میرے دادا جان

2292

عبید حارث
زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے اور ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ مجھے اپنے دادا کے ساتھ گزارے دن بہت یاد آتے ہیں۔ جب میں چھ سال کا تھا تو دادا جان کا انتقال ہو گیا‘ اس چھوٹی سی عمر کی چند باتیں یاد آتی ہیں۔ وہ ادھوری سے جھلک جو ذہن میں رہ گئی اس کو یاد کرکے دل مسرور ہوتا ہے۔ اکثر وہ لمحات یاد آتے ہیں جب وہ مغرب کے بعد سب بچوں کو جمع کرتے پھر ہم سب کی ایک قطار بناتے‘ چھوٹے بچے کو آگے اور سب سے بڑے کو سب سے پیچھے کھڑا کرتے۔ اس کے بعد وہ اپنے تخت پر بیٹھتے اور ایک ایک کرکے تمام بچوں کو بلاتے جاتے۔ چھوٹے بچے کو آٹھ آنے اور بڑے بچے کو ایک روپیہ دیتے اور پھر ہر ایک کا ماتھا چومتے۔ ایک دن میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ مجھے ایک روپے کا نوٹ کب دیں گے۔ وہ مسکرا کر بولے تم جس دن کلاس میں اوّل آئو گے تو میں تمہیں ایک روپے سے زیادہ دوں گا… یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔
ہمارا گھر بہت بڑا تھا‘ تایا‘ چچا‘ سب ساتھ رہتے تھے اس لیے ہم سب بچے مل کر بہت شور مچاتے تھے‘ اس شور میں اُس وقت اور اضافہ ہو جاتا جب پھوپھیاں بھی اپنے بچوں کے ہمراہ گھر آجاتیں۔ پھر ہم سب بچے مل کر کھیلنا شروع کردیتے۔ دادا کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کبھی امی‘ کبھی پھوپھو تو کبھی تایا ڈانٹ دیتے جس کے بعد سب بچے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے لیکن تھوڑی دیر ہی گزرتی تو دادا سب بچوںکو بلاتے اور پوچھتے کہ کیا ہوا کیوں کھیلنا بند کر دیا۔ پھر ہم بتاتے فلاں نے منع کیا ہے کھیلنے کو‘ وہ ان کو بلاتے اور کہتے کہ ان بچوں کو کھیلنے دو‘ میرا دھیان ان میں بٹا رہتا ہے۔
دادا جان جماعت اسلامی کے رکن تھے اس لیے ہمارے گھر میں درسِ قرآن اور دیگر پروگرام بھی ہوتے تھے‘ وہ بڑوں اور بچوں کو لے کر پروگرام میں بیٹھتے‘ لیکن ہم بچے وہاں گروپ بنا کر کھیلنا شروع کر دیتے۔ مقرر کی آواز سے زیادہ ہماری آواز بلند ہو جاتی تھی۔ جب کوئی مقرر ان سے کہتا کہ ان کو آپ اندر گھر میں بھیج دیں‘ ان کا یہاں کوئی کام نہیں ہے تو وہ کہتے کہ اگر میں نے ان کو آج اندر بھیج دیا تو کل یہ دعوت کا کام نہیں کریں گے۔
دوپہر کو کھانے کا وقت ہوتا تو سب بچوں کو جمع کرتے اگر کوئی اسکول گیا ہوتا تو اس کا انتظار کرتے اور گھر آجانے کے بعد ایک جگہ بیٹھاتے‘ ہمیں اپنے ہاتھ سے سالن نکال کر دیتے‘ کسی کو آدھی تو کسی کو پوری روٹی دیتے اور کہتے کہ جس کو جتنی روٹی دی ہے وہ اسے پوری کھائے۔ ایک دن بھائی کہنے لگے کہ آپ نے مجھے روٹی زیادہ کیوں دی ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگے میں تمہیں پیسے بھی تو زیادہ دیتا ہوں کیوں کہ تم اب بڑے ہو گئے ہو۔
دادا جان ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے اور انہوں نے گھر میں ہی ایک چھوٹا سا کلینک کھول رکھا تھا۔ ان کے کلینک میں ہم سب کزن چلے جاتے اور کہتے کہ ہمیں بھی دوا دو وہ مسکراتے اور ایک جگہ ہم سب کو بیٹھا دیتے۔ کلینک میں ایک بینچ ہم بچوں سے بھر جاتی۔ پھر وہ ہم سب کو میٹھی میٹھی گولیاں دیتے۔ ایک دن میرے ایک بڑے کزن نے مذاق میں کہا ڈاکٹر صاحب مجھے بخار ہے تو دادا مسکرا کر بولے تمہیں ابھی انجکشن لگاتا ہوں۔
زندگی کی آخری ایام میں جب داداجان کی طبیعت بہت خراب ہوئی تو ان کو مقامی اسپتال میں داخل کروایا۔ تایا‘ ابو اور چچا وہیں رہتے جب کوئی گھر آتا تو دادی پوچھتیں کہ اب طبیعت کیسی ہے تو وہ کہتے خراب ہے لیکن وہ بچوں کو بہت یاد کر رہے ہیں۔ ہم سب کزن بار بار ان کے کمرے میں جاتے‘ ان کے تخت پر بیٹھتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ دو‘ تین دن بعد ابو اور چچا ہم سب بچوں کو اسپتال لے کر گئے‘ ایک ایک کرکے ہم سب کو ان کے بستر پر بیٹھاتے۔ دادا جان محبت سے سب کے سروں پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو گر رہی تھے۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ پھر مجھے ان کے پاس سے ہٹا کر دوسرے کزن کو بٹھا دیا گیا۔
ایک دن میں نے دادی سے پوچھا کہ دادا جان ٹھیک ہو کر کب آئیں گے؟ وہ کہنے لگیں ان شاء اللہ بہت جلد صحت یاب ہو کر آئیں گے۔ پھر ساتھ بیٹھا کزن بولا کہ اُن کو گھر بلوا لیں ان کے کلینک میں ہم ان کا علاج کریں گے۔ ہم کو بھی آتا ہی علاج کرنا۔ دوسرا کزن بولا کہ مجھے پتا ہے وہ کس دوا سے ٹھیک ہوں گے۔
عصر کی اذان ہو رہی تھی‘ چچا گھبرائے ہوئے دادی کے پاس آئے اور کچھ کہنے لگے۔ اس کے بعد چچا‘ابو اور تایا اسپتال چلے گئے۔ امی اور چچی دادی کے کمرے میں آگئیں پھر پھوپیاں گھر آئیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ صحن میں موجود فون کی گھنٹی بجی۔ پھوپھو نے فون اٹھایا لیکن وہ رو رہی تھیں اس لیے انہوں نے فون تائی امی کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ابا جی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے…‘‘
پھر سب ہی رونے لگے۔ میری کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اور پھرمیری آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ میں گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کچھ لوگ کھڑے تھے یوں تھوڑی دیر بعد تایا اور ابو بھی آگئے پھر ایمبولینس میں دادا کی میت آئی جسے صحن میں بچھی چارپائی پر رکھ دیا گیا۔
میں نے چچا سے پوچھا کہ دادا کب اٹھیں جس پر مجھے گود میں لے کر وہ سسکیوں سے رونے لگے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ ہمارے دادا بہت ساری اچھی یادیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے‘ آمین۔

حصہ