دل ہی تو ہے

1334

زاہد عباس
پچھلے دنوں ہمارے بہت ہی پیارے ساتھی، جسارت سنڈے میگزین میں مستقل کالم ’’روشنی‘‘ کے مضمون نگار سید مہرالدین افضل کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اطلاع ملتے ہی میں اُن سے ملنے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جا پہنچا، جہاں وہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے، یعنی اعصابی طور پر خاصے مضبوط دکھائی دے رہے تھے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے علاج کے سلسلے میں کیے جانے والے مختلف ٹیسٹوں، اسپتال کے عملے اور ڈاکٹروں کے رویّے سے بھی وہ مطمئن تھے۔ میں خاصی دیر اُن کے پاس موجود رہا۔ اسپتال میں داخل ہونے کے باوجود مہرالدین اپنی عادت کے مطابق ہر آنے والے کی مہمان نوازی میں مصروف رہے۔ میں ابھی ان کی صحت کے بارے میں پوچھ ہی رہا تھا کہ برابر والے بیڈ پر لیٹے شخص نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’ارے یہ دل کی بیماری بھی کوئی مرض ہے! اس کا علاج تو میں چٹکی بجاتے ہی کردوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں تمہارے دل کی شریانیں بند ہوچکی ہیں۔ سیدھا سیدھا یہ نہیں کہتے کہ دل کی نسوں میں مسئلہ ہے۔ اس کو بھی نیا نام دے کر لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔ بھائی، مریض ڈرے گا تو ہی ڈاکٹر کا میٹر چلے گا، اب مجھے کہہ رہے ہیں تمہارا دل 50 فیصد سے بھی کم کام کررہا ہے، یہ آہستہ آہستہ مزید کمزور ہوتا جائے گا۔ بھلا بتاؤ یہ بھی کوئی بات ہوئی! اسپتال میں نوکری کرنے سے اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے ہیں! یہ نہیں کھاؤ، وہ نہیں کھاؤ، چٹپٹی چیزوں کے قریب مت جاؤ، چکنائی زہر ہے، بازاری کھانے سے پرہیز کرو، وہ انتہائی خطرناک ہے، کیا توپ ہے جو چل جائے گی! بس جو منہ میں آتا ہے بولے چلے جاتے ہیں۔‘‘
اُس مریض کی اس حرکت کی وجہ سے، یعنی درمیان میں لقمہ دینے سے مہرالدین افضل کی طبیعت پوچھنا تو ایک طرف، میں اس کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا۔ میں نے کہا ’’ڈاکٹرجوبھی کہہ رہے ہیں وہ تمہارے بھلے کے لیے ہی ہے۔ ظاہر ہے طبیعت خراب ہے، اس صورت میں پرہیز کرنا لازمی ہے۔ تمہاری کیفیت اچھی نہیں ہے اسی لیے تو تم اسپتال میں داخل ہو، ورنہ یہاں تمہارا کیا کام؟‘‘
’’دو سال پہلے میرا بائی پاس ہوا تھا، تب سے میں یہاں آتا جاتا ہوں۔ جب تکلیف ہوئی تو انہوں نے سینہ کاٹ کر علاج کردیا۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، سوال یہ ہے کہ اب کھانے پینے سے کیوں روکتے ہیں؟ بھائی، انسان کھائے پیے گا نہیں تو زندہ کیسے رہے گا!‘‘
اُس کی ان فضول باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ میں اس سے تفریح لیتا رہوں۔ اسی خیال سے میں نے اس سے پوچھا ’’بھائی صاحب، اگر ڈاکٹر یہ نہ کریں تو پھرکیا کریں؟‘‘
وہ بولا ’’کیا کریں! بھائی مجھے کھانے پینے کی اجازت دے دیں، پھر دیکھنا…‘‘
میں نے پوچھا ’’پھر دیکھنا! کیا مطلب؟‘‘
’’میرے کہنے کا مطلب ہے کہ مجھے کہیں سے ایک کلو دیسی گھی، ایک نمبر اصلی گھی مل جائے تو یہ دل کے پٹھے وٹھے سب ٹھیک ہوجائیں۔‘‘
میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟ کیا اپنے دل پر گھی سے مالش کرو گے؟‘‘
’’ارے نہیں بھائی، دیسی گھی کے بڑے فائدے ہیں، پورا ایک کلو گھی پی جاؤں گا جس سے دل کے پٹھوں کو توانائی ملے گی، اور جو خشکی کی وجہ سے بند ہورہے ہیں، تَری ملتے ہی سب کھل جائیں گے، پھر کون سی بیماری، کہاں کی بیماری! ایک ہفتے یہی عمل کرنے سے دل دوبارہ سے طاقتور ہوجائے گا۔ بھائی میاں، یہ سب کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پہلے خوراکیں اچھی تھیں، ہر چیز تازہ ملا کرتی تھی اور بناسپتی گھی نام کی کوئی چیز نہ تھی، اس لیے بیماریاں بھی نہیں تھیں۔ اب ہر چیز دو نمبر ہے، یہی وجہ ہے کہ بیماریاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔‘‘
کارڈیو وارڈ کے بیڈ پر لیٹے دل کے مریض کے منہ سے نکلتے ان جملوں کو سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے ازراہِ ہمدردی اُس سے کہا ’’کچھ خیال کریں، یہ جو کچھ بھی آپ نے کہا ہے آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں۔ ایسی کوئی بھی حرکت آپ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔‘‘
’’ارے کوئی نقصان نہیں ہوتا، ہم اصلی مال کھانے والے لوگ ہیں، ہمارے گھر میں تین بھینسیں ہیں، تازہ دودھ پیتے ہیں، دہی وغیرہ گھر میں ہی بناتے ہیں، دیسی گھی بھی استعمال کرتے ہیں۔ اصلی مال کھانے سے کوئی بیمار نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر کہتے تھے میرے والد کو شوگر ہے، میٹھا سختی سے منع تھا۔ ہمارے والد نے پھر بھی میٹھا نہیں چھوڑا، چلتے پھرتے پانچ کلو گڑ کھا جاتے تھے۔ انہیں کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔ جب وقت آیا تب ہی انتقال ہوا۔ جب ہمارا وقت آجائے گا تو ہم بھی چل دیں گے۔‘‘
اس کی باتوں میں سچ کم اور جھوٹ زیادہ تھا، جو منہ میں آئے ہانکے جارہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے دیسی گھی ڈھونڈنے والا اب اپنی ذاتی بھینسوں کا خالص دودھ، دہی اور گھر کا ایک نمبر دیسی گھی استعمال کرنے کی باتیں کررہا تھا۔ وہ شیخ چلی کی طرح بولے ہی جارہا تھا، اپنی کہانی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے بولا ’’میرا پوتا دودھ کا بڑا گلاس غٹاغٹ پی جاتا ہے، ابھی پانچ سال کا ہے لیکن دس سال کی عمر کا لگتا ہے۔ ہم نے اصلی مال کھایا ہے، اسی لیے ہماری اولادیں بھی کھارہی ہیں۔ ہم تو دودھ دوہتے وقت بھی چار سے پانچ کلو پی جاتے ہیں۔‘‘
اُس کی گپیں جاری تھیں کہ ایمرجنسی میں تعینات عملے نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’ڈاکٹر صاحب آرہے ہیں، براہ مہربانی ایمرجنسی سے باہر چلے جائیں‘‘ مجھے وارڈ سے باہر نکال دیا، جس کی وجہ سے میں اُس مریض کی جانب سے ’’توانا صحت‘‘ پر دیے جانے والے لیکچر سے مزید مستفید نہ ہوسکا۔
ہمارے ملک میں بیماریوں سے بچاؤ اور مختلف امراض میں مبتلا افراد کو ان کی صحت سے متعلق آگاہی دینے کا فقدان ہے، یہی لاعلمی مرض کے مزید بڑھنے کا سبب ہے۔ کسی بھی مرض کے علاج کے لیے دوا کے ساتھ ساتھ پرہیز اور احتیاط بھی ضروری ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دل کی مختلف بیماریوں کے باعث پاکستان میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد سالانہ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، جب کہ ایک تہائی بچّوں کو مستقبل میں امراضِ قلب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امراضِ قلب کی بنیادی علامات میں سینے، خاص طور پر بازو میں درد، سانس پھولنا، سَر چکرانا، دل کی دھڑکنوں کا تیز ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا اگر کسی فرد میں یہ علامات ظاہر ہوں، تو فوری تشخیص ناگزیر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین میں دل کے مرض کی ابتدا کمر اور کندھوں کے درد سے ہوتی ہے، جب کہ مَردوں میں سینے سے درد شروع ہوکر بائیں بازو تک پھیل جاتا ہے۔نیز، خواتین کی نسبت مَردوں میں اس درد کی شدت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اگر بغیر کسی وجہ کے چکر آئیں، متلی ہو، یا جسمانی مشقت کے بعد تھکن کا احساس ہو، تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ آپ کا دل صحیح طرح سے اپنا کام انجام نہیں دے رہا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ صحت مند دل کا تعلق، خواہ وہ مَرد ہو یا عورت، عمر سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر عمر کی مناسبت سے دل کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں متوازن غذا کا استعمال، باقاعدگی سے ہلکی پھلکی ورزش اور معمولاتِ زندگی ہموار طریقے سے انجام دینے چاہئیں۔ دل کی اچھی صحت کے لیے سونے، جاگنے کے اوقات کی پابندی کے علاوہ مثبت سوچ رکھنا بھی ضروری ہے۔
عارضۂ قلب کی وجوہ میں (جنہیں ’’رِسک فیکٹرز‘‘ بھی کہتے ہیں) بلند فشارِ خون، ذیابیطس، کولیسٹرول کی زیادتی، سگریٹ نوشی، ورزش کی کمی، ذہنی و اعصابی دباؤ وغیرہ شامل ہیں۔ موجودہ دَور میں نامناسب طرزِ زندگی کے باعث ایک بڑی تعداد ذیابیطس، بلڈ پریشر اور ذہنی و اعصابی دباؤ میں مبتلا ہورہی ہے، ان میں خواتین اور مرد دونوں ہی شامل ہیں۔ اگرچہ دل کے امراض میں بالعموم مَردوں کی تعداد خواتین کی نسبت زیادہ ہے، لیکن اب یہ شرح خواتین میں بھی کم نہیں رہی۔ دل کے امراض ضروری نہیں کہ صرف بڑھاپے ہی میں ظاہر ہوں، جوان اور بچّے بھی ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
امراضِ قلب کو دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جا تاہے۔ جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا خصوصاً زیادہ آبادی والے ممالک، بشمول پاکستان میں اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں دل کے 40 فی صد مریض آگہی کے فقدان اور علاج معالجے کی مناسب سہولتیں فراہم نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں، جب کہ سالانہ تقریباً دو لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عوارضِ قلب پاکستان میں وبائی صورت اختیار کرچکے ہیں، اس کے باوجود علاج معالجے کے ضمن میں عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
موجودہ دَور میں دل کی بیماریوں کی اہم وجہ ہمارے طرزِِ زندگی میں تبدیلی بھی ہے۔ پہلے گھر کے تمام امور خود انجام دیئے جاتے تھے،کم فاصلے پر واقع تعلیمی اداروں اور دفاتر بھی پیدل جایا جاتا تھا، گوشت کی نسبت سبزیاں زیادہ کھائی جاتی تھیں، کولڈڈرنکس کا استعمال بھی کم ہی تھا۔ لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یاد رکھیے بسیار خوری، مرغن غذائیں اور خاص طور پر کولڈ ڈرنکس شریانوں کو شدید نقصان سے دوچار کرتی ہیں۔ کولڈ ڈرنک کی ایک بوتل میں چینی کے سات سے زائد چمچ ہوتے ہیں، اور چینی تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ عوارضِ قلب سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا، جس کے لیے سب سے پہلے تو مرغن غذائوں سے پرہیز کے ساتھ باقاعدہ ورزش کو زندگی کا معمول بنایا جائے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سادہ طرز ِزندگی، باقاعدہ ورزش اور قناعت پسندی کی عادت دل کی بیماریوں، خصوصاً ہارٹ اٹیک سے محفوظ رکھنے میں معاون ہیں۔ نیز، روزانہ ورزش کرنے والوں میں ڈپریشن کی شرح بھی کم پائی جاتی ہے۔ اسی طرح حاملہ خواتین کو غیر ضروری ادویہ کے استعمال اور آلودہ ماحول سے دُور رکھ کر بچّوں کو دل کے پیدائشی نقائص سے بہت حد تک بچایا جاسکتا ہے۔ پھر ماحولیاتی آلودگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس وجہ سے بھی دل کے مریضوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
اچھی غذا دل کی صحت کے لیے ناگزیر ہے۔ دل صرف اسی صورت میں مؤثر طور پر کام کرسکتا ہے جب اسے صحت مند غذا ملتی رہے۔ اس لیے اپنے دل کو پوری قوت کے ساتھ خون پمپ کرنے کے لیے وہ غذائیت دیں جس کی اسے ضرورت ہے۔ ذیل میں دل کی صحت کے لیے دس بہترین غذائیں درج ہیں جو آپ کے دل کوصحت مند رکھنے میں معاون ثابت ہوں گی:
پالک میں موجود فولاد دل کی صحت کے لیے بہترین ہے۔ اس لیے روزانہ پالک کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ پالک میں پائے جانے والے غذائی اجزاء مجموعی صحت کے ساتھ ساتھ دل کے لیے بھی نہایت مفید ہیں۔
بادام،کاجو اور اخروٹ وغیرہ میں اومیگاتھری فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے جو دل کی صحت کے لیے نفید ثابت ہوتا ہے۔ اپنی روزمرہ خوراک میں خشک میوہ جات کا استعمال ضروررکھیں تاکہ ان سے ملنے والی توانائی آپ کے تمام جسمانی اعضاء کے ساتھ آپ کے دل کو بھی متحرک رکھے۔
مچھلی کا باقاعدہ استعمال دل کی صحت کے لیے بہت اچھا ہے۔ اس میں موجود فیٹی ایسڈ دل کو صحت مند رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ ہفتے میں صرف ایک سے دوبار مچھلی کا استعمال آپ کو دل کی بیماریوں کے خطرات سے محفوظ رکھتا ہے۔
تخم بلنگا اومیگاتھری فیٹی ایسڈ پرمشتمل ہوتا ہے جو خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ کوکم کرکے کولیسٹرول گھٹاتا ہے۔ ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن کو نارمل رکھنے میں مددگار رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس، پروٹین، منرل، میگنیشیم ،کیلشیم، آئرن اور حل پذیر فائبر دل کی صحت کے لیے مفید ہیں۔
سبز چائے کا باقاعدہ استعمال آپ کو دل کی بیماری سے بچا سکتا ہے۔ مطالعہ کے مطابق اُن لوگوں میں جوسبز چائے کا باقاعدہ استعمال کرتے ہیں، دل کی بیماری اور فالج کا خطرہ کم پایا جاتا ہے۔
ڈارک چاکلیٹ انفلیمیشن کو کم اور خون کی گردش کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ ڈارک چاکلیٹ کے استعمال سے آپ دل کے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈارک چاکلیٹ کی دوبائٹ آئسکریم کے ایک پیالے سے بہتر ہے۔
اسٹرابیری ہو یا بلیو بیری، یا پھرکسی بھی قسم کی بیریز… یہ تمام ہی دل کے لیے نہایت مفید ہیں۔
زیادہ کیلوریز کے باعث آلو کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آلو پوٹاشیم، فائبر اورکیلشیم سے لبریز ہوتا ہے۔ اسی لیے بلڈ پریشر کوکنٹرول میں رکھ کر دل کی بیماریوں کے خطرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ آلوکو ہمیشہ چھلکے کے ساتھ پکائیں کیونکہ اس میں اینٹی انفلیمنٹری اور اینٹی آکسیڈنٹس خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
بینز ایک سپر فوڈ ہے جو غذائیت سے مالامال ہے۔ اس میں حل پذیر فائبر پایا جاتا ہے جو ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح کو کم رکھتا ہے۔ نہ تو یہ بہت زیادہ مہنگا ہے اورنہ ہی اسے پکانا اور کھانا مشکل۔ کیونکہ غذائیت کے ساتھ ساتھ یہ ذائقے میں بھی اعلیٰ ہے۔ لہٰذا بھرپورصحت اوردل کی حفاظت کے لیے آپ اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔
جب دل کی شریانوں کے مرض کا معاملہ آتا ہے تو ماہرین کو وٹامن سی کی کم سطح اور اسٹروک کے درمیان ایک تعلق نظر آتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن مردوں میں وٹامن سی کی سطح کم تھی انھیں اسٹروک کا خطرہ زیادہ تھا۔ انسانی جسم وٹامن سی کی نہ تو تالیف کرتا ہے، نہ خود بناسکتا ہے، اسے ہم صرف غذاؤں یا سپلیمنٹس کے ذریعے لے سکتے ہیں۔ مشاہدے کے مطابق ایسے افراد جو وٹامن سی باقاعدگی سے لیتے ہیں، دل کی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

حصہ