عروس البلاد میں اسٹریٹ کرائم کا آسیب

556

قدسیہ ملک
وہ گھر آئیں تو تھوڑی پریشان تھیں۔ وہ اپنی وجہ سے پریشان نہیں تھیں، کیونکہ وہ متعدد مرتبہ اس محاذ سے نبرد آزما ہوچکی تھیں۔ وہ کبھی بھی اپنے مال کے غم سے زیادہ پریشان نہیں ہوئیں۔ وہ ہمیشہ یہی کہتی ہیں: یہ تحریک میرا اثاثہ ہے، اس کی تربیت کی وجہ سے کبھی مجھے اپنے مال کا کوئی غم نہیں ہوا۔ وہ تو تب بھی پریشان نہیں ہوئی تھیں جب ان کے گھر پر آکر، ان کے بچے کے سر پر دو ڈکیت میاں بیوی نے اسلحہ رکھ کر ان کے سارے زیور اتروا لیے تھے، حالانکہ وہ زکوٰۃ کی مد میں ہمیشہ اضافی رقم دیا کرتی ہیں۔ وہ تو اُس وقت بھی پریشان نہیں ہوئی تھیں جب گھر میں آئی نئی ماسیوں نے ان کے سارے زیورات چوری کیے اور چلتی بنیں۔ بلکہ وہ اپنی گود میں موجود سوا سالہ بچی کی وجہ سے مضطرب تھیں کہ اگر اسے کچھ ہوجاتا تو ان کا کیا ہوتا! فون پر ہی وہ اپنی دونوں سمیں بلاک کروانے کا کہہ چکی تھیں۔ بچے اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے تھے، کیونکہ وہ اپنی ماں کی بہادری سے اچھی طرح واقف تھے، لیکن آج جب وہ گھر آئیں تو محسوس ہوا خلافِ معمول کچھ پریشان ہیں۔ اصل صورتِ حال کا علم تو اُس وقت ہوا جب انہوں نے پوری داستان سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جب مطلوبہ گھر پہنچیں تو گلی کے دونوں جانب سے چار موٹر سائیکل سواروں نے ان کی گاڑی پر ہلہ بول دیا۔ چاروں کے پاس لوڈ اسلحہ موجود تھا، اور وہ قتل کی دھمکیاں دیتے ہوئے مسلسل پرس اور موبائل کا مطالبہ کرتے رہے۔ سوا سال کی بچی گود میں تھی۔ پرس میں خاصی رقم موجود تھی جس کی وجہ سے انہوں نے تھوڑی سی مزاحمت کی، لیکن ان ڈاکوؤں کے اسلحہ کے آگے وہ مزاحمت کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ آخرکار ڈیڑھ لاکھ روپے، 2000 سعودی ریال، چار موبائل، دو پاسپورٹ اور دو شناختی کارڈ ڈاکوؤں کے ہاتھ لگے۔ پولیس کو تھانے میں جاکر رپورٹ لکھوائی اور موبائل پر فوری اطلاع دے دی گئی، لیکن پولیس نے کچی رپورٹ پر ہی اکتفا کیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں ڈاکوئوں کی وارداتیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں، ایک طرف سندھ حکومت اور دوسری طرف محکمہ پولیس کی طرف سے بیانات جاری کیے جارہے ہیں۔ گلشنِ اقبال میں گاڑی میں سوار شہریوں کو ڈکیتوں نے لوٹ لیا، موٹر سائیکل سوار اسٹریٹ کرمنلز نے گاڑی کو روک کر واردات کی اور بہ آسانی نکل گئے۔ اسٹریٹ کرمنلز نے صفورہ گوٹھ میں بھی دیدہ دلیری سے واردات کی، صفورہ گوٹھ شاہراہ پر کھڑے نوجوانوں کو بھی لوٹ لیا گیا، ڈکیت موٹر سائیکل پر سوار آئے اور واردات کرکے بھاگ گئے۔ وارداتوں کے دوران ڈکیتوں نے شہریوں کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون اور دیگر سامان چھینا۔ نیوکراچی میں بھی ملزمان دودھ کی دکان میں لوٹ مار کرکے فرار ہوئے۔
دہشت گرد ایک بار پھر کراچی کا امن تباہ کرنے کی سازشوں میں لگ گئے۔ نیپا چورنگی پر دارالعلوم کراچی کی دو گاڑیوں پر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کردی۔ ممتاز عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی اس قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، ان کے ہمراہ اہلیہ اور دو پوتے بھی تھے۔ واقعے میں دو سیکورٹی گارڈ شہید ہوگئے، جبکہ بیت المکرم مسجد کے خطیب مولانا عامر شہاب اور مفتی تقی عثمانی کا ڈرائیور زخمی ہوا۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کہتے ہیں کہ دشمنوں کو کراچی کا امن کھٹک رہا ہے۔
اردو نیوز کے صحافی توصیف رضی ملک کے مطابق دنیا کے بڑے شہروں میں جرائم کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل کرائم انڈیکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کی وجہ سے کراچی کی رینکنگ بہتر ہوکر 61 ہوگئی ہے، جبکہ 2014ء میں کراچی کا چھٹا نمبر تھا۔ 2014ء میں کراچی میں جرائم کی شرح 81.34 تھی جو 2019ء تک کم ہوکر58.43 ہوگئی ہے۔ یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے کراچی میں اسپیئر پارٹس ڈیلر ارشد سلام غوری سے بات کی، انہوں نے بتایا کہ کراچی میں دہشت گردی اور جرائم کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد صورت حال میں بہت بہتری آئی ہے۔ صحافی اور سوشل ایکٹیوسٹ رمشا جہانگیر نے بھی شہر میں سیکورٹی حالات کو پہلے کی نسبت بہتر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کا انعقاد امن کی دلیل ہے، اور اس کے علاوہ بھی شہر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور شہری خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے پولیس کے محکمے کو بھی زیادہ فعال اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے وعدے کیے گئے تھے، لیکن اس شعبے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس کی ایک مثال سال 2018ء میں جاری کردہ پولیس رپورٹ ہے جس کے مطابق شہر میں قتل و غارت گری اور اغوا برائے تاوان میں کمی آئی، لیکن اسٹریٹ کرائمز ایک چیلنج ہے۔ پولیس ڈیٹا کے مطابق گزشتہ برس اسٹریٹ کرائمز میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ہوا۔
لندن میں قائم سیکورٹی فرم سی ٹی ڈی ایڈوائزر (CTD Advisors) نے کراچی میں امن و امان کی موجودہ صورت حال پہ اطمینان کا اظہار کیا ہے، فرم سے وابستہ سیکورٹی کنسلٹنٹ نے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کو سراہا، تاہم انہوں نے پولیس کے نظام میں بہتری کی اشد ضرورت کی بھی نشاندہی کی۔ اسٹریٹ کرائمز کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہری روزینہ رشید نے بتایا کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال مبہم سی ہے اور موبائل چوری کے واقعات پھر سے سننے اور دیکھنے میں آرہے ہیں۔
کراچی کے پولیس چیف ڈاکٹر عامر احمد شیخ نے بھی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس مسئلے کو تسلیم کیا اور بتایا کہ اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ کے دارالحکومت کراچی میں جنوری سے دسمبر تک 34 ہزار 188 قیمتی موبائل فونز اور 26 ہزار 972 موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق سٹیزن پولیس لیژن کمیٹی نے جرائم کے ہوشربا اعداد و شمار جاری کردیے۔ سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے 20 دسمبر تک 34 ہزار 188 شہری قیمتی موبائل فونز سے محروم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 20 دسمبر تک 26 ہزار 972 شہریوں کی موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری ہوئیں، اسی عرصے میں 1319 شہری کاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سی پی ایل سی کا کہنا ہے کہ جنوری سے نومبر کے اختتام تک اغوا برائے تاوان کی 8 وارداتیں ہوئیں، بھتہ خوری کی 53 اور بینک ڈکیتی کی 3 وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ مختلف پُرتشدد واقعات میں 297 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی پولیس نے 536 کاریں، 4914 موٹر سائیکلیں اور 1528 موبائل فون ریکور کیے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ پولیس نے شہرِ قائد میں کارروائی کرتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کی دو سو سے زائد وارداتوں میں ملوث تین رکنی گروہ کو گرفتار کیا ہے، ملزمان بااثر سرکاری افسران کے بچے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے تھانہ زمان ٹاؤن کی پولیس نے دو درجن سے زائد اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث تین نوجوانوں کو گرفتار کیا جن کی شناخت عتیق، عدنان اور واصف کے ناموں سے ہوئی۔ ایس ایس پی کورنگی ساجد کے مطابق ملزمان پوش علاقوں میں کارروائیاں کرتے تھے اور انہوں نے سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے درخواستیں بھی دے رکھی تھیں، تینوں نوجوان بااثر سرکاری افسران کے بچے ہیں جنہیں رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بدستور جاری ہیں۔ نمائندہ اے آر وائی نذیر شاہ کے مطابق ملزمان دو سو سے زائد وارداتوں میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف کراچی کے 12 تھانوں میں مقدمات درج کیے جاچکے ہیں، دو ملزمان سرکاری افسران جبکہ ایک نوجوان اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا ہے۔ آئی جی سندھ نے زمان ٹاؤن تھانے کو مذکورہ کارروائی پر شاباش دیتے ہوئے جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کی ہدایت بھی کی۔ واضح رہے کہ شہر قائد میں گزشتہ کئی روز سے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، کراچی کے مختلف علاقوں میں ہونے والی وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئیں۔
ایک تجزیاتی رپورٹ میں کراچی کی آبادی 15 ملین کے قریب بتائی گئی ہے، جبکہ سالانہ شرح پیدائش 4.8 فی صد ہے۔ اگر اس کا قومی شرحِ پیدائش سے موازنہ کیا جائے تو ملکی شرح 3.0 فی صد ہے۔ کراچی میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ وہ ہجرت ہے جو ملک کے چاروں صوبوں سے اس شہر کی جانب جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 35,000 خاندان یا 200,000 افراد ہرسال اس عروس البلاد میں باہر سے آکر آباد ہوتے ہیں، اور اگر یہ تناسب اسی شرح سے بڑھتا رہا تو 2020ء تک شہر کی آبادی 17 ملین تک پہنچ جائے گی۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مہاجرین کی آبادی 55 فی صد، پنجابی 14 فی صد، پشتون 9 فی صد، سندھی 7 فی صد، بلوچ 4 فی صد اور دیگر قومیتیں 12 فی صد کی شرح سے موجود ہیں۔ اقتصادی اور مالی سرگرمیوں کا مرکز کراچی، پاکستان کی معیشت میں 60 فی صد کا حصہ دار ہے۔ یہاں مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP)، اسٹاک ایکس چینج اور قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ہیڈ آفس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بینک، مالیاتی ادارے اور جائداد کی خرید و فروخت کی کمپنیوں کا جال بھی پھیلا ہوا ہے۔ مزید برآں بڑے نشریاتی اداروں کے ہیڈ کوارٹر بھی کراچی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی قومی GDP کا 15 فی صد حصہ مہیا کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 42 فی صد اور وفاقی حکومت کا کُل 25 فی صد محصول ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے صنعتی منصوبے بھی رات دن کام کررہے ہیں جن میں سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (SITE) قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل، کیمیکل، اسٹیل اور مشینری سے لے کر بے شمار دوسری پیدوار شامل ہیں۔ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے کراچی سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے جنت ہے۔ یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ اگلی دہائی میں کراچی ملک کے بڑے صنعتی اور کمرشل سینٹر میں تبدیل ہوکر امن اور استحکام کے لیے بنیادی کردار ادا کرے گا۔
کراچی جو عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، غریبوں کی ماں کا لقب پاتا تھا اس شہرِ قائد میں اسٹریٹ کرائمز کے عفریت پر قابو پانا نہ صرف حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی کڑی نگرانی اور احتساب کی ضرورت ہے، تاکہ لوٹ مار کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے پر قابو پایا جاسکے، تاکہ کراچی شہر کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہوسکیں۔

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی

حصہ