سوشل میڈیا ہوشیار باش

1224

ایک بات تو یہ سمجھ لیں کہ آج کل کوئی بھی ایشو یا موضوع ایسے ہی ،خود بخود سے زیر بحث نہیںآجاتا۔ جدید مارکیٹنگ کے ابلاغی طریقہ کار کے مطابق اگر آپ اس کی ترتیب کو دیکھیں تو شک نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتاکہ کون سی بات فطری طور پر عوام میں گفتگو کا موضوع بن رہی ہے اور کون سی بات اُنڈیلی جا رہی ہے اور زبر دستی ہاضمہ کروایا جا رہا ہے۔سماجی میڈیا اس کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔
سلو پوائزننگ ، آہستہ آہستہ رگوں (اذہان) میں اُتارنا، نئی نئی اصطلاحیں،نعروں کی صورت ، جملوں میں چھپا کر لانا،مختلف رنگوں، اشارات ، نشانات کے ذریعہ ذہن میں جگہ بنوانا۔یہ سب ابلاغ کی مختلف اشکال ہیں جو انتہائی دیرپا اثرات رکھتی ہیں ۔سماجی میڈیا اس حوالے سے ایک موثر ہتھیار کی صورت اپنا کام کر رہا ہے ۔آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب آپ اپنا کیمپ چھوڑ کر مخالف کیمپ میں جا چکے ہیں۔آ پ کا بیانیہ ، آپ کی رائے یکسر تبدیل ہو جاتی ہے ۔ خوشنما الفاظ و اصطلاحات کے لبادے اوڑ ھ لیتی ہے ، اسکے اثرات آپ کے ماتحتوں یا زیر اثر افراد پر پڑتے ہیں یوں معاشرتی تبدیلی کاآغاز ہو جاتا ہے ۔آپ اپنی اصولی ، بنیاد کھو بیٹھتے ہیں ، اس سے رہنمائی لینا چھوڑ دیتے ہیں وہ آپ کو پرانی یا دقیانوسی لگنے لگتی ہے ، جدید دور ، جدیدیت کا لیبل ایسی مضبوطی سے چسپاں ہوتا ہے کہ آپ برضا و رغبت بغاوت کی جانب چلے جاتے ہیں مگر کمال یہ ہے کہ آپ کو لگتا یہی ہے کہ آپ ہی حق پر ہیں اور باقی سب ۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیسی بات کر رہا ہوں ۔ ویسے تو ہمارا موضوع سماجی میڈیا پر ہفتہ بھر کے اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے ۔اس بار کچھ عوامل، کچھ پوسٹیں پہلے ہی خطرے کی بو کے طور پر محسوس ہوئی اس لیے بڑا موضوع بننے سے پہلے ہی ’ہشیار باش‘کا نعرہ لگا رہا ہوں ۔ ممکن ہے کہ اُس موضوع کا کوئی جوابی بیانیہ کسی کے کام آجائے۔کسی بیانیے کی حل پذیری کے لیے جب سماجی میڈیا پر کوئی منصوبہ بند کوشش کی جاتی ہے تو اس میں ہدف یا پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ اس کامتبادل ،متضاد یا جوابی بیانیہ نہ آنے پائے یا گڈ مڈ ہو جائے اور ہمارا بیانیہ ، موقف ،رائے، پیغام ہی حاوی رہے ۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے تاکہ وہ لاکھوں ،کروڑوںصارفین جن کی کوئی رائے یا معلومات نہیں ہوتی وہ اس دھارے میں فوراً شامل ہو سکیں ۔
سنڈے میگزین فیملی رسالہ ہے اور اس موضوع کا تعلق فیملی یا خاندان کے نظام کر درہم برہم کرنے سے ہے، اس لیے بہت محتاط انداز سے بات کرنے کی کوشش کرونگا۔کیونکہ اس میں کرنے کا اہم ترین کام والدین ، نوجوان اور اُن سب سے ہے جو خاندان کے نظام کو ، اسلام کی بنیادوں کو شیطانی حملوں سے بچاناچاہتے ہیں یا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔یو ٹیوب کے ایک مقبول چینل کے مطابق ’ایلو میناٹی‘ کے ایجنڈے میں شامل یہ ایک اہم موضوع ہے ۔ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ کیوں ہم چھوٹے کارندوں کو ہدف بناتے ہیں ،میرے نزدیک ، بلکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارا سب سے بڑا حقیقی دشمن تو شیطان لعین ہے ، جو اپنی پوری قوت کے ساتھ انسانوں کو اپنے ساتھ جہنم کا ایندھن بنانے کے مشن میں مستقل مصروف ہے ۔کئی بار سوال ذہن میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط علیہ السلام کے انجام کا ذکر قرآن مجید میں کیوں کیا؟ عمل قوم لوط ایک بد ترین گناہ ہے جس پر وہ للہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتا رہوئے۔ اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی ﷺکی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت ِ اسلامی کے فرائض میں سے ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کوسخت سزا دی جانی چاہیے۔ حدیث میں مختلف روایات جو حضور ﷺسے مروی ہے ان میں سے کسی میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں کہ
فاعل اور مفعول دونوںکو قتل کر دو۔ نبی ﷺکے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا س لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہو سکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلائی جائے۔ اسی رائے سے حضرت ابوبکر ؓ نے اتفاق فرمایا ہے۔ (بحوالہ تفہیم القرآن ۔جلد اول)
انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدن کا قیام ، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔اس لیے نکاح، شادی کا عنوان آپ کو ہر مذہب ، معاشرے میں ملے گا ماسوائے شیطانی سوچ رکھنے والے افراد کے۔پورا یورپ یورپی ملکوں میں آباد مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ یورپ میں رہنا ہے تو ’’یورپی‘‘ بن کر رہو۔ یعنی اکثریت کی اقدار اور اطوار کو اپنائو۔ مگر وہ مسلم اور بھارت جیسے قدامت پسند معاشرے میں اکثریت کے مذہب اور اقدار کو جبر بناکر پیش کررہا ہے۔ہم جنس پرستی ایک ایسی ہی گھناؤنی شیطانی منصوبے کی شکل ہے ،جو اپنی نہاد میں اللہ سے بغاوت بلکہ قدرت سے بغاوت کا مشن لیے ہوئے ہے۔
پڑوسی ملک بھارت سے شروع کرتے ہیں، اچھابھارت کی مثال اس لیے بھی دی جاتی ہے کہ لگ بھگ25کروڑ یعنی کوئی پاکستان جتنی تعداد میں مسلمان وہاں بھی بستے ہیںاس کے علاوہ بھی کئی جغرافیائی ، معاشرتی وجوہات بھی ہیں ۔عصمت چغتائی( 1913-1991)ہندوستان میںترقی پسند ادب کے عنوان سے ایک مشہور اردو مصنفہ گزری ہیں۔ موصوفہ نے پہلی مرتبہ اپنے ناول ’لحاف‘ میں خاتون کے خاتون سے جنسی تعلق کو معاشرے کے ایک رنگ کے طور پر پیش کیا، جس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ۔اس کوشش کو بنیاد بنا کر ہم جنس پرستوں کی معاشرے میں زبردستی جگہ بنانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں۔ بھارت میںفلمی دنیاصنعت کا درجہ رکھتی ہے ، جس کے انتہائی گہرے معاشی و معاشرتی اثرات ہوتے ہیں۔حالیہ انتخابات کے تناظر میں صرف نریندر مودی کی شخصیت پر انتہائی بھاری سرمایہ کار ی کے ساتھ کئی فلمیں ، نیٹ فلکس سیریز اسی مقصد کے تحت لانچ کی گئیں۔بہر حال بتانے کا مقصدیہ تھاکہ فلم کی معاشرتی اثر پذیری معنی رکھتی ہے۔ہم جنس پرستی کے موضوع پر بھارت میں کئی فلمیں بنائی گئیں۔ ان کا مقصد بھارتی معاشرے کا اس حوالے ہاضمہ درست کرنا تھا، چنانچہ چھوٹی چھوٹی وقفہ وقفہ سے ڈوز دے کر یہ کام چلایا جاتا رہا۔ اب پچھلے سال بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے زنا بالرضا اور ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دے کر جو ایٹم بم مارا ہے ، لا محالہ اس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے ۔ اس سے قبل بھی بھارت میں اس موضوع کو فلم کے موضوع کی صورت پیش کیا گیا ، جس پر بھر پور احتجاجی رد عمل بھی آیا۔پھر آہستہ آہستہ دیگر دائروں میں اس موضوع کو بڑی اسکرین کے بعد نیچے اتارا گیا۔اسی موضوع پر 2016میں ٹی وی سیریز پھر2017اور2018میں ویب ٹی وی سیریز لانچ کی گئیں جن کا عنوان یہی شق یعنی 377تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد سمجھیں کہ لائن سی لگ گئی ۔گذشتہ دو ماہ میں بھارت نے ہم جنس پرستی کے موضوع پر دو فلمیں ریلیز کر ڈالیں۔اہم بات یہ تھی کہ مذکورہ فلم میں باپ بیٹی کا کردار کرنے والے اداکار حقیقی باپ بیٹی تھے اور سپر اسٹار کیٹیگری میں تھے ۔فروری میں جاری ہونے والی اس بڑے بجٹ کی اس فلم کی تیاری میں نامور فلم پروڈیوسر ، بڑے اداکاروں کا استعمال ’سیلیبریٹی ‘fan followingکے طریقہ ابلاغ سے کام لیا گیا۔ باوجود یہ دکھاتے ہوئے کہ اس موضوع پر لوگ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے بھونڈے ، لاچار اور انتہائی یکطرفہ دلائل کے ساتھ معاشرتی اقدار کو روندتے دکھایا گیا۔
اسی طرح اگلے ہی مہینے مارچ میں 377 کی شق کے عنوان پر بھارتی سپریم کورٹ کی عدالتی کارروائی کو فلماتے ہوئے ایک بار پھراس موضوع کے حق میں رائے عامہ ہموار کی گئی ۔ دونوں فلموں میں مسلم کردار وں کو شامل کر کے اس موضوع کو مذہب سے کاٹنے کی کوشش کی گئی ۔اہم ترین بات یہ ہے کہ تینوں بڑے مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں ہم جنس پرستی گناہِ عظیم قرار دی گئی ہے۔ خود ہندو ازم میں اس کی گنجائش نہیں اس کا ثبوت وہ احتجاجی مظاہرے اور وہ ناگواری ہے جو خود فلم میں دکھائی جاتی رہی۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جدیدیت کی اس خطرناک پیش قدمی کا تعلق صرف ہندوستان سے نہیں۔ آج جو کچھ ہندوستان میں ہورہا ہے پانچ سات یا دس سال بعد پاکستان یا کسی اور مسلم ملک میں بھی ہوسکتا ہے۔
آپ سافٹ بیانیہ تو ملاحظہ کریں جو اس ذریعہ سے مستقل پیش کیا گیا اُس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اگر آپ کا پیارا بیٹا یا بیٹی ایسی کیفیت کا شکار ہوجائے تو اس کو بھی جینے کا حق ہے وہ بھی انسان ہے لہٰذا اُس کی پسند نا پسند کا خیال رکھتے ہوئے اُسے اپنی پسند کی ہرخواہش پوری کرنے کا حق ملنا چاہیے ۔یہ سب بیماری، قابل علاج بات نہیں، غیر فطری نہیں ایک عام سی بات ہے ، انسان ہونے کے ناطے آپ اُس کی خواہشات کا گلا نہیں گھونٹ سکتے ۔آپ کا ایک بچہ چاکلیٹ پسند کرتا ہے ایک اسٹرابیری ایک اورنج تو آپ سب کو امرود کھانے پر مجبور نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کوئی بیماری ہے ۔
اب گویا جوابی بیانیہ یہ ہے کہ بیماری تو آپ اسے خود نہیں کہہ رہے تو بات ہے دل کی کہ کسی کا دل جو کرنے کو چاہ رہا ہے وہ کر لے تو اگر میرا دل کسی کو قتل کرنے کو چاہے تو میں قتل بھی کردوں ۔اگر میرا دل چاہے کہ مجھے دودھ نہیں شراب پینی ہے تو کیوں شراب پر پابندی کے قانون بنائے گئے ہیں ۔ انسان ہونے کے ناطے میرا اور سامنے والے کا دل جوا کھیلنے کو چاہ رہا ہے تو ہمیں کیوں پولیس گرفتار کرلیتی ہے ۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ منشیات بیچوں دوسرے کا دل چاہ رہا ہے وہ استعمال کرے مجھ سے خریدے تو اس میں کیسا قانون ، کیسی سزا۔ انسان ہونے کے ناطے میرا بھی دل ہے ،مجھے بھی دل کی مرضی چلانے کی رعایت ملنی چاہیے ۔کوئی آزادی بے لگام نہیں ہوتی۔ کوئی آزادی فطرت کے خلاف نہیں پنپ سکتی۔ شیطان کا بنیادی حربہ یہی ہے کہ وہ بغاوت کی جانب آمادہ کراتا ہے۔ آپ اس قرآنی آیت ( سورۃ البقرۃ 166-167) کے ترجمے کو کم از کم دو بار غور سے پڑھیں جن کو میں ترتیب سے بیان کر رہا ہوں۔لوگو ۔ زمین میں جو حلال و پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤاورشیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ تمہیں بدی و فحاشی کا حکم دیتا ہے ۔۔۔‘‘ یہ حکم دینا ۔۔ بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ۔یہ سب کیا ہے ؟؟ بات سمجھ آئی ؟؟بطور مسلمان ہمیں کلیئر ہونا چاہیے کہ ہم اللہ کے غلام ہیں ، نائب بھی ہیں تو نائب کوآزادی صرف اتنی ہی ہے جتنی ہمیں ہمارے مالک نے عطا کی ہے ۔ اس کے برخلاف جدیدیت ہر قسم کی آزادی کا لالچ دے کر دلدل میں اتارتی ہے ۔
مولانا مودودی علیہ رحمہ نے تفہیم القرآن میں کئی مواقع پر معاشرتی حسن انتظام کو قائم کرنے کے تناظر میں مختلف آیات کی تفہیم بیان کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر فطری معاملات پر بات نہیں کرتا۔اس تناظر میں مولانا فرماتے ہیں کہ ،’’ قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون و اخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور اْنہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پر پیش آتے ہیں۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں، تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلامِ شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد ِ نبوّت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سْورہ نساء کی آیات میں اس کا حکم موجود ہے۔‘‘
اب سنیں اس معاملہ میں اسلام، مسلمان والا نیا موڑ کہاں سے آیا۔ برونائی دارالسلام میں سلطان نے اسلامی سزاؤں کے نفاذ کا اعلان کیا جس میں شریعت کے مطابق ’ہم جنس پرستی کی سزا موت سنگساری)مقرر کی گئی ہے ۔‘ اس پر پورے مغرب ، مغربی میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے ۔برونائی نے 1984میں انگریزی سامراج سے آزادی پائی ، پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے ذکائر سے مالا مال ایک مسلمان ملک ہے جہاں بادشاہت کا نظام جاری ہے ، کوئی پانچ لاکھ کے قریب کی آبادی بتائی جاتی ہے ، ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے ۔اب ذرا عالمی معیار کے بڑے بڑے اخبارات کی چند مستقل سرخیاں دیکھیں :
Brunei’s Royal Barbarity and Hypocrisy، نیو یارک ٹائمز، 9اپریل2019
Police cancel event at Brunei-owned hotel over anti-LGBT laws, ، دی گارجین10اپریل
Stoning Gay People? The Sultan of Brunei Doesn’t Understand Modern Islam، The Ottoman Empire was more liberal.
By Mustafa Akyolنیو یارک ٹائمز
‘It’s dangerous to go out now’: young, gay and scared in Bruneiدی گارجین6 اپریل
Brunei’s Royal Barbarity and Hypocrisy، نیو یارک ٹائمز ۔ اداریہ ۔۹ اپریل
اب تصور کریں سوشل میڈیا پر کیا کچھ چل ر ہاہوگا جس کے لیے میرے پاس اب صفحات ہی نہیں بچے ۔ہاں بو مجھے پہلے ہی آ گئی تھی اس لیے بتانا ضروری سمجھا ۔یہ تو ایک ہی رُخ ہے ، اب ذرا مضمون کی ٹائٹل تصویر کو دیکھیں ، موصوفہ حفصہ قریشی برطانیہ میں ہم جنس پرستی کی اہم نمائندہ لیڈر ہیں ۔ان کے ٹی وی انٹرویوکا ایک اسکرین شاٹ ہے۔اس حلیہ میں خاتون قومی ٹی وی پر بیٹھ کر اس موضوع پر یک طرفہ ابلاغ کر کے جو کام انجام دے رہی ہیں وہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ دینی جماعتوں ، دینی طبقات ، یاوہ تمام لوگ جنہیں اس زہر کے تدارک ، اس کے خاتمے اور اس شیطانی عمل کے خلاف صف آراء ہونا چاہیے جو بیک وقت ہماری نسلوں ، ہمارے خاندانوں ، ہماری اقدار، دین، تمدن، تہذیب سب کچھ لپیٹ دے گا سب کہیں دبکے ہوئے ہیں یا اپنے دیگر چکروں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ میری ایک ایسے ہی اہم رہنما سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ ’ یہ سب معمولی باتیں ہیں ، ایک بار اسلامی نظام آ گیا تو ان سب کولپیٹ دیں گے ۔‘ دعا تو میری بھی یہی ہے کہ اللہ اپنے دین کو کسی بھی شکل میں غالب کرے مگراس بات کو 19سال ہو گئے ہیں ۔

حصہ