امت کی خستہ حالی

332

نگہت پروین
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو تخلیق کیا‘ اس دنیا کو سجایا‘ بنایا اپنے بندوں کے لیے پھر اس نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بھیجا اور خاتم النبین کی امت کو ذوالجلال و الاکرام نے ’’مسلم‘‘ نام دیا اور اس امت کو قرآن میں ’’امت وسط‘‘ قرار دیا مگر آج اس امت کی بدحالی قابل دید ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا خوف دل سے ختم ہوتا جارہا ہے‘ جواب دہی کا یقین ختم ہوتا جارہا ہے۔ قرآن‘ جو منبع ہدایت ہے‘ جزدانوں میں لپیٹ کر رکھ دیے گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر رسولؐ کی پیروی چھوڑ چکے ہیں۔ اس رسولؐ کی پیروی کو جس نے اس دین اسلام کے قیام کے لیے جہاد کیا‘ ہجرت کی‘ عبادت کی اور اسی دنیا میں مدینہ کو اسلامی ریاست بنا کر دکھا دیا۔ کہنے کو تو امت محمدیہ ہے مگر رسولؐ کی پیروی کا شائبہ تک نہیں۔
امت اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھول گئی۔ امت محمدیہ ہونے کا شرف حاصل کیا مگر جس امت کو یہ شرف ملا ‘ وہ اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود اللہ کا شکر گزار بننے کے بجائے اس کی نافرمانی میں لگی ہوئی ہے۔ امت کی اس خرابی کی ایک وجہ والدین کی عدم توجہی بھی ہے انہیں پروا ہی نہیں کہ ان کی اولاد کس راہ پر چلی رہی ہے ‘ کس کو اپنی منزل بنا لیا ہے۔ والدین اگر اپنی اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت کریں تو یہی اولاد اس کے لیے صدقہ جاریہ بنے گی۔
امت کی خرابی ایک اور وجہ تعلیم کی کمی ہے‘ ملک میں تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ غریب کی تو استطاعت سے باہر ہے‘ اس مزید یہ کہ ’’یہود‘‘ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جارہی ہیں جو ہمارے اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔ پھر امت مسلمہ کو حقوق کی پہچان نہیں رہی۔ حقوق ادا کرنے کی کی فکر نہیں اگر حقوق و فرائض میں توازن ہوتا تو معاشرہ بھی صالح ہوتا اور ایک دوسرے کے مسائل مل بانٹ کر حل کرنے والے ہوتے۔
اس کے علاوہ ہماری قوم میں وقت کا ضیاع بھی بہت عام ہے‘ اپنا زیادہ تر وقت ٹی وی میں بے حیائی کے اخلاق سوز پروگراموں میں ضائع کر دیتی ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کو اپنے سحر میںجکڑ رکھا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس جدید دور نے اخلاقیات کے تمام حدود پار کروا دیے ہیں۔ کیا بچہ‘ کیا جوان سب موبائل اورانٹرنیٹ میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے معصوم بچی زینب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ عزت کی پامالی‘ افلاس کے نتیجے میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ان تمام برائیوں کا ذمے دار حکومتی نظام ہے‘ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے‘ حکومتی سرپرستی میں شراب اور منشیات فروشی عام ہے‘ دین کو سر بلند کرنے کے بجائے امریکی اشاروں پر مساجد اور مدارس پر پابندیاں لگا رہے ہیں‘ اسلام کے پانچویں اہم رکن حج کو بہت مہنگا کر دیا گیا‘ جعلی ادویہ کے ذریعے لوگوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں میں روزانہ صبح ترجمے کے ساتھ قرآن کلاس شروع کی جائے تاکہ بچوں کو اس کا علم ہو کہ ہماری صبح اللہ کے پاک نام سے ہوتی ہے اور اب ہمارا ہر عمل اس معبود کے تابع ہونا چاہیے۔
ٹی وی کی نشریات میں ’’خاندان بنائو‘‘ کے بہترین اصول بتائے جائیں تاکہ مسلم معاشرے سے خاندانی نظام کے خاتمے کا یہودی منصوبہ خاک میں مل سکے۔ تعلیم کو سستا کیا جائے۔ غریب عوام کو خصوصی توجہ اور اہمیت دیتے ہوئے پالیسیاں بنائی جائیں۔والدین اپنے اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں‘ ان کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور قرآن سے قریب کریں۔ حکومتی سطح پر اسلامی کلاسیں لیکچرز وغیرہ کا انتظام ہو تاکہ عوام صحیح عقلی شعور کے ساتھ زندگی گزاریں۔اللہ سے دعا کہ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور امت محمدیہ کی حفاظت اور عافیت فرمائے اور اس امت کو سیدھی سچی راہ پر گامزن کر دے‘ آمین۔

حصہ