ظفر اقبال کے تازہ شعری مجموعے کا جائزہ”تشویش”۔

2522

فیض عالم بابر
پاکستان میں جدید اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر اور میرے مرشد ظفر اقبال کا 33واں شعری مجموعہ ’’تشویش‘‘ رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی کے تحت شائع ہوگیا ہے۔مرشد ظفر اقبال جہاں ایک زود گو شاعر ہیں وہیں ایک سفاک ناقد بھی ہیں جو کسی تعلق کو خاطر میں لائے بغیر کھل کر تنقید کرتے ہیں اور ہم بھی ان ہی کی تقلید کررہے ہیں ۔من ترا حاجی بگویم تومرا حاجی بگو کے اس دور میں اردو ادب کو صحت مند رکھنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔اس سے قبل ظفر اقبال کے دو شعری مجموعوں تاخیر اور توفیق پر کھل کرتنقید کی تھی جس کا مرشد نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کالموں میں نہ صرف خیر مقدم کیا تھا بلکہ بہت سی باتوں سے اتفاق بھی کیا تھا۔زیر ِ نظر شعری مجموعے ’’تشویش‘‘ کو پڑھا تو خوشی ہوئی کہ ہمارے اگلے دونوں تنقیدی آپریشنز کامیاب رہے اور اس مجموعے میں خامیاں اور کوتاہیاں کم نظر آئیں۔شعری مجموعے کا نام تشویش پڑھ کر تشویش ہوئی کہ کتنا غیر شاعرانہ نام ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے کسی ڈاکٹر کا صحت عامہ پر مبنی کوئی صحیفہ ہے۔اگر ظفر اقبال کو یہ نام پسند ہے اور اپنی شاعری کو پیشِ نظر رکھ کر یہ نام رکھا ہے تو ہمارا لاحقِ تشویش ہونے کا کوئی جواز نہیں ۔اس مجموعے میں کل 121 غزلیں ہیں۔سب سے زیادہ 25 غزلیں بحرِ مجتث کی مزاحف شکل(مفاعلن،فعلاتن،مفاعلن،فعلن) میں ہیں ۔کتاب میں 56 غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں جن میں سب سے زیادہ 22 غزلیں بحرِ خفیف کی مزاحف شکل(فاعلاتن،مفاعلن،فعلن) میں ہیں۔کتاب میں کوئی حمد اور نعت نہیں ہے جس پر ہمیں تشویش ہوئی کہ اپنے مذہب اور ثقافت سے پہلو تہی کرنا دانشمندی نہیں بلکہ گھاٹے کا سودا ہے۔کتاب میں پیش لفظ ہے نہ ہی کسی کا مضمون ،البتہ پسِ ورق مبین مرزا نامی ایک شخص کی آرا چسپاں ہے جس میںموصوف نے شاعر کی شعری عمر کو دھیان میں رکھ کر توصیف کی ہے۔ لفظ یہاں ،وہاں،کہاں،یہیں،وہیں وغیرہ کے ساتھ پر یا پہ کا استعمال درست نہیں اور اساتذہ نے اس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔ظفر اقبال کے اس مجموعے میں بھی اس لغزشِ لاشعوری کے نمونے موجود ہیں مگر اگلے دو مجموعہ ہائے سخن کی نسبت ان کی تعداد کم ہے۔چند مثالیں۔

ہر ایک اپنی جگہ پر ہے خود کفیل اتنا
یہاں پہ ساری خدائی ،خدا سے ہٹ کر ہے
ہمارا قافلہ اب بھی رواں تو ہے لیکن
وہیں پہ رہ نہ گیا ہو جہاں سے آگے ہے
کہیں پر آپ غلط پانیوں میں گم ہوئے تھے
وگرنہ بحر کوئی بے کنار بھی نہیں تھا

ظفر اقبال کی کتاب میں شامل مختلف خامیوں سے مزین کچھ اشعار۔

اٹھ کے سوجانا ہے پھر سے ہم نے
اور علی الصبح اُٹھا کرنا ہے
ہے اکڑفوں بھی تھوڑی تھوڑی مگر
انکساری بھی ہے بہت مجھ میں
خود کو آگے بڑھالیا ہے
اُس کے پیچھے لگا لیا ہے
خود بھی حیران ہوں بہت،کیا کیا
یاد آیا ہے بے دھیانی میں
دین و دنیا تو ظفر کچھ بھی نہ تھا
مفت کی ہم نے مشقت کی ہے
ترے راستوں سے گزرنا تو ہے
شعر کہنا تجھے یاد کرنا تو ہے

پہلے شعر میںلفظی غلطی ہے۔علی الصبح کوئی لفظ نہیں درست لفظ علی الصباح ہے۔دوسرے شعر میں انکسار ی غلط ہے کہ یہ بھی کوئی لفظ نہیں ہوتا درست لفظ انکسار ہے۔بقول خدائے سخن۔

کس کوفقیری میں سرو دل حرف کا ہے میر
کرتے ہیں اس دماغ پہ ہم انکسار اور

تیسرے شعر میں ذم کا پہلو ہے وہ بھی مردانہ۔چوتھے شعر میں بے دھیانی کا لفظ غلط باندھا گیا ہے۔لفظ دھیان کو فعول نہیں بلکہ فعل یعنی رات ،صبح وغیرہ کے وزن پر باندھتے ہیں۔میر انیس کے بقول

پہچانتے نہیں تمھیں بھائی یہ اہلِ شر
جانے دو،آئو،دور کرو دھیان ہے کدھر

پانچویں شعر میں دین و دنیا کی مناسبت سے پہلے مصرعے کے آخر میں نہ تھا کی جگہ نہ تھے ہونا چاہیے۔چھٹے شعر کا پہلا مصرع بے وزن ہے۔واضح رہے کہ یہ غزل فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کے وزن پر ہے ۔
ظفر اقبال نے جہاں ایک طرف اردو ادب کو تادیر یاد رکھے جانے والے بے مثال اشعار دیے ہیں تو وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے اولین شعری مجموعے ا ٓبِ رواں جس کی بدولت ظفر اقبال ظفر اقبال بنے کو چھوڑ کر باقی تمام مجموعہ ہائے سخن میں پھسپسے اور فضول اشعار کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔ آج کے جدید ادب کا قاری بہت باشعور اور کم یاب بھی ہے ایسے میں جب وہ پھسپسے اشعار پڑھتا ہے تو ناگواری کا شکار ہوکر ادب کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چل نکلتا ہے۔قارئین کو ادب سے مایوس کرنے والے شاعروں کی اگر ایک فہرست بنائی جائے تو ظفر اقبال کا نام اس میں سرِ فہرست ہوگا۔تشویش میں بھی ایسے بے تکے اشعارموجود ہیں جن کو پڑھ کر قاری کا تشویش میں مبتلا ہونا بنتا ہے۔چند مثالیں۔

آتے ہیں اور جاتے ہیں
کچھ کرتے نہ کراتے ہیں

(یہ کتاب کی پہلی غزل کا مطلع ہے)

کچھ بچھاتا ہوں شاعری نیچے
جو بچے اُس کو اوڑھتا ہوں میں
شاد و آباد ہے تو اور اس میں
میری بھی شادی و آبادی ہے
ظفر اکثر نہیں تو گاہ بہ گاہ
کوئی طوطا ہے ،کوئی چُوری ہے
پھنسا ہے پیٹ میں بچہ
پریشانی میں زچہ ہے
ہے اگرتا تو یہ بھی کم نہیں کچھ
وہ مگرتا نہیں تو پھر کیا ہے
بھینس ہی جب اتنی پیاری سی ہو تو پھر
اس کے آگے بین بجانی پڑتی ہے

اب ایسے فضول اشعار پڑھ کر کون ہوگا جو مایوس نہ ہو۔کون ہوگا جو ایسے اشعار پر مبنی کتاب خرید کر اپنی رقم ضائع کرے۔ظفر اقبال نے زبان و بیان کے حوالے سے بھی جو تجربات کیے ہیں اُ ن سے بھی بہت سے نوجوان شعرا خراب ہوئے ہیں ۔بہت سے نوجوان شعرا جو اللہ کے فضل سے مطالعہ تو کرتے نہیں انہوں نے ظفر اقبال کے ضرر رساں تجربات کو جدیدیت جان کر اپنی شاعری کو بھی پولیو وائرس کا شکار کرلیا ہے۔اُلٹے سیدھے اور غزل کے مزاج سے ہٹ کر کرخت اورغیر مانوس الفاظ کو شعروں میں بے ڈھنگے انداز میںباندھ کر اپنے تئیں خود کو جدید شاعر سمجھنے لگے ہیں۔نوجوان شعرا کو گمراہ کرنے والوں کی بھی فہرست مرتب کی جائے تو ظفر اقبال کا نام پہلے نمبر پر ہوگا۔ ان چند جملہ ہائے معترضہ کے باجود اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ظفر اقبال آج بھی جدید غزل کے حوالے سے مشعلِ راہ ہیں۔نصف صدی سے میدان ِ ادب میں رہنے کے باوجود وہ آج بھی کسی الہڑ اور منہ زور جوان کی طرح ہیں۔ظفر اقبال شعر اُگلنے والی خود کار مشین بن گئے ہیں۔اس مشین کے آگے کوئی کسی بھی لفظ کوتین چار بار دھرائے تو اگلے ہی لمحے وہ لفظ شعر میں ڈھل کر سامنے آجاتا ہے۔بقول خود ان کے

لگا رکھا ہے لفظوں کا تماشہ
کہ شاعر سے مداری ہوگیا ہوں

ایسا کیسے ممکن ہے کہ ظفر اقبال کا مجموعہ ہو اور اس میں عمدہ،جدید اور انوکھے اشعار نہ ہوں۔زیر نظر مجموعے سے کچھ اشعاربطور تبرک پیش ہیں۔

رات کردیتی ہے ٹکڑے ٹکڑے
ایک سوتا ہوں،کئی اُٹھتا ہوں
زحمت ہوا نے بھی نہ اُٹھائی ہے آج تک
سڑکوں پہ ہیں ابھی مرے پتے پڑے ہوئے
کیا کیا بیان کرتے ہیں دریا کی داستاں
پانی کے منتظر یہ کنارے پڑے ہوئے
برگ و ثمر بھی اور ہیں،سائے بھی مختلف
ایک اور بھی شجر ہے شجر میں چھپا ہوا
یہ تیرے خیالات بھی خوابوں سے نہیں کم
ایسے کہ نہ سونا بھی ہے سونے کے برابر
تم نے جس کیفیت میں چھوڑا تھا
میں ابھی تک اُسی میں بیٹھا ہوں
محفوظ ہوں اس لیے کہ خود کو
اپنے پیچھے چھپا دیا ہے
کسی بھی لمحے جسے کوئی مار دیتا ہے
میں کوئی اور نہیں،وہ کہانی والا ہوں
نیتیں آٹھ پہر ساتھ رہا کرتی تھیں
آنکھ میں شرم تھی،باتوں میں اثر ہوتا تھا
وہاں گئے تھے جہاں کوئی جا نہیں سکتا
جہاں سے آنہیں سکتے وہاں سے آئے ہیں

حصہ