کراچی پریس کلب کا خواتین مشاعرہ

554

سیمان کی ڈائری
میں اس بات سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں کہ عورت چاہے ماں ہو یابہن، بیوی ہو یا بیٹی ہو، قدرت کا حسین تحفہ ہے۔ اِن کے بغیرکائنات کی ہر شئے پھیکی اور ماند ہے۔ زمانۂ جہالت میں عورت کا کیا کردار تھا؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا اس کی مثال دنیا میں کسی قوم اور مذہب میں نہیں ملتی۔ آپؐ کی مثال ہی کافی ہے کہ آپ اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی کس قدر عزت او راحترام فرمایا کرتے تھے۔ یعنی آپؐ جب بھی اپنی بیٹی فاطمہؓ کے گھر جاتے یا وہ تشریف لاتیں،آپ اُن کے احترام میں کھڑے ہو جاتے اور اپنی جگہ اُن کے لیے وقف کر دیتے۔ اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی مقرر نہیں کیے بلکہ ان کو مردوں کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔ عورت ہی وہ ذات ہے جس کے وجود سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام نے جنم لیا۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے نام پر کچھ نام نہاد خواتین تنظیموں نے خواتین کے جن حقوق پر بات کرنے کی کوشش کی اس سے تو پوری انسانیت ہی شرما کر رہ گئی ہے۔ متنازع بینرز آویزاں کر کے بے راہ روی کی ترغیب دینے کی کوشش کی گئی۔کچھ خواتین کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے نازیبا پلے کارڈز کی وجہ سے شدید رد عمل بھی آیااور وہ رد عمل مردوں کی طرف سے ہی نہیں خواتین کی جانب سے بھی تھا۔ ایسا تو مغربی معاشرے میں بھی دیکھا نہ سنا گیا۔ہمارے معاشرے کایہ چہرا نہیں جو نام نہاد خواتین کی تنظیموں نے دنیا بھر میں دکھانے کی کوشش کی۔پاکستان میں خواتین کا کیا کردار ہے اور ان کا کتنا مقام ہے یہ آپ اور ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ کون بد بخت ایسا ہے جو اپنی خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔ ذراآپ اپنے گھر کے ماحول پر نظر دوڑائیے۔کیا آپ اپنی خواتین کے حقوق پورے نہیں کرتے؟ یا ان کی ضروریات زندگی کو برابری کی سطح پر نہیں دیکھتے؟قرآن مجید میں سورۃ النسا میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ عورت کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔سورۃ النسا میں خواتین کے حقوق،فرائض اور دیگر مسائل کے لیے تفصیلی احکامات دیے گئے ہیں اور رہنمائی کی گئی ہے۔پردے کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں پاکیزگی اور اخلاقی اقدار برقرار رہیں۔ ہمارے معاشرے کی خواتین دیہی علاقوں کی ہوں یا شہری علاقوں کی وہ محنتی اور جفا کش ہیں۔مردوں کے شانہ بہ شانہ مختلف شعبۂ زندگی خواہ وہ سیاسی، ادبی، کاروباری، صحت،کھیل جیسا کوئی شعبہ ہوملک کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔یہی نہیں گھر اور خاندان میں بھی اپنی ذات سے جڑے ہر رشتے کو بڑی خوبصورتی سے نبھار ہی ہیں۔آپ ذرا نگاہ تو ڈالیے ادب سے لے کر عسکری شعبوں،ایوان زریں اور بالا میں عورت وقار کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔خواتین کی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آج یہ شرح مردوں کے برابر پہنچ رہی ہے۔کہیں اگر کسی کی حق تلفی ہو بھی رہی ہے تو اس کے لیے قانون موجود ہے۔ سو میرے نزدیک عورت مارچ ایک پروپگینڈااورمنفی سوچ کی حامل تحریک تھی۔ اور اس کا جواب ہمارے معاشرے کی خواتین کا وہ مثبت کردار ہے جووہ مختلف شعبوں میں ادا کررہی ہیں۔ایسے میں ضرورت پیش آتی ہے کہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ ہماری خواتین اصل میں کون ہیں؟ وہ جو بے راہ روی کو اپنانے میں غلط حقوق کی بات کررہی ہیں یا وہ جو اپنے علم و ہنر کے ذریعے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔اردو زبان و ادب کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک متعدد شاعرات اور نثر نگاروں نے اردو ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔اردو ادب آج جس تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اسے سینچنے،سنوارنے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین قلم کاروں نے بھی اہم کردار ادا کیاہے۔ناول نگاری،افسانہ،شاعری،ان تینوں اصناف میں خواتین لکھاریوں کی تخلیقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انھیں اظہار کی پوری آزادی ہے۔
کراچی پریس کلب اپنے قیام ہی سے صحافت کا علمبردار ہی نہیں رہابلکہ ہماری تہذیب و ثقافت اور ادبی روایات کا بھی امین رہا ہے اورانھیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ کراچی پریس کلب سے جہاں صحافت کی بڑی اور معتبر شخصیات وابستہ رہی ہیں،وہیں فیض احمد فیض،حبیب جالب بھی اس کا حصہ رہے۔بلا شبہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کی خدمات بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی ہمیشہ ادبی سرگرمیوں کے لیے پیش پیش رہی ہے۔یوم پاکستان اور خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی پریس کلب کی جانب سے خواتین کا مشاعرہ ترتیب پایا۔بلاشبہ اس مشاعرے کو کامیاب بنانے میں کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے روح رواں،معروف شاعر و صحافی علاؤالدین خانزادہ صاحب،پریس کلب کے سیکریٹری ارمان صابر اور صدر امتیاز فاران صاحب کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔اس مشاعرے نے یہ ثابت کیاکہ ہماری خواتین کون ہیں اور ان کا معاشرے میں کیا کردار ہے۔ خواتین کے مشاعرے کی صدارت معروف شاعرہ محترمہ شاہدہ حسن صاحبہ نے کی۔شاہدہ حسن صاحبہ کسی تعارف کی محتاج نہیں اور فاطمہ حسن صاحبہ کے بہ قول ان پر لکھنا اتنا آسان بھی نہیں۔ان کی شاعری کی دو کتابیں ’’ایک تاراہے سرہانے میرے‘‘ دوسرا مجموعہ ’’یہاں کچھ پھول رکھے ہیں‘‘ منظر عام پرآ چکے ہیں اور دونوں میں معیاری اور سچی شاعری ہے۔آپ نثر بھی اچھی لکھتی ہیں۔مختلف موضوعات پر مضامین اور تبصرے ان کی تخیلقی خوبیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مشاعرے کی نظامت ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کی جبکہ شاعرات میں ڈاکٹر فاطمہ حسن، ریحانہ روحی، تنویرانجم، صبیحہ صبا، حجاب عباسی، پروین حیدر، ڈاکٹر نزہت عباسی، سحر علی، تبسم صدیقی، شاہین برلاس، پروین نذیر سومرو، یاسمین یاس، افشاں سحر، گل افشاں صاحبہ مدعو تھیں۔ مشاعرے میں دیگر خواتین شاعرات بھی مدعو تھیں جو اپنی نجی مصروفیات کے باعث شریک نہ ہو سکیں۔ سامعین میں موجود صحافی اور شعرا کی ایک اچھی تعداد موجود تھی جن میں ممتاز صحافی جناب انور سن رائے، عذرا عباس صاحبہ،راشد نور،فاضل جمیلی،علاؤالدین خانزادہ،نجیب ایوبی موجود تھے اور مشاعرے کے اختتام تک موجودرہے۔ مشاعرے سے قبل خواتین شاعرات کے اعزاز میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران نے محترمہ شاہدہ حسن صاحبہ کوروایتی اجرک پہنائی اورمشاعرے کے اختتام پر علاؤالدین خانزادہ صاحب نے مہمان شاعرات کو پریس کلب کی جانب سے تحائف پیش کیے۔خواتین شاعرات کے کچھ اشعار آپ کے ذوق کی نذر جو انھوں نے مشاعرے میں پڑھے:
محترمہ شاہد حسن

میں نے اک گوشۂ وحشت سے بہت باتیں کیں
یعنی اس دل کی اذیت سے بہت باتیں کیں
حرف ایجاد کیے خود ہی تخاطب کے لیے
اور پھر اپنی محبت سے بہت باتیں کیں

ڈاکٹر فاطمہ حسن

روئی کے گالے سے دھاگے کا سفر میرا ہی تھا
اور مٹی سے بنا چھوٹا سے گھر میرا ہی تھا
دھان کے کھیتوں میں میری انگلیوں کا لمس ہے
دانے کو کھانا بنانے کا ہنر میرا ہی تھا

ریحانہ روحی

شکوہ کیا نہ کوئی بات دنیا گزار دی گئی
یعنی کے خامشی کے ساتھ دنیا گزار دی گئی
راضی نہیں تھا جس کے ساتھ اک پل گزارنے کو دل
روحیؔ مگر اسی کے ساتھ دنیا گزار دی گئی

حجاب عباسی

ہم بے نیاز سود و زیاں بولتے رہے
جیسے کہ سن رہا ہو جہاں بولتے رہے
ہم بولنے کے وقت پہ گم صم کھڑے رہے
رہنا تھا چپ جہاں پہ وہاں بولتے رہے

صبیحہ صبا

یہاں کی غلطیاں مولا شمار مت کرنا
لکھے ہوئے ہیں مرے کچھ قصور پہلے سے
موسم یہ اداسی کا برسوں سے نہیں بدلا
ویسے تو سبھی موسم ہر سال بدلتے ہیں

پروین حیدر

درد کے ایسے مناظر بھی سفر سے گزرے
ہم ہر اک سانس میں صدیوں کے سفر سے گزرے
اپنے بچوں پہ رکھواپنی دعا کے سائے
جانے کس وقت کڑی دھوپ کدھر سے گزرے

ڈاکٹر نزہت عباسی

عکس در عکس بٹ گیا تھا وجود
اس قدر آئنوں کی زد میں تھا
یہ اپنا شہر ہے لیکن ہیں لگتے
یہاں کے لوگ سارے اجنبی سے

تبسم صدیقی

زبانِ خامشی میں بھی بڑی تاثیر ہوتی ہے
کبھی چپ بیٹھ کر سننا درو دیوار کی باتیں
مجھے اس بار اس قید خموشی سے نکلنے دو
سرِ دیوار لکھ دوں گی پسِ دیوار کی باتیں

ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر

میں اپنے آنگن میں معتبر ہوں
یہاں نہیں ہوں تو دربدر ہوں
اگر ہر اک سمت تم ہی تم ہو
تو یہ بتاؤ کہ میں کدھر ہوں

سحر علی

تم سے اتنا بھی کہہ نہیں پائی
تم سے مل کر مجھے خوشی ہوئی ہے
یہ خسارہ تو میں اٹھا چکی ہوں
یہ محبت تو میں نے کی ہوئی ہے

سحر حسن

زندگی تیری ہم سفرہوں میں
کون کہتاہے، دربدر ہوں میں
دائروں میں رکھی ہے روح مری
اپنے آدرش میں مگر ہوں میں

یاسمین یاس

تمہارا کیا، ہمارا کیا
محبت میں خسارہ کیا
محبت حاصلِ غم ہے
محبت سے کنارا کیا

افشاں سحر

خوشیاں تھیں چنچل پن تھا آزادی تھی
میں بچپن میں اک ننھی شہزادی تھی
تعبیروں کے کھیل میں گزرا تھا بچپن
نیند کا گھر تھا خوابوں کی آبادی تھی

حصہ