طور پر، کبھی ان کے درجات بڑھانے کے لیے اور کبھی انہیں نعمتوں کی معرفت عطا کرنے کے لیے۔ کتنے پیارے ہیں یہ کلمات جو اس وقت ہم سب ادا کررہے ہیں۔ حضرت یونسؑ کی دُعا کہ جب ان کو اندازہ ہوا کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں، مچھلی کے پیٹ میں وہ قصوری قلب سے اپنے رب کو پکارتے ہیں کہ مجھ سے ظلم ہوگیا ہے۔ تیری پاک ذات نے نظر کرم نہ کی تو کوئی نہیں اس آزمائش سے نکالنے والا۔ بندے کو اپنے قصور کی معرفت عطا ہوجانا قدرت کا بہت بڑا انعام ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انبیاء علیہ السلام بھی بشری کمزوریوں سے خطا کر گزرتے تھے اور غلطی کا احساس ہوتے ہی فوراً رجوع کرلیتے تھے۔ حضرت آدمؑ کو تو رب نے خود کلمات سکھائے توبہ کے اور ان کی توبہ قبول کی۔ اس کا دربار تو ہر لمحہ کھلا ہے کہ کب کوئی عاصی پلٹ آئے اور وہ اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے۔ اور رمضان المبارک میں تو ایک پورا عشرہ بھی عشرہ مغفرت ہے کہ بندے پلٹ آئیں، رجوع کرلیں، اپنی پیشانی اس کے سامنے رکھ دیں تو وہ ان کو سایہ رحمت سے ڈھانپ لے!!۔
ہم سب بھی اس وقت یہی کلمہ بار بار دھرا رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد مکمل ہورہی ہے، میں خواتین کے ہلتے ہوئے لعب دیکھ رہی ہوں اور اللہ پاک سے دست بد دعا ہوں کہ اے اللہ ہم پر ہمارے نفس کو آشکار کردے۔ یہ بہت حجت باز ہے دلیلیں دیتا ہے ہمارے اور ہمارے گناہوں کے درمیان بہت سارے حجابات حائل ہیں۔ حضرت یونسؑ کی طرح ہمیں بھی اپنے قصوروں کی معرفت عطا فرما۔ کہ ہم سچی توبہ کرسکیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ آزمائشوں میں بھی ہمیں قصور دوسروں ہی کے نظر آتے ہیں، ہمارا گمان بس یہاں جا کر ٹھہر جاتا ہے کہ لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں اور یہ حسد ہمیں آزمائشوں کی بھٹی میں دھکیلتا رہتا ہے۔ جو لوگ ہم سے زیادہ نافرمان ہیں وہ تو مزے میں ہیں اور آزمائشوں سے ہم گزرتے ہیں۔ شیطان تو انسان کے خون میں گردش کررہا ہے وہ نہیں جانتا کہ حقیقت ہم پر آشکارا ہو۔ اسی لیے اللہ کے نبیؐ دُعا سکھا کر گئے کہ وکشف لی وجوہ الحقائق۔ کہ رب مجھ پر حقائق کو کشف کردے۔
یہ بیس بائیس خواتین جو وظیفہ پڑھ رہی ہیں اعتراف کررہی ہیں کہ ہم ظالم ہیں، کیا ہمارے اندر یہ اخلاقی جرأت ہے کہ ہم ظالم کو اس کا بتا سکیں یا جو ظلم ہم سے ہوچکا ہے ہم اس کے تدارک کے طریقے سوچیں۔ اللہ کے نبیوں نے جب قصوروں کا اعتراف کیا تو پھر باقی زندگی مسلم حنیف بن کر گزاری۔ بہترین یکسو بندہ بن کر، مگر ہمارے لیے کتنا دشوار ہے اپنے قصوروں کا اعتراف۔
میں نے سوچا کہ اختتامِ وظیفہ پر ضرور سرگوشیوں میں مسز ترمذی سے کہوں گی کہ ان کے سسر کے انتقال پر جو جائیدادوں کے جھگڑے اُٹھ کھڑے ہوئے اور خاندان میں ایسی پھوٹ پڑی تھی کہ الحفیظ الامان۔ ایک زبان سے دوسری زبان ان قصوں کو لیتی چلی جارہی تھی۔ اور نتیجہ میں بھائیوں نے ایک دوسرے سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ کیونکہ زر، زن اور زمین ہمیشہ سے فتنہ و فساد کا موجب رہے ہیں۔ جب ترمذی صاحب کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوا تو میرا گمان تھا کہ اب گلے شکوے دور ہوجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کیونکہ ان کے بیٹوں کا خیال ہے کہ ان کے تایا (ترمذی صاحب) نے جائیداد کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر نہیں کی۔ بات عدالت تک پہنچی، معاملات شاید سلجھ گئے ہوں، جائیداد کے مگر دلوں میں وہ دوریاں پیدا ہوئیں کہ اب ترمذی صاحب کی اکلوتی بہن اور مرحوم بھائی کے بچے عید، بقر عید تک پر ان کے گھر نہیں آتے۔ اسلام نے رحیم کے رشتوں کو قطع کرنے پر کتنی وعیدیں سنائی ہیں۔ آخرت میں تو حساب کتاب ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی نافرمانیوں کی سزا ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔ ہم جس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں وظیفہ پڑھیں اور ظالم ہونے کا اعتراف کریں وہ تو اپنا ظلم ماننے پر آمادہ ہی نہیں۔ اللہ نے ہمیں عقل و شعور، فہم و بصیرت اور ہدایت کی پوری روشنی میں اس دنیا میں بھیجا ہے۔ میں نے مسز ترمذی سے کہا کہ ’’آپ اپنے شوہر سے کہیں کہ وہ رمضان میں اپنا دل صاف کرلیں اپنے رشتہ داروں کی طرف سے۔ اپنی بہن کو منالیں اور یتیم بھتیجی، بھتیجوں کے سر پر ہاتھ رکھ دیں!‘‘۔ وہ بولیں کہ ’’ان کا تو خیال ہے کہ زیادتی ان کے ساتھ ہوئی ہے کسی نے ان کے اکرام کا خیال نہیں رکھا اور عدالت میں نازیبا زبان اختیار کی، ان کے بھتیجوں نے ان کے خلاف!‘‘۔ میں نے کہا ’’ہاں بڑائی تو اسی میں ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیاں ہوتے ہوئے بھی انہیں گلے لگالیں۔ آخر رحم کے رشتے یوں تو کمزور نہیں پڑنا چاہئیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہوگی کہ وہ پہل کرلیں، وہ معاف کردیں گے، اللہ بھی درگزر کرے گا ان سے، ہم اللہ سے مغفرتوں اور رحمتوں کے طالب ہیں اس ماہ مبارک میں تو اس کے بندوں سے بھی درگزر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ آخرت میں بھی اجر دے گا اور دنیا میں بھی انہیں راحت نصیب ہوگی۔ وہ بہت سنجیدگی سے سنتی رہیں، پھر بولیں کہ ’’میں کوشش ضرور کروں گی مگر ترمذی صاحب طبیعت کے بہت ضدی ہیں، ان کا دل کسی کی طرف سے میلا ہوجائے تو کم ہی صاف ہوتا ہے۔ دوسرے اب تو صحت کے مسائل نے بھی بہت چڑچڑا بنادیا ہے انہیں۔ بہرحال آپ نے توجہ دلائی ہے میں ضرور کوشش کروں گی‘‘۔
اس دوران سوا لاکھ کا وظیفہ مکمل ہوگیا آیت کریمہ کا۔ میں خشک گٹھلیوں کے ڈھیر کو دیکھنے لگی جو گواہ تھا کہ اس پر اپنے ظلم کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ایک بار نہیں دو بار نہیں ہزار بار بھی نہیں سوا لاکھ بار اعتراف کیا گیا ہے کہ ہم ظالم ہیں۔ مگر کیا وہ اعتراف قلبی تھا کہ حضرت یونسؑ کی طرح پھر واقعی پلٹ گئے، رجوع کرلیا، اواہٗ ینب بن گئے۔ اپنے نفس کی چالوں سے ہشیار ہوگئے۔ اس گٹھلیوں کے ڈھیر اور تسبیحوں پر کتنے لوگوں نے ترمذی صاحب کے حق میں سفارش کی کہ ان سے ظلم ہوگیا ہے انہیں معاف کرکے ان کی صحت پھر بحال کردے۔ مگر خود میں اہلیت نہ ہو تو سفارشیں بھی کہاں تک کام آتی ہیں۔ اس آیت کریمہ کے پس پشت تو ایک رجوع کرنے والا قلب تھا۔ ہم نے وہ کلمہ تو سیکھ لیا مگر اپنے قلب کو وہ قلب سلیم نہ بنا سکے۔ روزہ، نماز، حج بجائے خود مطلوب نہیں ہے اصل چیز ان عبادات کی روح ہے، ان کا جوہر ہے، کتنا عظیم الشان ہے حضرت یونسؑ کی زبان سے ادا ہونے والا وہ کلمہ بشرطیکہ ہمارے ظلم کی معرفت ہمیں نصیب ہوجائے۔ مجھے لگا کہ یکدم تسبیح کے دانے اور کھجور کی گٹھلیوں کو گویائی مل گئی ہے اور وہ کہہ رہی ہیں ’’تم سب ظالم ہو۔ مگر صرف اعتراف کرتے ہو اور اک نہیں رکھتے۔ کیا صرف ورد کرتے رہو گے ظالم ہونے کا یا پلٹو گے بھی۔ سنو! بس جلدی کرو پلٹنے میں!!!۔

حصہ