۔”تلاش”۔

427

قاضی مظہر الدین طارق
رات گہری ہوتی جارہی تھی ، مگر جدھر دیکھو ہر سَمت دن کا سما تھا ، آسمان رنگ برنگی روشنیوں سے منور تھا ۔ زمین پر انسانیت آگ اور خون میں نہا رہی تھی ۔ ایٹمی جنگ اختتام کو پہنچ رہی تھی ، اس کے ساتھ ہی نباتات اور حیوانات انسان سمیت سب اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہی تھی ، مشرق و مغرب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جنون میں غرق تھے ، اِسلح چلانے والے کوئی نہیںبچے تھے ، پھر بھی اَوٹومیٹک مزائیلیں دونوں طرف سے اپنے آپ چل رہی تھیں ۔
فضاء میں آکسیجن بہت کم رہ گئی تھی اور آسمان زہریلی گیسوں سے اَٹ گیا تھا، زمین پر نباتات اور حیوانات دم توڑ رہے تھے ۔ سمندر ایٹمی فضلات سے پُر تھا ، اورسطح سمندر پر سمندری حیات کے لاشے ہی لاشے تیر رہے تھے ، زمین زندگی کے قابل نہیں رہی تھی ، سمندر کی امیق گہرائیوں میں تھے شاہد ہی کچھ محفوظ و مامون تھے ۔
………………
ایسے میں چند لوگ زندگی تلاش میں تَن مَن دَھن سے مصروف تھے ۔ یہ لوگ ایک اَیٹمی آبدوز میں سوار گہرے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے ، منفی استعمال سے جس ایٹمی طاقت نے زمین کو زندگی کے قابل نہیںچھوڑا،یہی طاقت ، مثبت استعمال سے زندگی کو بچارہی تھی۔
………………
یہ آبدوز،اپنے سارے اَیٹمی میزائیلیںاستعمال کر چکا تھا، جب یہ سطح سمندر پر آیاتو دیکھا کہ فضاء بھی آلودہ ہے اس میں سانس بھی نہیں لی جا سکتی ، باہر تو موت ہی موت تھی ، اندر بھی زندگی کا ایک موحوم سا امکان ہی باقی تھا ۔
………………
رات مزید گہری ہو تی جا رہی تھی ، خود سے پھٹنے والے میزائیلوںکی روشنیاں بھی ماند پڑتی جا رہی تھیں ، ہر جانب اندھیرا ہی اندھیرا ہو چلا تھا ، سورج طلوع ہونے لگا ، لیکن پھر بھی زمین پر اندھیرا ہی اندھیراتھا ، کیوںکہ آسمان کوسیاہ بادلوںنے گھیر رکھا تھا ، کاربن ڈائی
آ کسائیڈ کی زیادتی سے گرین ہاؤزاَیفکٹ بھی بڑھ گیا جس کے نتیجے میں گرمی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔
………………
اَیٹمی طاقت کے مثبت استعمال کی وجہ سے آبدوز میں ایندھن کی کمی کا اِمکان بہت دور تھا ، البتہ کھانا پینا اور آکسیجن کی کمی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے ۔
آبدوز کے سب سے اوپر کی منزل میں آلو پیاز اور پالک اُگائی گئی ۔ تاکہ غذا اور آکسیجن کی قلّت نہ ہوجائے ۔
………………
زمین تو ہر قسم کی نباتات کے لئے بنجر ہو چکی تھی ، فضاء بھی سانس لینے کے قابل نہیں رہی ، پانی بھی مکمل آلودہ ہو چکا تھا ۔ حیران و پریشان تھے ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جائیں تو جائیں کہاں ۔
………………
انہوں نے خیال کیا قطبَین پر شائد آلودگی کچھ کم ہو ، مگر وہاں کی سردی بھی توجان لیوا ہوگی، پھر بھی زندگی کی ایک آس تھی، سو انہوں نے آبدوز کا رُخ قطب جنوبی کی طرف کر دیا ۔
………………
شائد کہ ربِ کریم نے ان سے رحم کا معاملہ کر نے کا فیصلہ کر لیا تھا ، یہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ گرمی سے برف پگھل رہی تھی ، زر خیر زمین نکل آنے لگی تھی ، برف پگھل کر صاف شفاف پانی کے ندی نالے بہہ رہے تھے ۔
………………
یہ دیکھ کر سب سجدۂ شکر بجا لائے ۔ پھر یہ کیا کہ جتنے بھی نباتات کے بیج ان کے پاس مُیسّرتھے ، اُن کو اللہ کا نام لے کر زمین کے حوالہ کیا ، یہ اُس کا ہی کرم تھا کہ سب پودے نکل آئے،دیکھتے ہی دیکھتے کچھ درخت بھی بلند ہو گئے ، ان میں سے ایک سُہاجنہ بھی تھاجس کے پتے ، پھول اور پھلیاں سب کھائی جا رہی تھیں اور غذا کی کمی پوری کر رہی تھی۔
………………
پھر اچانک زبردست بارشیں شروع ہوگئیں ، برِاعظم قطب جنوبی پانی میں ڈوبنے لگا ، سب نے بھاگ کر آبدوز میں پناہ لی ، مگر اتنا موقعہ مل گیا کہ جانوروں اور فصلوں میں سے بہت کچھ آبدوز میں محفوظ کر سکے تھے ۔
………………
جدھر جائیں زبردست بارشوں سے پانی ہی پانی تھا ، لگ رہا تھا کہ پوری زمین ہی پانی میں ڈوب گئی،چند پرندوں کو بھیجا کہ پتہ لگائیں کہیں خشک زمین مل جائے ، سب تو واپس بھی نہیں آئے ، جو آئے مایوس لَوٹ آئے۔
………………
یہ بھی رحمتوں بھری بارش تھی، پروردگار کی جانب سے ، اِن بارشوں کا ایک اورفائدہ یہ ہوا آسمان کسی حد تک صاف ہو گیا ، سورج کی روشنی زمین پر پڑنے لگی ، دوسرا یہ ہوا کہ زمین پر اَیٹمی جنگ کے تابکاری اثرات سے بھی پاک ہونے لگی ، پھر یہ لوگ زندگی کی تلاش میں سر گرداں ہو گئے ۔
………………
مگر چین کہاں آرام کہاں؟وہ پانی میں تھے کہ اُوپر برف جم گئی اور وہ قید ہو گئے،ساری زمین برف سے ڈھک گئی تھی ۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا کہ کتنے دن گزر گئے۔
………………
نہ جانے اِن جیسے اِس آفت بچ جانے والے زمین پر کتنے اور تھے ، مگر جتنے بھی تھے بڑی محدود تعداد میں تھے۔
………………
جیسے تیسے اَیٹمی توانائی کے مثبت استعمال کر کے ہی اِن کی آبدوز نے اُوپر کی برف پگھلائی اور باہر نکلنے کا راستہ بنایا۔
………………
جہاں جہاں اَیٹم بم گرے تھے وہ سمندر بن گئے تھے،نہ وہ برِ اعظم باقی تھے،نہ وہ پہاڑ،نہ دریا سب کچھ بدل گیا تھا،زمین کا نقشہ مکمل طور پرتبدیل ہو گیا تھا، سڑکوں ، ریلوے،بجلی،پانی فراہمی اورنکاسی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا ، خدا کی قدرت دیکھئے کہ اَیٹمی تابکاری سے نباتات کے تخم محوظ تھے۔
………………
پھر زندگی مسکرانے لگی تھی ، آہستہ آہستہ زمین سبز ہو نے لگی،انسان نے یہ سبق سیکھ لیا تھا،کہ ہم نہ اپنی مرضی پیدا ہوسکتے ہیں،نہ مر سکتے ہیں ۔ نہ ہمارے پاس کوئی اختیار ہے کہ کس ملک میں پیدا ہوں،کونسی زبان بولنے والے ہوں،کیسی رنگت لے کر اس زمین پر وارد ہوں اور ہمارے اندر کونسی صلاحیت وَدیعت کی گئی ہے۔
………………
یہ تو خالص خالقِ کُل کائنات کا اِختیار ہے، جب انسان کواس دنیا میں آنے، رنگ ، نسل،زبان اور ملک کا اپنی مرضی سے منتخب کر نے کا کوئی اِختیار ہی نہیں تو ہم عطا کرنے والے کی دَین پر ؛ کیوں کر اترائیں ،کیوں کر فخر کریں ، کیوں کر کسی کو کمتر سمجھیں،خود کو اعلیٰ خیال کریں ، کیوں کر کسی سے لڑیں ، اور کیوں کر کسی کو غلام بنائیں یا قتل کریں ؟
اُس نے پندرہ سو سال پہلے کہہ دیا تھا؛
’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ‘‘ (۱۳:۴۹)
In God’s eyes the most honoured of are the ones most mindful of Him :

انسانی دماغ میں نئے خلیات کی تشکیل

اسپین: سائنسدانوں نے 43 سے 87 سال تک کی عمر کے لوگوں کے دماغ کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ ہرعمر بلکہ بڑھاپے تک بھی نئے دماغی خلیات ’نیورونز‘ کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ اس سے یہ مفروضہ بھی مضبوط ہوا ہے کہ بالغ افراد دماغی چوٹ یا حادثے کے بعد دوبارہ ٹھیک ہوسکتے ہیں اور ان کی بحالی کی شرح بلند ہوسکتی ہے۔
اگرچہ پوری زندگی نئے خلیات اور بافتیں تشکیل پاتی رہتی ہیں لیکن دماغی ماہرین کا خیال تھا کہ عمررسیدگی میں نئے عصبی خلیات یا نیورونز بننا بند ہوجاتے ہیں۔ تاہم اسپین میں سیویرو اوکوا مالیکیولر بائیالوجی سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر ماریہ لورینز مارٹن نے 13 ایسے افراد کے دماغوں کا مطالعہ کیا جو اس دنیا سے گزرچکے تھے۔ ان افرد کی عمریں 43 سے 87 برس تک تھیں۔ ماہرین نے احتیاط سے ان دماغوں کو دیکھا اور ان میں نئے خلیات کے بننے کا جائزہ لیا۔
مطالعے میں دماغ کے ایک اہم حصے ’’ہپوکیمپس‘‘ کا جائزہ بھی لیا گیا جہاں نئے خلیات جنم لیتے ہیں۔ ماہرین نے نیورون بنانے والے پروٹین کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پروٹین بھی بن رہے ہیں اور دماغ میں ہزاروں نئے خلیات بننے کا عمل بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ نیورون کئی اشکال اور جسامت کے تھے اور بعض بڑھوتری کے درجے سے گزررہے تھے۔
ماہرین نئے دماغی خلیات کی تشکیل کو ’’نیوروجنیسس‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ڈاکٹر ماریہ کے مطابق ان کی ٹیم نے بوڑھے افراد کے دماغوں میں بھی نئے خلیات بنتے ہوئے دیکھے ہیں۔ اس سے قبل یہ دریافت کیا جاچکا ہے کہ 90 سالہ افراد بھی نئی یادداشتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ان میں نئے ِخلیات بنتے رہتے ہیں۔
تاہم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والے دماغ کے ایک اور ماہر، آرتورو ایلواریز بائلیا اس تحقیق کے نتائج سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ افراد کے دماغوں میں خلیات پہلے سے موجود ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آخر وقت تک بن رہے تھے۔ انسانی دماغ میں نئے خلیات کی تشکیل کو ناپنے والا اب تک کوئی طریقہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس لیے مزید تحقیق تک اس مفروضے کو ماننا مشکل ہوگا۔

نسخہ ہائی بلڈپریشر

ہائی بلڈ پریشر کوئی خاص مسئلہ نہیں اس سے بالکل گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ زندگی کو ایک خاص نہج پر لا کر اور تھوڑا سا باقاعدہ بنا کر ہائی بلڈ پریشر پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کریں اور بلڈ پریشر اور بعض دوسری بیماریوں سے بچیں۔
باقاعدہ نماز کی اہمیت
پریکٹس میں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ جو لوگ اللہ پر پورا یقین رکھتے ہیں اور دن میں پانچ بار خضوع و خشوع سے اس کی بارگاہ میں جھکتے ہیں، وہ کبھی ذہنی تناؤ یا دباؤ کا شکار نہیں ہوتے اور ان کا بلڈ پریشر بھی کنٹرول رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیاوی و اخروی نجات کے لیے اللہ پر بھروسہ کریں اور پنج وقتہ نماز کے فرض کی ادائیگی اور پابندی کو معمول زندگی بنائیں۔

حصہ