شریکِ مطالعہ

612

نعیم الرحمن
منفرد لہجے کے شاعر نصیر احمد ناصرکے بے مثال ادبی جریدے ’’تسطیر‘‘ کا چھٹا شمارہ بھی اسی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوگیا جو تسطیرکا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ صفِ اوّل کے افسانہ نگار حمید شاہد کے پُرعزم صاحبزادگان امر شاہد اور گگن شاہد کے حسنِ انتظام اور بک کارنر جہلم کی دل کش اور جاذب ِ نظر اشاعت و طباعت نے تسطیر کو چار چاند لگادیے۔ حیران کن طور پر اتنے ضخیم پرچے کے صفحات عمدہ بائنڈنگ کی وجہ سے باہر نہیں نکلتے۔ تقریباً 900 صفحات کے اس خوب صورت جریدے کی قیمت صرف 900 روپے ہے۔ چار ماہ کی قلیل مدت میں اتنا ضخیم اور مکمل جریدہ تیار کرنے پر نصیر احمد ناصر قارئین کو حیران کردیتے ہیں۔
تسطیر کے ہر شمارے کا ٹائٹل ملک کے کسی اچھے مصور کا بنایا ہوا ہوتا ہے جس کا تعارف سرورق کے پیچھے کرایا جاتا ہے۔ یہ ادب کے ساتھ آرٹ کے فروغ کی ایک اچھی کوشش ہے۔ اِس مرتبہ سرِورق کی مصورہ عینہ عارف راجا ہیں۔ خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ بیک پیج پر بھی اُن کے دل کش کیلی گرافی کے چار نمونے موجود ہیں۔ نوجوان مصورہ، لکھاری اور فلم میکر عینہ عارف راجا کا تعلق جہلم سے ہے۔ انہوں نے فائن آرٹس میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی اور اب ملٹی میڈیا آرٹس برائے فلم میں نیشنل کالج آف آرٹس سے دوسرا ایم اے کررہی ہیں۔ ان کا بیشتر کام منی ایچر اور آئل پینٹنگز میں ہے اور عام طور پر غالب کے اشعار کو پینٹ کرتی ہیں۔ عینہ نے دو سے زائد فلموں میں کام کیا ہے اور اپنی ایک فلم ڈائریکٹ بھی کرچکی ہیں۔ اب غالب کی زندگی اورشاعری پر ڈاکومینٹری بنانا چاہتی ہیں۔
تسطیر چھ کی ابتدا احسان اکبر کی دل نشین حمدِ باری تعالیٰ سے ہوئی ہے جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں

عبث تلاش ہے اُس کی مثال و قال کے ساتھ
خیال جس کا نہ آئے کسی خیال کے ساتھ
وہ لا شریک کوئی حصہ دار رکھتا نہیں
جمال گرچہ دکھاتا ہے ہر جمال کے ساتھ
وجود کوئی نہیں صرف ہے وجود اس کا
وجود گرچہ نہیں جسم و خد و خال کے ساتھ

اس کے بعد جلیل عالی کی نعتِ رسولؐ مقبول ہے۔ اردو کے عمدہ شاعرجلیل عالی، جن کا نعتیہ مجموعہ کلام ’’نور نہایا راستہ‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے، کی نعت کے اشعار ؎

اعزاز اور کیا ہے بڑا کائنات میں
طوقِ درِ نبی کوئی طعنہ نہیں ہمیں
نکلے اگر ہیں رہروِ طائف کی راہ پر
کیا ہر سگِ جہاں نے ستانا نہیں ہمیں
رہتا ہے دل حرائے حضوری میں ہر گھڑی
کچھ خوفِ برق و بادِ زمانہ نہیں ہمیں

تسطیر کا اداریہ ’’سب نیلا ہے‘‘ کے نام سے ایک دل چسپ تحریر ہے جس میں انشائیہ کا رنگ جھلکتا ہے۔ دو صفحات کی اس تحریر میں بڑی عمدگی سے بلیو سے وابستہ محاورے، معیشت اور دیگر اصطلاحات کو نصیر احمد ناصر نے بہت عمدگی سے پیش کیا: ’’انگریزی کا لفظ بلیو بڑا دل چسپ ہے، اس سے بے شمار اصطلاحات اور محاورے بنے ہوئے ہیں۔ معیشت، قانون اور سماجیات میں کتنی ہی اصطلاحات ہیں جو لفظ بلیو کی مرہونِ منت ہیں۔ بازارِ حصص میں مالی طور پر مستحکم اور اعلیٰ انتظام والی کمپنیوں کے شیئرز کو بلیو چپس کہا جاتا ہے۔ نیلا پنیر، جو گائے کے دودھ سے بنتا ہے، اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ کسی عدالت کی منتخب جیوری کو بلیو ربن جیوری کہا جاتا ہے۔ نجیب الطرفین اور صحیح النسب کے لیے بلیو بلڈڈ کی اصطلاح ہے۔‘‘
اس بارے میں نصیر احمد ناصر کا کہنا ہے کہ ’’یہ تحریر نیلے رنگ کے بارے میں تحقیقی خامہ فرسائی نہیں بلکہ چند اصطلاحات کا شذرہ ہے، جس کے لیے لغت سے مدد لی گئی ہے۔ صلائے عام ہے یاران ِ نکتہ داں کے لیے‘‘۔
’’لمسِ رفتہ‘‘ کا عنوان علم و ادب کی رخصت ہونے والی شخصیات کے ذکر کو دیا گیا ہے، جس میں منو بھائی سے دل چسپ گفتگو ڈاکٹر عظمیٰ سلیم نے کی ہے۔ بھارت کے ادبی جریدے ’’ذہن ِ جدید‘‘ کے مرحوم مدیر، ادیب و شاعر زبیر رضوی سے ایک ملاقات کی یادوں کو صابر نے تازہ کیا ہے۔ دونوں بہت عمدہ تحریریں ہیں۔ کوئٹہ کے جواں مرگ شاعر دانیال طریر کی چند غیرمطبوعہ نظمیں بھی اس حصے کی زینت ہیں۔
مکالمہ کے تحت صاحب ِ طرز ناول و افسانہ نگار، شاعر، نقاد اور دانشور شمس الرحمن فاروقی سے طویل انٹرویو صابر نے کیا ہے جس کے بارے میں صابرصاحب کا کہنا ہے کہ ’’شمس الرحمن فاروقی صاحب میدانِ علم و ادب کی تاریخ ساز شخصیت ہیں، جن کی تحاریر و تقاریر جہاں اردو زبان و ادب کے متعلق کئی سوالوں کے جواب فراہم کرتی ہیں، وہیں قاری کے ذہن میں نئے سوالوں کو جنم بھی دیتی ہیں۔ زیر ِ نظر مصاحبہ ایسے ہی چند استفسارات پرمبنی ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے فاروقی صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے مقتبس وہ عبارتیں بھی دی جارہی ہیں جہاں سے اس مصاحبے کا سوالنامہ ترتیب دیا گیا ہے۔‘‘
اس مصاحبے میں شمس الرحمن فاروقی صاحب سے سیر حاصل اور کارآمد گفتگو کی گئی ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے صحافی، ناول نگار اور شاعر انور سن رائے سے گفتگو عمر فرحت نے کی ہے۔ ’’ادیبوں کا بچپن‘‘ کے سلسلے میں بزرگ ادیب اور دانش ور فتح محمد ملک سے ڈاکٹر عظمیٰ سلیم نے بات کی ہے جس میں ملک صاحب نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کی ہیں۔
سفرنامہ میں اِس بار سلمیٰ اعوان کا ’’میڈرڈ اور ہم‘‘، مجد شیخ کا ’’مُورکی واپسی‘‘، اور جیا شاہ کا ’’سایانگ ملیسا‘‘ شامل ہیں۔ سلمیٰ اعوان کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کے کئی ناول، افسانوی مجموعے اور سفرنامے شائع ہوچکے ہیں۔ تسطیر میں شامل سفرنامہ اُن کے اسپین کے سفرنامے کا حصہ ہے۔ امجد شیخ کا دل چسپ سفرنامہ بھی اسپین کے بارے میں ہے۔ ان کی نثر بہت رواں دواں اور اسلوب سادہ اور دل چسپ ہے۔ 30 صفحات کی طویل تحریر کسی مرحلے پر بوجھل محسوس نہیں ہوتی اور قاری ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ جیا شاہ نے تھائی لینڈ، ملائشیا اور مشرقِ بعید کے ممالک کا احوال بیان کیا ہے۔ ان کا شگفتہ اور ہلکا پھلکا اندازِِ بیان تحریر کی دل چسپی میں اضافہ کرتا ہے۔
محمد حامد سراج کا شمار دورِ حاضرکے صف ِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب’’میا‘‘ نے بھی ہر صاحب ِ ذوق کی داد سمیٹی ۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ محمد حامدسراج صاحب ’’نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘ اور ’’مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں‘‘ مرتب کرچکے ہیں اور ان کے آئندہ کے منصوبوں میں بادشاہوں، سیاست دانوں اور سپہ سالاروں کی آپ بیتیاں شامل ہیں۔ تسطیرچھ میں شامل ’’امیر تیمورکی آپ بیتی‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بادشاہوں کی آپ بیتیاں بھی جلد آنے والی ہے، قارئین اس کا انتظار شروع کردیں۔
ظفر سپل فکر و فلسفہ کی عظیم شخصیات پر مضامین کے ذریعے قارئین کے علم میں بہت اضافہ کرتے رہے ہیں۔ اس شمارے میں ’’کانٹ‘‘ پر مضمون بھی ظفرسپل کے معیارکو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
پرچے کا سب سے اہم اور بھرپور حصہ ’’نقد و نظر‘‘ کے عنوان سے مضامین پر مشتمل ہے، جسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں ادب کی معروف شخصیات، کتب اور دیگر موضوعات پر مضامین ہیں۔ دوسرے حصے میں اہم کتابوں اور مصنفین کا بھرپور محاکمہ کیا گیا ہے۔ نامور نقاد اوردانش ور شمس الرحمن فاروقی ’’فیض صاحب، قبولِ خاطر و لطفِ سخن‘‘ کے ساتھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی ’’ناول امراؤ جان ادا، لکھنؤ کی مونالیزا‘‘ لے کر محفل میں شریک ہیں۔ ’’گلوبلائزیشن اور وجودی مزاحمت‘‘ ڈاکٹر سعادت سعید کے مضمون کا عنوان ہے۔ ناصر بغدادی نے ’’البرٹ کامیوکے ناول اجنبی کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ بہت خوب کیا ہے۔ ادیب، شاعر، افسانہ نگار اور نقاد ڈاکٹر نیر عباس نیر کے مضمون کا عنوان ہے ’’غالب کی جدیدیت اور انگریزی استعمار‘‘۔ حسبِ روایت منفرد موضوع پر بہت عمدہ مضمون ہے۔ ڈاکٹر روش ندیم نے’’فکرِِ اقبال کی تشکیل ِ جدید‘‘ کا موضوع چنا ہے۔ الیاس بابر اعوان نے’’ایفرو کریبین شاعری، مابعد نو آبادیاتی شاعری‘‘ پر مضمون تحریر کیا ہے۔ معروف ادیب، شاعر اور مدیر شاعر علی شاعر نے ’’اردو ناول کے اہم پہلو‘‘ پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ پہلے حصے کا آخری مضمون سفینہ بیگم کا ’’مابعد جدید اردو ناول اور شہرِ لازوال، آباد ویرانے‘‘ میں بانو قدسیہ کے آخری ناول کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔
کالم میں تمام مضامین کا تفصیلی جائزہ تو ممکن نہیں، لیکن شمس الرحمن فاروقی کے مضمون کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’فیض صاحب کو ہمارے زمانے کا مقبول ترین شاعر کہا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے لے کر آج تک صرف اقبال اور فیض ایسے شاعر ہیں جن کو ہماری پوری ادبی تہذیب میں مقبولیتِ عام کا درجہ حاصل ہوا۔ اقبال سے پہلے داغؔ کو یہ مرتبہ بڑی حد تک حاصل تھا، لیکن کہا گیا کہ داغؔ کی مقبولیت میں شاگردوں اور گانے والوں کا بھی بہت دخل تھا۔ نوح ناروی کے بارے میں مشہور ہے کہ استاد سے پہلی ملاقات کے دوران وہ بات بات پر داغؔ کا شعر پڑھ دیتے تھے۔ اگر کوئی شخص داغؔ کا ایک شعر پڑھتا تو نوح صاحب وہ پوری غزل سنا دیتے۔ داغؔ نے مسکرا کر کہا کہ دیوانِ حافظ تو بہت دیکھا تھا لیکن حافظ دیوان آج ہی دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گانے والے، خواہ وہ اربابِِ نشاط ہوں، خواہ سنجیدہ فنکار، وہ بھی یہ دیکھ کر اپنے فن کے اظہار کے لیے کلام کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ کلام کسی مقبول شاعرکا ہے یا نہیں۔ بعض گم نام یا کم درجے کے شعرا نے بعض فنکاروں، مثال کے طور پر بیگم اختر یا جگجیت سنگھ یا فریدہ خانم کو آمادہ کرکے ان سے اپنا کلام گوایا لیکن ان شعرا کو آج کوئی نہیں جانتا۔ اس کے برخلاف غالب، داغ یا فیض کا جوکلام بھی گایا گیا، اُس سے ہم سب واقف ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ غالب کی غزلیں آج بھی گائی جاتی ہیں اور ان کے معاصرین ذوقؔ یا مومنؔ کی اکا دکا غزلیں ہی معروف مغنیوں نے گائی ہیں۔ اس نکتے پر تھوڑی سی توجہ میں نے اس لیے صرف کی ہے کہ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ فیض صاحب کی شہرت کی توسیع میں ان مغنیوں کا بھی ہاتھ ہے جنہوں نے ان کا کلام گایا۔‘‘
فاروقی صاحب کا مضمون بہت بھرپور اور دل چسپ واقعات سے مزین ہے۔ نقد و نظرکے دوسرے حصے میں ڈاکٹر غافر شہزاد نے مستنصر حسین تارڑ کے نئے ناول ’’منطق الطیر جدید۔ نئے سچ کی تلاش‘‘ میں ناول کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد نے’’احسان اکبر کا فن، یہ کرشمہ سوزِ جگر کا ہے‘‘ میں شاعر احسن اکبرکے فن کا جائزہ لیا ہے۔ افسانہ نگار عرفان احمد عرفی نے محمد عاطف علیم کے ناول ’’گرد باد‘‘ کا تجزیہ ’’گرد باد، ایک تہذیبی تنزل کا نوحہ‘‘ میں کیا ہے۔ معروف افسانہ نگار نعیم بیگ کے افسانے ’’شمال کی جنگ، تجزیہ‘‘ ڈاکٹر ریاض توحیدی کے مضمون کا عنوان ہے۔ محمد عاطف علیم کا مضمون ’’جدید شاعری کی بوطیقا اور حفیظ تبسم‘‘ ہے۔ ڈاکٹر فاخرہ نورین نے ’’ثقافتی استعمار کے خلاف توانا آواز، بشریٰ اعجاز‘‘، جب کہ عمر فرحت نے ’’سریندر پرکاش کے افسانے‘‘ پر خامہ فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹر غافر شہزاد نے 13 صفحات کے طویل مضمون میں منطق الطیر جدید کا بھرپور جائزہ لیا ہے جسے پڑھ کر ایسے قارئین، جنہوں نے اب تک ناول نہیں پڑھا، اسے پڑھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہی اس مضمون کی خوبی ہے۔ محمد حمید شاہد مضمون کے آغاز ہی میں احسان اکبر کی غزل کے اشعار سے قاری کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔
ایک بہت اچھے شاعر کو حمید شاہد نے بہت دلنشین انداز میں قارئین سے متعارف کرایا ہے۔ یہ اس حصے کا حاصل مضمون ہے۔
نظم کے ایک شاعر نصیر احمد ناصر کے ادبی جریدے میں نظموں کا حصہ سب سے بھرپور ہونا چاہیے اور ہر شمارے میں ایسا ہوتا ہے۔ نظم اور افسانے کو اس بار دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے میں مرد شعرا اور افسانہ نگارکی تخلیقات اور دوسرے میں خصوصی تانیثی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ حصہ نظم سے قبل دو طویل نظمیں تنویر قاضی کی’’مقتل‘‘ اور عمار اقبال کی’’کافکا میٹا مار فوسس‘‘ دی گئی ہیں۔ نظم کا پہلا حصہ 91 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 39 شعرا کی 102 تخلیقات کو جگہ دی گئی ہے، جس میں گلزارکا نام ہی کافی ہے۔ دیگر شعرا نے بھی بہت عمدہ نظمیں لکھی ہیں، جس کے بعد ادریس بابر کی ’’عشرہ‘‘ کے عنوان سے پانچ نظمیں شامل کی گئی ہیں جن میں سے ہر نظم دس مصرعوں پر مبنی ہے۔ اسی حوالے سے ان نظموں کو ’’عشرہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جب کہ تمثیل حفصہ نظم کی ایک نئی صنف لے کر آئی ہیں جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’’چار دیواری چار مصرعوں کی نئی صنف ہے جو رباعی اور قطعہ سے مختلف ہے۔ چار دیواری غزل کی نہیں بلکہ نظم کی ذیلی صنف ہے۔ اس کے چاروں مصرعوں کے اوزان برابر ہیں جو مل کر ایک مکمل خیال تشکیل دیتے ہیں۔ چار دیواری کی ضرورت موجودہ عصر میں اس لیے بھی ہے کہ نظم کی ذیل میں چار مصرعوں کی کوئی صنف آج تک سامنے نہیں آئی، جب کہ غزل میں ایسی اصناف مستعمل رہی ہیں۔‘‘
ادب میں نئے تجربات ہوتے رہنے چاہئیں۔ یہ بھی ایسا ہی ایک تجربہ ہے جس کی بعض نظمیں بہت عمدہ ہیں۔ نظم کا تانیثی حصہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 34 شاعرات کی 121 تخلیقات ہیں۔
افسانوں کا پہلا حصہ 150 صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں نئے پرانے 26 افسانہ نگاروں کو جگہ ملی ہے جن میں رشید امجد، ناصر بغدادی، مشرف عالم ذوقی، نعیم بیگ، طارق بلوچ صحرائی اور گل شیر بٹ کے افسانے بہت عمدہ ہیں۔ دیگر افسانوں کا انتخاب بھی شان دار ہے۔ چار مصنفوں کے چھ افسانچوں میں نعیم بیگ کے تین ، محمود ظفراقبال ہاشمی، فاطمہ عثمان اور شہریار قاضی کا ایک ایک افسانچہ شامل ہے۔ تانیثی افسانوں کاحصہ 130 صفحات کا ہے جس میں 23 افسانہ نگاروں کی تخلیقات دی گئی ہیں۔ ترنم ریاض کا ’’ریشِ ستم کیش‘‘، منزہ احتشام گوندل کا’’حبیب‘‘، اور آسناتھ کنول کا ’’بی بی پیرنی‘‘ اس حصے کے بہترین افسانے ہیں۔
تسطیر کے تراجم ہمیشہ بھرپور ہوتے ہیں۔ اس باردلت شاعری کے اہم باغی شاعر لوک ناتھ یشونت کی نظموں کے تراجم فرحان حنیف وارثی نے کیے ہیں جس نے اس حصے کی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔46 صفحات غزلوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن میں 58 شعرا کی 92 غزلیں درج ہیں۔
آخر میں محمد عارف نے خاکہ ’’اماں‘‘ پیش کیا ہے جس کا عنوان ہی صاحبِ خاکہ کا پتا دیتا ہے۔ سر سنجوگ میں ڈاکٹر امجد پرویز نے ہیمنت کمار گلوکار، موسیقار سے متعارف کرایا ہے۔ غرض تسطیر چھ ایک بھرپور ادبی دستاویز ہے جس پر نصیر احمد ناصر، گگن شاہد اور امر شاہد مبارک باد کے حق دار ہیں۔ ایسے بھرپور شمارے کے بعد اگلے پرچے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔

حصہ