خَط

856

مریم شہزاد
’’خواتین پارک‘‘ اس علاقے کا مشہور پارک تھا۔ چاروں طرف سے گھنے درختوں سے ڈھکا۔ مکمل پردے میں یہ خواتین کے لیے بہترین تفریح گاہ تھی جہاں سب کی بہو بیٹیاں بے فکری سے بغیر نقاب کے واک کرلیتی تھیں۔ اور اس پارک کا سب سے مقبول گوشہ جو عمر رسیدہ خواتین کے لیے مخصوص تھا، وہاں وہ ایک دوسرے سے دکھ سُکھ شیئر کرتیں، ایک دوسرے کے مسائل سنتیں اور حل کرتیں۔ اس طرح اپنی شامیں گزار کر گھر جانے تک تازہ دم ہوجاتیں۔ گویا ایک دوسرے سے دل کا حال کہہ سن کر دوبارہ زندگی کے نشیب و فراز پر زندگی گزارنے کے لیے سرگرم ہوجاتیں۔ فریحہ آنٹی، کلثوم آپا، سلطانہ باجی، غزالہ باجی، شہناز آنٹی اور قدسیہ بی تو روزانہ ہی پارک کی رونق بڑھاتیں، اور کچھ خواتین کبھی کبھی آجاتیں تو رونق اور بڑھ جاتی۔ سبھی کے پاس اپنے بچوں کی، اپنی بہو بیٹیوں کی، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی ڈھیروں باتیں ہوتیں۔
انہی میں ایک آپا شمیمہ بھی تھیں جو کسی زمانے میں ٹیچر تھیں اور اب امتحانی کاپیاں چیک کرتی تھیں۔ بہت خوش اخلاق خاتون تھیں۔ روزانہ ہی وہ چہل قدمی کرنے پارک میں آتیں، اور بینچ پر بیٹھتے ہی سب سے پہلا کام اُن کا یہ ہوتا کہ وہ اپنے پرس سے لفافہ نکال کر نہایت محبت سے کھولتیں اور انہماک سے خط پڑھتیں، اور کوئی پوچھتا کہ کس کا خط ہے؟ تو ممتا سے سرشار لہجے میں ان کا جواب ہوتا ’’میرے بیٹے‘‘ یا ’’بیٹی کا ہے‘‘۔
آج چوتھا دن تھا، آپا شمیمہ پارک نہیں آئی تھیں اور نہ ہی کسی کو معلوم تھا کہ وہ کیوں نہیں آرہیں؟ اب سب کو پریشانی ہورہی تھی کہ کس سے پتا کریں۔ اتفاق سے کوئی اُن کا گھر بھی نہیں جانتا تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ سب اپنے ڈرائیور یا چوکیدار سے معلوم کریں، شاید کوئی جانتا ہو۔ شہناز آنٹی کا ڈرائیور اُن کا گھر جانتا تھا۔ اگلے دن سب مل کر اُن سے ملنے گئیں۔
سفید رنگ کی بڑی سی کوٹھی، جس میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دروازہ فوراً ہی کھل گیا۔ ملازم ان سب کو اندر کمرے میں لے گیا جہاں وہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں، شاید سورہی تھیں۔ تمام خواتین حیران، پریشان تھیں کہ گھر کی ویرانی اور خاموشی ان کو ہولائے دے رہی تھی کہ اتنے میں ایک ملازمہ اندر آئی۔
’’آپ لوگ باجی کے ساتھ پارک میں ہوتی ہو نا جی! بے چاری بہت بیمار ہیں، اب تو پارک بھی نہیں جارہی ہیں۔‘‘
’’اور ان کے بچے کہاں ہیں؟‘‘ سلطانہ آپا نے پوچھا۔
’’ان کے بچے…؟‘‘ ملازمہ نے حیرانی سے پوچھا… ’’ان کے بچے کہاں جی، اکیلی جان ہیں یہ تو۔‘‘
’’شہناز آنٹی نے پوچھا ’’اچھا باہر ہوں گے نا، جو خط لکھتے ہیں۔‘‘
’’نا جی، ان کا تو کوئی بچہ نہیں، میں اتنی سی تھی جب سے ملازم ہوں بی بی کے پاس۔‘‘
’’مگر وہ خط……؟‘‘ کلثوم آپا نے کہنا چاہا۔
’’اچھا جی! وہ خط…‘‘ اس نے بڑھ کر دراز میں سے ڈھیروں خطوط نکالے ’’یہ جی…؟‘‘
سب نے ہاں میں سر ہلایا۔
’’وہ تو جی اکثر آتے ہیں، پہلے باجی پوسٹ کراتی ہیں، پھر واپس ان کے پاس آجاتے ہیں۔‘‘
اتنے میں آپا شمیمہ نے غزالہ باجی کو اشارہ کیا کہ خط پڑھ دیں۔ نقاہت سے ان سے بولا بھی نہیں جارہا تھا۔
غزالہ باجی نے خط پڑھنا شروع کیا۔ خط سنتے سنتے ان کے چہرے پر سکون آتا جارہا تھا۔ جب خط کے آخر میں اختتامیہ جملوں پر وہ پہنچیں ’’فقط آپ کی بیٹی‘‘ تو وہ چونک سی گئیں، کیوں کہ وہ سب خط امتحانی کاپیوں میں سے نکلے ہوئے تھے جن کے آخر میں ’’ا۔ب۔ج‘‘ لکھا تھا۔

حصہ