نقل

250

ناہید خان

شان ایک اچھا بچہ تھا.بڑوں کی عزت اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر رہتا۔اورہرسال کلاس میں اول آتا اس لئے تمام اساتذہ اسے پیار کرتے تھے اور دوست بھی اس سے خوش رہتے تھے۔شان کے والد ایک کارخانے میں کام کرتے تھے آمدنی محدود تھی اس وجہ سے وہ اپنے بچوں کی ہر فرمائش پوری نہیں کر سکتے تھے۔
شان کی سب دوستوں کے پاس اچھے اچھے موبائل تھے آج فیضان نے جب اسے اپنا نیا موبائل دکھایا تو اس اس سے رہا نہیں گیا اور موبائل کو بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگا۔اور گھر آکر اپنے ابو سے بہت افسردہ لہجے میں بولا ابو میرے سب دوستوں کے پاس موبائل ہی میرے پاس نہیں ہے مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے شان کی بات سن کر جبران صاحب کچھ لمحے سوچتے رہے اور بولے کہ ٹھیک ہے بیٹا میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کو موبائل دلاسکوں لیکن آپ کو بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا شان جلدی سے بولا ابو مجھے ہر بات منظور ہے جبران صاحب بیٹے کی خوشی دیکھتے ہوئے بولے کہ موبائل ملنے کے بعد آپ پڑھائی کو ایسی توجہ دو گے جیسی اب دیتے ہو۔
جی ابو میں دل لگا کر پڑھوں گا یہ سن کر جبران صاحب نے شام کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ٹھیک ہے بیٹا اگلے ماہ انشاء اللّٰہ آپ کو موبائل مل جائے گا یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔اور شان موبائل کے تصور میں کھو گیا
اگلے کچھ دنوں میں سب گھر والوں نے محسوس کیا کہ جبران صاحب گھر دیر سے آنے لگے ہیں مگر انہوں نے کام کی زیادتی کا کہہ کر ٹال دیا شان بے چینی سے مہینہ ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
ایک ماہ بعد جب جبران صاحب گھر لوٹے تو ان کے ہاتھ میں پیکٹ دیکھ کر شان سے رہا نہ گیا اور وہ جلدی سے بولا
ابو ابو یہ کیا ہے!میرا موبائل ہے نا۔۔۔
ابو بولے جی بیٹا یہ لو مگر آپ بھی اپنا وعدہ یاد رکھنا شان جلدی سے موبائل لیتے ہوئے بولا جی جی ابو اور بیتابی سے پیکٹ کھول کر موبائل دیکھنے لگا۔
بیٹے کے چہرے پر خوشی دیکھ کر جبران صاحب کے چہرے پر بھی طمانیت بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
فیضان دیکھو تو میرے پاس بھی موبائل آگیا شان فخر سے بتانے لگا۔
واہ بھائی سب دوست بھی دلچسپی سے موبائل دیکھتے ہوئے بولے اب آئے گا مزا گیم کھیلنے میں۔عرفان کہنے لگا لو اس میں گیم لوڈ کردوں تاکہ تم بھی ہماری طرح مزے کر سکو۔ہاں کر دو مگر میں ہر وقت گیم نہیں کھیلوں گا اپنی پڑھائی کو بھی ٹائم دوں گا ابو سے میں نے وعدہ کیا ہے۔۔۔ہاں ہاں پڑھ لینا بھئی ہم نے کب منع کیا ہے عرفان لاپرواہی سے بولا اور گیم لوڈ کرنے لگا۔شان کی خوشی دیکھنے والی تھی وہ رات دیر تک گیم کھیلتا رہا اور اسے وقت گزرنے کا اندازہ نہیں ہو سکا۔پتا تو اسے جب چلا جب امی نے کمرے میں جھانک کر کہا کہ بہت رات ہو گئی ہے سو جاؤ۔اوہ۔۔۔ سوری امی مجھے اندازہ نہیں ہوا اور پھر لائٹ بند کرکے سونے لگا مگر ذہن اب بھی موبائل میں گم تھا۔۔
شان تم نے گیم کا نیا ورژن ڈاؤن لوڈ کیا جو کل آیا ہے؟ فیضان اسکول کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی بولا۔نہیں تو!
ارے یار تم بھی نا بس۔۔۔۔۔پھر کلاس میں پہنچتے پہنچتے وہ گیم کا بتانے لگا اور پھر سارا دن شان کلاس میں غائب دماغی سے بیٹھا رہااس کاسارا دھیان گیم کی طرف لگا تھا جس کی وجہ سے وہ لیکچر کی طرف دھیان نہیں دے سکا۔
اور پھر روز ہی یہ ہونے لگا شان ہوتا اور موبائل گیم اور نئی نئی ایپس۔ شان کو ابو سے کیا ہوا وعدہ بھی یاد نہ رہا اور سب کے بار بار ٹوکنے پر بھی شان نہیں مانا وہ رات بھر موبائل میں لگا رہتا اور نیند پوری نہ ہونے پر کلاس میں اونگتا رہتا۔
ہوش تو اسے جب آیا جب امتحان سر پر آ گئے۔کچھ نکمے دوستوں کے مشوروں پر اس نے نقل کرنے کا سوچا اور مطمئن ہو گیا جیسے تیسے پیپر دیئے آج سائنس کا آخری پیپر تھا اس نے رات ہی نقل کے لئے پیپرز تیار کیے ہوئے تھے۔کلاس میں پیپر شروع ہوتے ہی اس نے نقل کے لئے پیپر نکالا مگر سرخالد کی نظر اس پر پڑ گئی جو اس وقت راؤنڈ پر آئے ہوئے تھے۔انہوں نے شان کو باہر نکالا اور پھر تمام پیپرز کی تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ سب پیپرز نقل سے کیے گئے ہیں۔ انہوں نے فوراشان کے والد کو بلا بھیجا جو اس وقت ڈیوٹی کے لئے نکل رہے تھے۔جبران صاحب حیران و پریشان سر خالد کے آفس پہنچے جہاں جبران شرمندہ سا پہلے ہی موجود تھا۔ساری بات معلوم ہونے کے بعد وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔سر خالد نے کہا کہ ہم نے بارہا آپ کو لیٹر کے ذریعے بلوایا ڈائری کے ذریعے وارننگ دی مگر آپ نہیں آئے یہ تو ہونا ہی تھا۔
مگررر۔۔آپ نے کب۔۔۔۔۔جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ شان کی طرف دیکھنے لگے اور ساری بات سمجھ گئے اور سر جھکائے سر خالد کی باتیں سنتے رہے۔
گھر آکر وہ کسی سے بات کیئے بنااپنے کمرے میں چلے گئے تمام گھر والے بھی اس سے ناراض تھے۔اب اسے دوبارہ اسی کلاس میں پڑھنا تھا شرمندگی اور ندامت سے اس کا برا حال تھا اور جب اسے پتہ چلا کہ موبائل کے لئے اس کے والد کو اوورٹائم کرنا پڑا تھا تو اس سے رہا نہیں گیا اور وہ اپنے والد کے قدموں بیٹھ کر رونے لگا اور بولا سوری ابو۔۔مجھے معاف کر دیں میں بہک گیا تھا اب میں موبائل کے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا اور موبائل نکال کر ان کے آگے رکھ دیا جبران صاحب کا دل بھی پسیج گیا اور شان کو گلے سے لگایا اور بولے بیٹا ہر چیز کی زیادتی اور کمی نقصان کا باعث ہوتی ہے
یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔اگر فائدے کے لئے اسے استعمال کرو گے تو یقینا فائدہ دے گی۔
ابو میں وعدہ کرتا ہوں میں بلا ضرورت کسی بھی چیز کا استعمال نہیں کروں گا
اور اب آپ دیکھئے گا میں دوبارہ محنت کرکے کلاس میں اپنا کھویا ہوا مقام بناؤں گا۔۔شاباش میرے بیٹے شاباش ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ علم سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی اور دولت نہیں۔۔جی ابو میں سمجھ چکا ہوں میں یہ دولت حاصل کرکے رہوں گا۔انشائاللّٰہ ابو بولے۔۔۔۔

مداری

اشرف طالب

شہر میں اک مداری آیا ہے
بھالو بندر بھی ساتھ لایا ہے
خستہ حالی سے ایسا لگتا ہے
بھوک افلاس کا ستایا ہے
ڈگڈگی جب بھی وہ بجاتاہے
ناچ بندر کا دیکھنے کے لیے
ریلہ بچوں کا دوڑا آتا ہے
دل کا سچا ہے سچی باتیں ہیں
سوچ میں ڈوبی اس کی راتیں ہیں
چند سکے کسی سے مل جائیں
پھول خوشیوں کے گھر میں کھل جائیں
گھر کا پہیہ چلانے کی خاطر
بھوکے بچوں کے پیٹ کی خاطر
سو طرح کے جتن وہ کرتا ہے
روز جیتا ہے روز مرتا ہے
مستقل ڈگڈگی بجاتا ہے
زندگی اپنی وہ جلاتا ہے
حاکم وقت جانتا ہی نہیں
لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں
کیسے جیتے ہیں کیسے مرتے ہیں
کیا ہے غربت اسے نہیں معلوم
کیا ہے عزت اسے نہیں معلوم
وہ تورہتا ہے اپنی مستی میں
یعنی خود آپ اپنی ہستی میں
ناچ بندر کا دیکھنے کے لیے
بھالو بندر کو چھیڑنے کے لیے
آن پہنچے شراتی بچے
ذہن میں ان کی کچھ شرارت ہے
سوچی سمجھی کوئی حماقت ہے
کوئی روٹی نوالے پھینکے ہے
کوئی پتھر اچھل پھینکے ہے
کوئی کہتا ہے لے تو کھا روٹی
کوئی کہتا ہے تیری ماں موٹی

حصہ