روح کی زندگی

1095

سیدہ عنبرین عالم
احمد صاحب 55 برس کے ہوچکے تھے، متعدد بیماریاں ہوچکی تھیں۔ ان کی بیگم 40 سالہ رضیہ صاحبہ بھی شوگر کی مریض تھیں۔ بچے ابھی چھوٹے تھے، بڑی بچی 18 سال کی تھی اور چھوٹے دو بیٹے جڑواں تھے جو 12 سال کے ہوگئے تھے۔ گو کہ روپے پیسے کی فراوانی تھی اور کوئی قابلِ ذکر پریشانی نہیں تھی، مگر احمد صاحب دل کے سکون سے محروم تھے، ہر وقت ایک نامعلوم سی بے چینی رہتی تھی، دوستوں میں بھی نہ بیٹھ پاتے، گھر آتے تو بچوں سے ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے۔ بیگم نے خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی، ایک سے ایک پکوان، کپڑے، جوتے ہمیشہ تیار… بس جو حکم احمد صاحب کرتے، رضیہ بیگم فوراً پورا کرتیں، اس پر بھی بے چاری ڈانٹ کھاتی رہتیں، مگر شکوہ ندارد۔
مہینے کے خرچے کے لیے احمد صاحب نے چار لاکھ روپے رضیہ بیگم کے سپرد کیے ’’بیگم کچھ بچا بھی لیا کرو، پتا نہیں کب تک میری زندگی ہے، آگے کام آئیں گے‘‘ انہوں نے کہا۔
رضیہ بیگم ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئیں۔ ’’آپ کیوں اس قدر اداس رہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’کیا بتائوں، اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر ایک خوف ہے، بے سکونی ہے، اسی میں تم سے بھی الٹا سیدھا بول جاتا ہوں۔ معاف کردینا بیگم، اللہ کے ہاں میرا گریبان مت پکڑنا، میں پہلے ہی بہت گناہ گار ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں مگر بے سود‘‘۔ احمد صاحب نے کہا۔
رضیہ بیگم نے غور سے احمد صاحب کی بات سنی۔ ’’میں کل اخبار میں جاپان، امریکا اور یورپ کے لوگوں کا حال بھی پڑھ رہی تھی، ماشاء اللہ ہر سہولت، دولت، خوش حالی سب کچھ ہے اُن کے پاس، مگر دل میں وحشت بھری ہوئی۔ اور آخرکار یہ لوگ خودکشی کرلیتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’یعنی جو کہا جاتا ہے کہ اگر غریبوں کو روزگار، رہائش اور صحت وغیرہ کی سہولیات فراہم کردی جائیں تو جرائم اور نفسیاتی امراض ختم ہوجائیں گے، یہ غلط کہا جاتا ہے؟‘‘ احمد صاحب بولے۔
’’شاید تفریح کی جتنی ضرورت اور خیالوں کو اِدھر اُدھر کرنے کی حاجت امیر لوگوں کو ہوتی ہے، غریبوں کو نہیں ہوتی۔ ان کو تو پکوڑے بھی مل جائیں تو خوش… ہم فرانس اور اٹلی کے مہنگے ریسٹورنٹس میں بھی کھا کر اداس اور خوفزدہ‘‘۔ رضیہ بیگم نے خیال ظاہر کیا۔
’’اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، کچھ اندازہ ہے آپ کو بیگم؟‘‘ احمد صاحب نے سوال کیا۔
رضیہ بیگم کچھ دیر چپ رہیں، وہ اپنے عزیز شوہر کی پریشانی کا حل پیش کرنا چاہتی تھیں۔ ’’میں نے کل ٹی وی پر ایک حدیث سنی، مجھے آپ کی پریشانی کا حل اس حدیث میں نظر آتا ہے، مروی ہے کہ جو شخص اللہ رب العزت کو یاد کرے اور جو نہ یاد کرے، ان دونوں کی حیثیت کا فرق اللہ کے نزدیک زندہ اور مُردہ کا ہے، یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
احمد صاحب چند لمحے حدیث کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے، پھر کہا ’’سمجھ نہیں آیا مجھے‘‘۔
رضیہ بیگم مسکرائیں اور بولیں ’’سب سے پہلے آپ کو انسان کی اصل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
’’انسان کیا ہے؟ گوشت پوست کا ایک جسم۔ جو کھاتا ہے، سوتا ہے، روتا ہے، ہنستا ہے، پھر ایک دن مر کر زمین میں دفن ہوجائے گا، بس چند برس کی کہانی ہے‘‘۔ احمد صاحب نے کہا۔
’’یہی آپ کی پریشانی کی وجہ ہے، آپ کے پاس سب کچھ ہے مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ سب ہمیشہ آپ کے پاس نہیں رہے گا، آپ سب کچھ چھوڑ کر قبر میں چلے جائیں گے، یہ آپ کی زندگی کا اختتام ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو خالی ہاتھ جانا ہے، اس لیے جس وقت سب چیزیں آپ کے پاس ہیں، اُس وقت بھی آپ ان سے خوش نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ اس کیفیت سے باہر آجائیں اور آپ کو معلوم ہو کہ آپ مریں گے نہیں بلکہ زندگی کی دوسری شکل میں منتقل ہوجائیں گے اور خوش حالی ہمیشہ رہے گی تو آپ اداس نہیں ہوں گے‘‘۔ رضیہ بیگم نے بتایا۔
’’مگر حقیقت تو یہی ہے، کون جانے مرنے کے بعد کس کا کیا حشر ہوگا‘‘۔ احمد صاحب بولے۔
رضیہ بیگم نے انکار میں سر ہلایا ’’آپ کو غلط فہمی یہ ہے کہ انسان کی اصل اس کا جسم ہے، جو فائدہ نقصان ہے جسم کا ہے، اور جسم قبر میں جاکر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ جب کہ انسان کی اصل اس کی روح ہے۔ ہمارا ہر اچھا عمل روح کو کچھ اور توانا کردیتا ہے، اور ہمارا ہر برا عمل روح کو کچھ اور بدحال کردیتا ہے۔ جسمانی نفع و نقصان کا روح پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن ہماری سوچ، ہمارے عقیدے اور ہمارا کردار روح کی بناوٹ اور توانائی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جسم مر جاتا ہے، روح نہیں مرتی۔ جسم قبر میں جاتا ہے، روح مکمل اصل حالت میں آسمان پر جاتی ہے، صرف طرزِ زندگی بدل جاتا ہے۔ اور یہ طرزِ زندگی نامعلوم حقیقت نہیں ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا آخرت میں کیا حشر ہونے والا ہے۔ اللہ ناانصافی تو کرے گا نہیں، اور ہر ایک کو اپنے اعمال کا علم تو ہوتا ہی ہے‘‘۔ انہوں نے احمد صاحب کو سمجھایا۔
’’اگر ایک آدمی اللہ کو یاد کرتا رہے تو روح زندہ، نہ کرے تو روح مُردہ، اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ احمد صاحب نے پوچھا۔
رضیہ بیگم گہری سوچ میں پڑ گئیں۔ ’’آپ کو روح کی اصل بھی سمجھنی پڑے گی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کائنات کی ہر چیز کس نے بنائی؟‘‘ انہوں نے احمد صاحب سے سوال کیا۔
’’ظاہر ہے اللہ نے بنائی۔ آسمان، زمین، درخت، انسان، جن، جانور اللہ نے بنائے‘‘۔ احمد صاحب بولے۔
’’تو پھر ایسا کیوں ہے کہ کچھ چیزیں بے جان ہیں اور کچھ جاندار؟‘ُ رضیہ بیگم نے سوال کیا۔
’’بے جان کوئی چیز نہیں ہے، ہر ایک میں روح ڈالی گئی ہے، بس ہر ایک کا کام مختلف ہے۔ آج جو بستر، تکیہ، دیواریں ہمیں بے جان محسوس ہوتے ہیں، یہی قیامت کے روز ہمارے خلاف گواہ بنے ہوئے ہوںگے۔ اللہ نے ہر چیز کو بنایا، اور یہ اللہ ہی کی انرجی ہے جسے روح کہتے ہیں، یہ انرجی اللہ رب العزت نے جس چیز میں چاہی، جس مقدار میں ڈالی۔ روح اللہ ہی کا عنصر ہے، جس نے کائنات کی ہر شے کو متحرک اور باشعور کررکھا ہے، جس دن اللہ چاہے جس چیز سے چاہے یہ توانائی واپس لے لے، یہ ہے روح کی اصل‘‘،احمد صاحب نے جواب دیا۔
’’بہت عمدہ…‘‘ رضیہ بیگم مسکرا دیں۔ ’’آپ نے دیکھا ہوگا کہ پھل اور سبزی جب پیدا کیے جاتے ہیں تو انہیں روز پانی کی وافر مقدار سے سیراب کیا جاتا ہے۔ جب یہی پھل اور سبزی تیار ہوکر بازار میں بکنے کے لیے آتے ہیں تو پھل فروش ان پر بار بار پانی کا چھڑکائو کرتا ہے، بھلا کیوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’کیوں کہ سبزی پانی ہی سے اُگائی جاتی ہے، پانی ہی سبزی کا اصل ہے۔ ہر سبزی میں 70 فیصد سے زیادہ پانی پایا جاتا ہے، اس کو بازار میں آنے کے بعد بھی اپنی تازگی برقرار رکھنے کے لیے پانی کے ہی چھڑکائو کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ احمد صاحب نے تفصیل سے بات کی۔
’’بالکل درست۔ اسی طرح روح کا اصل اللہ رب العزت کی ذاتِ پاک ہے، اور روح کو توانائی اللہ پاک کی یاد سے ہی مل سکتی ہے۔ جو روح میرے رب کی یاد سے تر رہے گی، وہ مزید سے مزید طاقتور ہوتی جائے گی، یعنی زندگی و تازگی اس میں حلول کرتی جائے گی، اور جو روح یادِ الٰہی سے محروم ہو، وہ سوکھ کر باسی ہوتی جائے گی اور زندگی سے محروم ہوجائے گی‘‘۔ رضیہ بیگم نے سمجھایا۔
’’صحیح!‘‘ احمد صاحب نے سمجھ کر اپنے سر کو جنبش دی۔ ’’ایسی سوکھی بے کار روح جس انسان کے جسم میں ہوگی وہ زندہ تو رہے گا، مگر یہ زندگی صرف طبعی زندگی ہے، اصل روحانی آسودگی سے محروم، روح کی زندگی و بیداری سے محروم۔ اس لیے یادِ الٰہی سے محروم انسان کو مُردہ سے تشبیہ دی گئی، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسے انسان پر پژمردگی چھائی رہتی ہے… مگر رضیہ بیگم! میں تو اللہ کا ذکر بھی کرتا ہوں اور عبادات کا اہتمام بھی کثرت سے کرتا ہوں‘‘۔ انہوں نے فرمایا۔
’’احمد صاحب! ابلیس نے بھی جنت کے چپے چپے پر سجدے کیے تھے، مگر وہ عبادت نہ ہی قبول کی گئی اور نہ ہی ابلیس کو روح کی پاکی عطا کرسکی، ابلیس شیطان بن گیا اور اُس کی عبادت اُس کے منہ پر دے ماری گئی۔ وہ جو نیابت کا امیدوار تھا، بری طرح دھتکارا گیا‘‘۔ رضیہ بیگم نے گرہ کھول دی۔
احمد صاحب کے چہرے پر خوف کی لہر آکر گزر گئی ’’کیا تم مجھے شیطان سمجھتی ہو؟‘‘ وہ لرزتے ہوئے بولے۔
’’ہرگز نہیں، آپ کی عبادت میرے رب کی خاطر ہی تھی، آپ تسلی رکھیے‘‘۔ رضیہ بیگم نے شوہر کا ہاتھ تھاما۔
’’پھر کیا کہنا چاہتی ہیں آپ؟ خدارا مجھے جہنم میں جانے سے بچا لیجیے‘‘۔ احمد صاحب اب بھی خوف زدہ تھے۔
’’یہاں بندگی اور عاشقی کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نیابت صرف عاشقوں کو ملتی ہے، ہاں بندگی سے جنت ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ جن اور فرشتے جنہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرلیا تھا، وہ جنت سے نہیں نکالے گئے۔ انہوں نے حکم مانا تو انہیں جنت مل گئی، مگر نیابت کا مقام انہیں نہیں ملا۔ نیابت کا مقام ابن آدم کو بھی صرف اُس وقت ملے گا جب وہ اپنی عاشقی، اپنی دیوانگی، اپنی عاجزی کو ثابت کرے گا، جو انسان ایسا نہیں کرسکیں گے انہیں نیابت تو درکنار، جنت بھی نہیں ملے گی۔ یادِ الٰہی کا اصل مطلب عشقِ الٰہی ہے‘‘۔ رضیہ بیگم نے اصل بات سمجھا دی۔
احمد صاحب اٹھے اور دو گلاس پانی لے کر آئے۔ ’’یہ عشقِ الٰہی کیا ہوتا ہے؟ تم نے کئی بار زندگی بھر عشق کرنے کا درس ضرور دیا، مگر بتاتی نہیں ہو کہ عشق ہوتا کیا ہے؟‘‘ انہوں سوال کیا۔
رضیہ بیگم ہنسنے لگیں ’’حضرت یاسرؓ کو معلوم تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، مگر انہوں نے کفر کے نظام کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا: لا الٰہ الااللہ، یعنی کسی کی نہیں مانوں گا، بس اللہ کے حکم کے مطابق جیوں گا، ورنہ جان دے دوں گا… اور انہوں نے جان دے دی، اسے کہتے ہیں عشق۔ طارق بن زیاد اسپین پر حملہ آور ہوتے ہیں اور واپس جانے کا واحد آسرا، تمام کشتیاں جلا دیتے ہیں۔ یعنی دنیا میں جہاں جہاں اللہ کا حکم قائم کرسکا، کروں گا، ورنہ میرے جینے کا کیا فائدہ! اور وہ 800 سال کے لیے اسپین میں اسلام رائج کردیتے ہیں، یہ ہے عشق۔ وہ صحابہ ؓ جو مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہیں، بڑی بڑی جائدادیں، بیوی بچے چھوڑ کر چل پڑتے ہیں۔ ہاتھ خالی اور دل میں صرف یادِ الٰہی، یہ ہے عشق۔ پیٹ پہ پتھر بندھے ہوئے، ہونٹوں پر ذکر الٰہی، یہ ہے عاشقی۔ بھوک، زخم، اپنوں کی جدائی، کوئی چیز ان کی طبیعت بوجھل نہیں کرتی، کیوں کہ ان کی روح توانا ہے۔ آپ اپنے ائرکنڈیشنڈ بیڈ روم میں مرغِ مسلّم کھا کر، لاکھوں کے فرنیچر پرپوری نیند سو کر بھی اندر سے کھوکھلے، روح کی بے تابی… کیوں کہ روح کو اس کی اصل خوراک ’’عشق‘‘ دستیاب نہیں۔ پڑھ لیں نمازیں، جتنی پڑھنی ہیں، عشق نہیں تو کچھ نہیں‘‘۔ انہوں نے راز کھولے۔
’’یہ عشق کس طرح میری روح میں پیدا ہوگا؟‘‘ احمد صاحب کی آنکھوں میں سچی طلب تھی۔
’’کسی دن کسی یتیم خانے چلے جایئے، ساتھ جو پکوان آپ کھاتے ہیں لے جایئے، ان کے ساتھ بیٹھ کر کھایئے۔ خرچا نہیں کرنا چاہتے تو یوں ہی چلے جایئے، ان سے باتیں کیجیے، ان کی خدمت کیجیے، ان کو کچھ سکھا دیجیے۔ کسی رات قرآن کا ترجمہ تنہا بیٹھ کر پڑھتے رہیے اور فجر کردیجیے، پھر دیکھیے روح کی کیسی صفائی ہوتی ہے۔ کسی بدترین دشمن کے گھر کوئی سوغات لے کر پہنچ جائیں، اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود معافی مانگیں اور صلح کرلیں، دل جگمگا نہ اٹھے تو کہیے گا۔ میرا رب فرماتا ہے کہ جب تک اپنی عزیز ترین چیز کی قربانی نہ دو، تم اللہ کو نہیں پاسکتے۔ بس اپنے نفس کے خلاف جا کر ایسے عمل کرتے جایئے جو صرف اللہ رب العزت کو راضی کرنے کے لیے ہوں۔ جب آپ کا نفس مر جائے گا تو یہیں اللہ تعالیٰ کی رہائش کے لیے آپ کے دل میں گنجائش پیدا ہوگی، یہ ہے عشق‘‘۔ رضیہ بیگم نے کہا۔
احمد صاحب غور سے رضیہ بیگم کو دیکھتے رہے ’’ہاں سمجھ گیا، جیسے کشمیری مجاہدین… نہ انہیں اپنی جان کی پروا ہے نہ گھر بار کی، نفس کو انہوں نے ختم کرلیا ہے، ان کے اندر بس ایک تڑپ باقی رہ گئی ہے، اپنی دھرتی پر اللہ رب العزت کی حکومت قائم کرنے کی۔ باقی کوئی فائدہ نقصان ان کو سمجھ نہیں آتا، جیسے سورۃ البقرہ کے شروع میں منافق کہتے ہیں کہ ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ نہیں جانتے کہ یہ بے وقوف ہی نیابت حاصل کرلیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’آپ دیکھیے گا جنت اور دوزخ کی چاہ سے آزاد صرف اپنے رب سے عشق کرنے والے یہ کشمیری، ایک دن صرف کشمیر پر ہی نہیں تمام دنیا پر اللہ کا نظام قائم کریں گے، کیوں کہ ان کی روحیں زندہ ہیں۔ ہم مُردہ روح لوگ نمازی تو بن سکتے ہیں، صلاح الدین ایوبیؒ نہیں بن سکتے۔ اس لیے ہم پر مُردگی اور پھٹکار ہے۔ میرے رسولؐ کی سنت پائنچے چڑھانا نہیں بلکہ شیطانی نظام کو للکارنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے، اور ہم ابھی تک وضو اور پردے کے اختلاف سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہماری روحیں بے فیض ہیں، اس لیے ہم تلوار نہیں پکڑ سکتے، صرف داڑھی رکھ کر سنت پوری کرلیتے ہیں‘‘۔ رضیہ بیگم دھیرے دھیرے بولتی رہیں۔
’’کیا آپ برداشت کریں گی کہ میں جہاد پر چلا جائوں؟ میں تو راضی ہوں‘‘۔ احمد صاحب بولے۔
’’کیا میرے رسولؐ نے رسالت ملتے ہی جہاد شروع کردیا تھا؟‘‘ رضیہ بیگم نے پوچھا۔
احمد صاحب سوچنے لگے۔ ’’نہیں، 13 سال نفس کو شکست دینے کی تربیت دی گئی، جب نفس اُس مقام پر پہنچ گیا کہ صلح حدیبیہ کے وقت صحابہؓ اپنے ہی مکی رشتے داروں سے ذلت آمیز صلح کے لیے راضی نہیں تھے، اور پیارے رسولؐ انہیں ان کے ہی رشتے داروں سے صلح کے لیے زبردستی راضی کررہے تھے، تو آہستہ آہستہ جہاد بالسیف کی تیاری شروع کی گئی‘‘۔ انہوں نے بتایا۔
’’اب آپ اپنی روح کی کیفیت کیسی پاتے ہیں؟‘‘ رضیہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا۔
’’تازہ اور توانا۔ ایسی روحانی گفتگو ہر گھر میں ہر روز ہو تو روح مرنے ہی نہ پائے۔ یہ عشق، تربیت کے ذریعے ہماری رگوں میں اتار دیا جائے‘‘۔ احمد صاحب مسکرا کر بولے۔

حصہ