نظر جن کی خدا پر ہو۔۔۔

340

ہادیہ امین
اکرم کو میں تب سے ہی جانتی تھی جب سے اس دکان سے سامان خریدتی تھی۔ جب میرے بچے چھوٹے تھے تب یہ بھی کوئی آٹھ نو سال کا ہوگا۔ اپنے دادا فضل الدین کے ساتھ کام پہ آتا تھا، وہ بھی اسکول سے فارغ ہوکر۔ اب وہ کوئی بیس، اکیس سال کا ہوگا۔ ان دادا پوتے کے چہرے پر تھوڑی بھوک اور غربت کے آثار اگرچہ نمایاں تھے، مگر آج تک انہیں کبھی بے ترتیب حلیے میں نہ دیکھا تھا۔ فضل الدین کے انتقال کے ڈھائی ماہ بعد آج میں آئی تو یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ دکان میں سامان تو کوئی اور تھا، اور اکرم کونے میں ایک چھوٹی سی میز پر سامان لگائے بیٹھا تھا۔ پرانی کسٹمر ہونے کے ناتے اس نے پہچان کر سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام۔ دادا کے انتقال کے بعد دکان مختصر کیوں ہوگئی؟ سب خیریت ہے؟‘‘
اس اچانک سوال پر بے چارہ اکرم پریشان ہوگیا۔
’’جی باجی! اللہ کا شکر ہے، دادا کی وفات کے بعد اتنا کرایہ دینا میرے لیے مشکل تھا۔ بچی کھچی جمع پونجی دادا کے علاج پر لگ گئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے یہ دکان دادا کے بعد اُن کے کسی جاننے والے نے کرائے پر لی تو ایک چھوٹی ٹیبل مجھے بھی رکھنے دی۔ شام کو میں یہاں ہوتا ہوں اور صبح مال سپلائی کرنے کی ایک اور چھوٹی سی نوکری کرتا ہوں۔ دادا کی زندگی میں جو حالات تھے وہ تو نہیں ہیں، مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے گزارا اچھا ہورہا ہے۔‘‘
میں حیران کہ اس کم پڑھے لکھے کی زبان پر اپنے حالات کی تفصیل بتاتے ہوئے بھی کتنا ’’اللہ کا شکر‘‘ تھا۔ بڑے بڑے سیانے اس طرزِ فکر سے محروم ہوتے ہیں۔
’’پڑھائی چھوڑ دی تم نے؟‘‘
’’جی باجی! چھوڑنی پڑی، مگر موقع ملتے ہی دوبارہ شروع کروںگا۔‘‘ اکرم نے آنکھوں میں ڈھیروں اداسی لیے دھیرے سے کہا۔
گویا پڑھائی چھوڑی تھی، امید نہیں۔ کرے بھی تو کیا!گھر میں اکیلا کمانے والا تھا۔
’’تمہارے گھر میں خواتین بھی تو ہیں ناں، وہ اگر کمائی میں کچھ مدد کرسکیں؟‘‘
اس سوال پر اکرم کا وہ انداز نہیں تھا جو پہلے دو سوالوں پر تھا۔ آنکھوں میں ہلکی سی ناگواری ابھری مگر تمیز کا دامن نہ چھوڑا۔ یہ تعلیم سے زیادہ تربیت یافتہ تھا۔
’’دادا آخری تین دن اچانک حادثے کی وجہ سے بیمار ہوئے اور پھر چل بسے، مگر آخری دن اُن کی کہی بات مجھے نہیں بھولتی، انہوں نے کہا تھا ’’بیٹا اکرم! اب گھر کی، اور عورتوں کی ذمے داری تمہارے سر ہے۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ وہ طاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالتا، مگر بیٹا! کچھ بھی ہوجائے گھر کی لڑکیوں کو باہر نہ نکالنا، یہ موتیوں کی طرح نازک ہوتی ہیں اور باہر کی دنیا بہت خراب ہے۔ میری پوتی بہت ذہین ہے، اس کا خیال رکھنا۔‘‘ میں ان کی نافرمانی ہرگز نہیں کرسکتا۔ انہوں نے ہمیں باپ کی طرح پالا ہے۔ آپ کچھ خرید نہیں رہیں؟‘‘
’’او ہاں! وہ ذرا سفید موزوں کی جوڑی دے دو، بس۔‘‘
میں اس کا جواب سن کے سوچ میں پڑ گئی۔ سڑک پر چلنے والا ہر شخص اپنے اندر ایک کہانی لیے گھومتا ہے۔ یہ بھی ایک کہانی تھی جو معلوم نہیں ابھی کتنی باقی تھی۔
اگلے دن مجھے درس کی دعوت دینے کے لیے لوگوں سے ملاقات کرنی تھی، قریبی مدرسے میں درسِ قرآن کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے کو تھا، جتنی خواتین سے ملاقات ہوئی کچھ نے ہاں کہا، کچھ نے نہ کہا، کچھ نے ’’دیکھوں گی‘‘ کہہ کر ٹال مٹول سے کام لیا۔ کچھ کا جواب خوب تھا کہ گھر والے دین کا علم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلنے نہیں دیتے ورنہ یقین کیجیے کس کا دل نہیں چاہتا اللہ کا کلام سیکھنے کا! میری مجبوریاں ایسی ہیں۔ گھر کی ذمے داریاں ہیں، میں بہت مجبور ہوں۔
خیر میں سب کے جواب سن کر اپنا کام کرکے واپس آگئی کہ خدا تو میری کوشش دیکھے گا، نتیجہ نہیں۔
صبح و شام یونہی گزرتے رہے اور زندگی اسی ڈگر پہ چلتی رہی۔ کوئی ساڑھے تین ماہ بعد پھر فضل الدین کی دکان سے سامان لینے کی ضرورت پڑی۔ آج دکان جاکر میں پھر حیران ہوئی۔ وہ دکان جو پہلے پوری فضل الدین کی، اور پھر فضل الدین کی موت کے بعد محض ایک ٹیبل تک محدود ہوگئی تھی، آج ایک ٹیبل سے بڑھ کر تقریباً آدھی دکان اکرم کی، اور آدھی دوسرے کی تھی۔ اکرم کی دکان پر پچھلے سامان کے علاوہ دیدہ زیب رنگین کروشیا کی بچکانہ فراکیں، پرس اور خوب صورت رنگوں سے بنی نت نئی چیزیں، جو حیران کرنے کے ساتھ ساتھ راہ چلتے لوگوں کی خصوصی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی تھیں۔ بلاشبہ وہ ہنرمندی کا اعلیٰ نمونہ تھیں۔
اکرم گاہکوں میں الجھا ہوا تھا،کونے میں پڑی کورس کی ایک کتاب، جس کے اندر ایک پین بھی جھانک رہا تھا، مجھے نوید سنا رہی تھی کہ اکرم نے پڑھائی پھر سے شروع کردی ہے۔
اُس کی نگاہ مجھ پر پڑی، پہچان کر سلام کیا، گاہک کچھ کم ہوئے تو میں نے پوچھا ’’اکرم نیا مال کہاں سے لائے ہو، اتنا خوب صورت؟‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بتانے لگا ’’دادا کی وفات کے بعد گھر کے حالات خراب ہوئے تو بہن نے میری مدد کرنا چاہی، میں نے دادا کی بات اُس کے سامنے رکھی، میری بہن دادا کی بہت لاڈلی تھی، دادا کی بات اُس نے بھی نہ ٹالی مگر اُس نے گھر پر رہ کر ہی اپنے اسمارٹ فون پر کروشیا کا کام سیکھ لیا، محض ایک مہینہ لگا ہوگا اسے اس کام میں طاق ہونے میں۔ اماں نے بھی جو کرسکتی تھیں وہ کیا، اب وہ پڑھائی بھی کررہی ہے۔ جو ہنر اماں کو اور دوسری کسی عورت کو آتا تھا اس نے وہ بھی سیکھ لیا۔ محلے کی بچیوں کو بھی کچھ سکھا دیا کرتی ہے۔ دادا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے صدقہ خیرات بھی کرتی ہے۔ شروع میں ایسا ضرور لگا کہ زندگی کی گاڑی مشکل سے چلے گی، مگر ہم نے اللہ پر بھروسا کرکے ہمت نہ ہاری۔ آج اللہ نے میری کمائی میں برکت دی۔ میں اس قابل ہوں کہ آدھی دکان کا کرایہ دے سکتا ہوں اس لیے میں نے کرائے پر لے لی ہے۔ ایک بات بتائوں باجی! دادا نے کبھی بے ایمانی نہیں کی۔ ہمیشہ رزقِ حلال کھلایا ہے۔ آپ کچھ خرید نہیں رہیں؟‘‘
اور میں دل میں سوچ رہی تھی یہ اس کے دادا کی تربیت ہے یا رزقِ حلال کی برکت کہ یہ لڑکا اللہ پر بھروسا کرکے ترقی کی سیڑھیوں پر دکھائی دے رہا ہے۔
گھر آکر مجھے اُن تمام بہنوں کا خیال آیا جو دین کا علم نہ سیکھنے دینے پر گھر والوں اور گھر کی ذمے داریوں کو مورد الزام ٹھیراتی ہیں۔ ایک طرف ایک لڑکی نے، جو معاشرے میں غریب سمجھی جاتی تھی، بڑوں کی بات کی لاج رکھتے ہوئے اپنا ہنر آزمایا اور اللہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ بے شک جو اس پر بھروسا کرے وہ اُس کو کافی ہوجاتا ہے، اور دوسری طرف وہ بھی ہیں جو گھنٹوں سوشل میڈیا پر لگاتی ہیں، ہر بہترین بات ان کے نام سے گردش کرتی ہے۔ کون ان کو سمجھائے کہ علم اب تمہاری فنگر ٹپس پہ ہے، جب ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگ گھر بیٹھے بہت باریک بینی والے کام سیکھ سکتے ہیں، خاصی دیر سوشل میڈیا پر لگا سکتے ہیں تو وہ اور بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جو اللہ کے راستے میں جدوجہد کرتا ہے، اللہ اس کے لیے اپنے راستے آسان کردیتا ہے۔ صرف علم کی پیاس اور نیتوں کے اخلاص کی ضرورت ہے۔

حصہ