بزمِ یاران سخن کراچی کا مشاعرہ

526

ڈاکٹر نثار احمد نثار
بزم یارانِ سخن کراچی ایک معروف ادبی تنظیم ہے جو کہ طویل عرصے سے تواتر کے ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے مصروف عمل ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے بزمِ یاران سخن کراچی کے مشاعرے میں اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشاعرے ہوتے رہنے چاہئیں کہ یہ زبان و ادب کے فروغ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ شاعری کے ذریعے ہم لوگوں تک مثبت پیغام پہنچاتے ہیں۔ ہر زمانے میں اربابِ سخن معاشرتی مسائل لکھتے رہے ہیں‘ ادب زندگی سے مربوط ہے‘ فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں کے مقابلے میں شاعری بہت توانا ذریعہ ابلاغ ہے۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ کراچی میں امن وامان بہتر ہونے کے سبب ادبی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں اردو زبان و ادب کی ترقی میں غیر سرکاری ادبی تنظیموں کی خدمات سے انکار ممکن نہیں یہ ادارے اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ادبی تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں نئے نئے مضامین کی شمولیت سے شاعری نکھرتی جارہی ہے آج کے نوجوان شعرا شاعری میں نئے نئے تجربات کر رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تجربہ کامیاب نہیں ہوتا شاعری میں زبان و بیان بہت اہمیت رکھتے ہیں متبدی شعرا کو اساتذہ کے کلام سے استفادہ کرنا چاہیے۔ مہمان اعزازی محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس کو نافذ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اردو کے نفاذ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ہم اپنی اولاد کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں ضرور پڑھائیں لیکن اردو بھی سکھائیں اردو اب عالمی زبان بن چکی ہے انہوں نے مزید کہا کہ شاعری ودیعتِ خداوندی ہے ہر شخص شاعر نہیں بن سکتا شاعر بہت حساس ہوتا ہے وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھتا ہے اور زمینی حقائق بیان کرتا ہے۔ سلمان صدیقی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہر زمانے میں شاعری کے موضوعات تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ ادب برائے زندگی کے فلسفے پر کاربند شعرا کامیاب ہیں اب گل و بلبل کے افسانوں کا زمانہ نہیں ہے انہوں نے مزید کہ اکہ بزمِ یارانِ سخن کے مشاعروں میں ہر مہینے ہم اپنے تمام دوستوں کو مشاعرہ نہیں پڑھوا سکتے اس لیے جن لوگوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے ہم انہیں آئندہ ماہ مشاعرے میں شریک کریں گے۔ مشاعرے کی نظامت یاسر سعید صدیقی نے کی۔ حافظ فہد نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں رونق حیات‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین زاہد‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف‘ سحر تاب رومانی‘ سعد الدین سعد‘ ڈاکٹر اقبال ہاشمانی‘ عارف شیخ عارف‘ حنیف عابد‘ صفدر علی انشاء‘ شاہدہ عروج‘ تنویر سخن اور سہیل احمد شامل تھے۔

ابو ظہبی میں فیروز ناطق خسرو کے اعزاز میں مشاعرہ

ابوظہبی میں برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو کہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں‘ وہاں شعرو سخن کی محفلیں آباد ہیں۔ گزشتہ ہفتے کراچی کے معروف شاعر فیروز ناطق خسرو ابوظہبی گئے جہاں ان کے اعزاز میں استاد شاعر ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی نے عشائیے کا اہتمام کیا بعدازاں ظہورالاسلام جاوید کی صدارت میں شعری نشست سجائی گئی جس میں محمد یعقوب تصور مہمان اعزازی اور فیروز ناطق خسرو مہمان خصوصی تھے۔ احیائے الاسلام بھوجپوری نے نظامت کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ ڈاکٹر صباحب عاصم واسطی‘ مقصود احمد تبسم‘ آصف رشید اسجد‘ شیریں پریشم‘ فرہاد جبریل‘ سلمان احمد‘ ندیم شہزاد‘ احمد رضا اور شاہ زاد حسین الطاف نے کلام پیش کیا۔ صاحب صدر نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ان کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ شاعری ان کے خون میں شامل ہیں‘ ان کے 8 شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے شعری سلسلے کو بڑے انہماک اور پوری ذمے داری سے نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ غزل میں نئے موضوعات بھی تخلیق کیے۔ اپنے جذبات و احساسات کو شعری زبان دی۔ ان کے ہاں غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں بھی نظر آتا ہے ان کے کلام میں پختگی اور نکھار ہے۔ تلمیحی اور اساطیری انداز بھی ان کے ہاں خوب ملتا ہے۔ ان کے اشعار میں تنوع پسندی اور تمثیل نگاری بہ درجہ اتم موجود ہے۔ میزبان مشاعرہ نے کہا کہ ہم ابوظہبی میں اردو کے سفیر ہیں ہم مشاعرے‘ مذاکرے اور تنقیدی نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ زبان و ادب فروغ پائیں۔ صاحب اعزاز نے کہا کہ وہ ابوظہبی میں آکر بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں میں آج کی شعری نشست سے بہت متاثر ہوں آج بہت اچھی شاعرعی سننے کو ملی ہے۔ عرب امارات میں اردو زبان آپ حضرات کے ذریعے پھیل رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو مزید عزت و شہرت پائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہماری تہذیب کے آئنہ دار ہوتے ہیں ہم اس ادارے کے ذریعے بھی اپنی علمی و ادبی روایات کا پرچار کرتے ہیں۔

احبابِ اہلِ ادب کی ہفتہ وار نشست

معروف شاعر صفدر صدیق رضی تواتر کے ساتھ دستر خوان ہوٹل گلستان جوہر‘ بلاک نمبر1 میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کر رہے ہیں۔ حسب معمول گزشتہ جمعہ کی شب 9 بجے سے ڈیڑھ بجے تک احبابِ اہل ادب کی بیٹھک جاری رہی اس بیٹھک کا کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں ہوتا دوران گفتگو کسی بھی ادبی موضوع پر بات چیت ہوتی ہے اس مرتبہ موضوعِ گفتگو تھا ’’ابہام تخلیق کی صفت ہے‘‘ اس پر سید راشد عزیز نے کہا کہ ہمارے ادب کا قاری ادب سے اس لیے دور ہو گیا ہے کہ ادبی تخلیقات وضاحت طلب ہوگئی ہیں۔ قاری کو تخلیق کے ابہام سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ تخلیق کا ابلاغ قاری کو تخلیق سے جوڑے رکھتا ہے۔ صفدر صدیق رضی نے کہا کہ ابہام کسی بھی سطح پر ہو یہ عمل تخلیق کار کے لیے Dis-Qualification ہے‘ تخلیق کا اظہار کنایئے اور استعارے میں ہونا چاہیے لیکن اگر آپ غیر مانوس اور ماورائے علم و دانش علامات استعمال کریں گے تو آپ ہی اپنی تخلیق کے قاری ہو سکتے ہیں‘ آپ کو قارئین میسر نہیں آئیںگے۔ زاہد حسین زاہد نے کہا کہ ابہام ایک صفت ہے یہ ہماری کلاسک انداز داستانوں سے لے کر آج تک افسانوں میں موجود ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا اگر کوئی تحریر بالکل واضح اور کھلی ہوئی ہو تو اس کا حسن اور تہ داری باقی نہیں رہے گی۔ ناصر شمسی نے کہا کہ میں ذاتی طور پر تخلیق کے مکمل اور اکنانِ ابلاغ کا طرف دار ہوں‘ قلمکارکو حق نہیں کہ وہ قارئین کے لیے مشکل پیدا کرے۔ شاداب احسانی نے کہا کہ اچھی تخلیق کی پہچان یہ ہے کہ وہ تہ دار ہو اور بالکل سپاٹ نہ ہو۔ کنایئے اور استعارات کا حسین امتزاج ہو۔ تخلیق میں ابہام اس قدر ہو کہ ہر ذی علم اسے سمجھ سکے۔ ثنائع بدائع کی مکمل صورت ہو۔ اس طور پر میں ابہام کو تخلیق کا حسن سمجھتا ہوں۔ اس نشست میں شریک ہونے والوں میں نورالہدیٰ سید شکیل احمد خان‘ احمد امتیاز‘ شاکر انور‘ طارق رئیس‘ کشور عدیل جعفری‘ کاشف علی ہاشمی‘ انیس احمد مرچنٹ‘ شارق شہاب‘ قیوم واثق‘جاوید احمد صدیقی شامل تھے۔

کراچی پریس کلب میں شاعرات کا مشاعرہ

کراچی پریس کلب ادبی سرگرمیوں کا اہم حوالہ ہے۔ 23 مارچ 2019ء کو کراچی پریس کلب میں یومِ پاکستان کے تناظر میں خواتین کا ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت معروف شاعرہ شاہدہ حسن نے کی جو کہ کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں۔ عنبرین حسین عنبر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صدر مشاعرہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں اپنے وطن سے پیار ہے‘ میں یہاں آکر بہت خوشی محسوس کرتی ہوں‘ آج کے مشاعرے کی خاص بات یہ ہے کہ آج خواتین نے کلام سنایا اور مرد حضرات نے سماعت کیا‘ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے اس طرح کے مشاعرے ہوتے رہنے چاہئیں۔ آج کچھ نئی شاعرات نے بھی کلام سنایا انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے جب شاعری شروع کی تھی تب ادبی منظر نامے میں بہت اہم اور قد آور شعرا موجود تھے میں نے ان سے بہت استفادہ کیا۔ لفظوں کی نشست و برخواست کا احترام ہم بزرگ شعرا سے سیکھتے ہیں۔ مشاعرے میں شاہدہ حسن‘ فاطمہ حسن‘ صبیحہ صبا‘ تنویر انجم‘ ریحانی روحی‘ حجاب عباسی‘ پروین حیدر‘ عنبرین حسیب عنبر‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ ریحانہ احسان‘ تبسم صدیقی‘ تنویر انجم‘ سحر علی‘ شاہین برلاس‘ یاسمین یاس‘ سحر حسن‘ افشاں سحر اور گل افشاں شامل تھیں۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے سیکرٹری علاء الدین خان زادہ نے شاعرات میں تحائف پیش کیے۰ کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران نے صدر مشاعرہ کو اجرک پیش کی۔ یہ ایک اچھا مشاعرہ تھا اس میں مرد صحافی حضرات کی خاصی تعداد موجود تھی۔

غزلیں

خالد معین

مرگِ انبوہ پہ مغموم دکھائی دے گا
آئینہ عکس سے محروم دکھائی دے گا
کھیل کا رنگ بھی‘ رفتار بھی یہ کہتی ہے
وہ جو موجود ہے معدوم دکھائی دے گا
صرف چہرے ہی نہیں شہر کی دیوار بھی پڑھ
تجھ کو چُپ کا نیا مفہوم دکھائی دے گا
مجھ کو بھی وقت کی آندھی میں سمٹنا ہے ابھی
تُو بھی کل نقطہِ موہوم دکھائی دے گا
کب وہ آئے گا سرِ بام نظارہ کرنے
اوج پر کہ مرا مقسوم دکھائی دے گا
نوچ کر پھینکنا ہوں گے سبھی چہروں کے نقاب
ورنہ قاتل تمہیں معصوم دکھائی دے گا

مجاز دہلوی

سکوں پذیر جہاں کا نظام ہو تو سہی
جنوںِ آگہی ذات عام ہو تو سہی
ہے میکدے کے سنورنے میں دیر کیا ساقی
قمر بدست و ثریا بجام ہو تو سہی
نگاہِ شوق نے لاکھوں ہی بُت بنا ڈالے
تجلیات کا کچھ اہتمام ہو تو سہی
ادا کروں تری بخشش کا شکریہ اے دوست
فسانۂ نعمِ ہستی تمام ہو تو سہی
غرورِ حسن کو رخصت عطا ہو جلوئوں کی
مٹ گئی‘ مٹ کے رہے گی خلش تجسس کی
امیرِ قافلہ کچھ تیز گام ہو تو سہی
کٹیں گی بندگی و خواجگی کی زنجیریں
بنائے صدق پہ قائم نظام ہو تو سہی
خزاں کے ساتھ ہی فصلِ بہار آئے گی
سرشکِ خوں سے چمن لالہ فام ہو تو سہی
مجازؔ کار گہۂ کفر کی حقیقت کیا
دلوں میں ولولۂ انتقام ہو تو سہی

حصہ