نعرۂ آزادئ یا بربادئ نسواں

388

افروز عنایت
۔28 مارچ کو جماعت اسلامی کی طرف سے دینی محفل میں شرکت کا موقع ملا۔ موضوعِ بیاں مولانا مودودیؒ صاحب کے کتابچہ ’’ہدایت‘‘ کو منتخب کیا گیا تھا۔ شرکائے محفل (خواتین) کو بھی اظہارِ خیال اور تبادلۂ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ ایسی محافل میں شرکت کرکے انسان ضرور کچھ نہ کچھ حاصل کرکے ہی اٹھتا ہے۔ اور ہر اچھی بات حاصل کرنا، اس پر عمل کرنا اور آگے پہنچانا اہلِ محفل کا فرض ہے۔ اس کتابچہ کا آخری نقطہ (پوائنٹ) خواتین سے متعلق تھا جس پر ہم چند خواتین نے بھی اظہارِ خیال کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ یقیناً خواتین ہر بات پر نہ سہی‘ کسی ایک نصیحت پر ضرور عمل پیرا ہوں گی تاکہ ان کا گھرانہ منور ہوپائے، کیونکہ اپنے گھر کو روشن و منور کرنا ہی ایک عورت کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری صرف بچوں کی دیکھ بھال، یا کھانا بنانا ہی نہیں، بلکہ کچھ اور بھی ہے۔ احکاماتِ الٰہی کی پیروی ہی دراصل مسلمان عورت کی تمام ذمہ داریوں اور فرائض کی تکمیل ہے، یعنی وہ رب کے احکامات کے مطابق اپنے تمام فرائض کی ادائیگی کی پابند ہے، جس کی وجہ سے اُس کی زمین کی کائنات یعنی اُس کا خاندان اُس کے لیے خوش بختی کی علامت بن سکتا ہے اور آخرت بھی سنور سکتی ہے۔ اس کا عمل، طریقہ کار، رویہ اس کے گھرانے کی عاقبت بھی سنوار سکتا ہے۔ بحیثیت ماں اس کی تربیت اس کے بچوں کے لباس، طریقہ عمل اور رہن سہن سے واضح ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل کا روپ دھار سکتی ہے۔ بحیثیت بیوی وہ شوہر کی زندگی میں بھی چراغ جلانے کے قابل ہوسکتی ہے۔ میرے آس پاس بہت سی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں کی زندگی میں بھی جو دین سے بہرہ تھے، ایمان کی روشنی بکھیری ہے۔ ہر روپ میں وہ مثبت رویوں، اپنے عمل، حسنِ اخلاق اور نفاست کی بدولت اپنے آس پاس روشنی کرسکتی ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ، آج ہمارے آس پاس مغربیت اور یہود و نصاریٰ کی تقلید میں عورت اپنے حقیقی منصب کو فراموش کربیٹھی ہے۔ تاریخِ اسلام کی محترم ہستیوں یعنی امہات المومنین اور صحابیات کے بجائے ذرائع ابلاغ مغربی عورت کو رول ماڈل بناکر اس کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ آزادیٔ نسواں کا نعرہ بلند کرکے عورت اپنے اصلی منصب اور تقدس کو کھو رہی ہے۔ ان سطور کو رقم کرتے ہوئے میرے ذہن کے دریچوں سے حضرت فاطمہؓ کا عکس نظر آرہا ہے۔ سردارانِ جنت کی والدہ، رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِ نظر، حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ کردار و عمل، سادگی اور شرم و حیا کا مجسم پیکر ایسی ہستی ہیں جن کے بارے میں ہم مسلمان خواتین بخوبی جانتی ہیں کہ کسمپرسی کی حالت میں بھی شکر و صبر کی تسبیح لبوں پر اور پیشانی رب کے حضور سجدے میں۔ سبحان اللہ۔ اگلی تصویر ہے اماں خدیجہؓ کی۔ عرب کی مالدار، طاہرہ… جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شامل ہوئیں تو آپؐ کی معاونِ خاص ثابت ہوئیں۔ اپنا مال و دولت، اپنا تمام وقت اسلام اور آپؐ کے واسطے نچھاور کردیا۔ بعثت کے بعد انتہائی نازک اور تکلیف دہ حالات تھے، ان حالات میں جس طرح اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی دلجوئی کی اُس کا تمام ذکر ہمیں کتبِ اسلامی میں ملتا ہے۔ میرے ذہن کے کینوس پر تصویریں سرکتی جارہی ہیں۔ کس کس کا نام لوں۔ سبحان اللہ یہ تمام خواتین، صحابیات، امہات المومنین جن کی شرم و حیا، پاکیزگی، سخاوت کا کوئی ثانی نہیں۔ دین کی تدوین و ترویج ہو یا گھر داری، بچوں کی تربیت ہو یا شوہر کی خدمت… ہر قدم پر ہم ان کی زندگیوں سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ ان خواتینِ اسلام میں سے کتنی ایسی ہیں جو میدانِ جہاد میں بھی مسلمان مجاہدین کی معاون رہیں اور کارنامے انجام دیے، مثلاً ام عمارہؓ، حضرت صفیہؓ وغیرہ۔
آج نام نہاد لبرلز کا دعویٰ ہے کہ ہم آزادیٔ نسواں کے علَم بردار ہیں، مسلمان عورت کو بھی مقامِِ بلند پر لانا چاہ رہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ یہ مقامِ بلند نہیں بلکہ مقام تباہی و ذلت ہے۔
٭٭٭
قرآن و احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو عورت ذات کو مقدس مقام سے نوازا گیا ہے۔ سب سے بڑے اعزاز و تقدس سے تو اسے ’’ماں‘‘ کے روپ میں نوازا گیا ہے کہ ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔ زمانۂ جاہلیت میں معاشرے کی حقیر ہستی عورت تھی۔ کسی گھر میں بیٹی کی پیدائش کو نحوست اور ذلت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ زندہ درگور کرکے اس ’’نحوست‘‘ سے نجات حاصل کی جاتی تھی۔ مکہ شریف میں مجھے مقبرہ شکبیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ اس جگہ پہنچ کر ہم سب خواتین کی آنکھیں رب کی شکر گزاری سے اشک بار ہوگئیں، دل میں ایک سکون، اطمینان اور فخر محسوس ہوا کہ رب العزت نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا جہاں عورت کو عزت و احترام کا مقام ملا، اس کے حقوق کی پاسداری کی گئی۔ اس کی مکمل ستر پوشی، شرافت اور حیا کو خاندان کے لیے باعثِ فخر قرار دیا گیا۔ رشتے کے ہر روپ میں اسے عزت و تکریم و حقوق سے نوازا گیا۔ نہ صرف اِس دنیا میں مسلمان مومن عورت کا ایک مقام ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے لیے درجے ہیں۔
٭٭٭
سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دی، پھر جس کھجور کو وہ خود کھانا چاہتی تھی اس کے دو ٹکڑے کرکے وہ کھجور بھی بچیوں کو کھلا دی۔ مجھے اس پر بہت تعجب ہوا، میں نے یہ واقعہ آپؐ کو سنایا تو آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے اس (ایثار) کی وجہ سے اس عورت کے لیے جنت کو واجب کردیا‘‘ (صحیح مسلم)۔ سبحان اللہ
اسی طرح حضرت حبان بن ابی جلہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ ’’تحقیق، دنیا کی نیک بخت عورتیں جنت کی حوروں سے ستّر ہزار گنا زیادہ خوبصورت ہوں گی۔‘‘ (سبحان اللہ)
صرف ان دو احادیث سے ہی اندازہ لگائیں کہ دینِ اسلام نے ’’مومن عورت‘‘ کو آخرت کے کتنے اجرو ثواب کی نوید دی ہے۔ لیکن آج کی عورت اپنا محاسبہ کرے کہ کیا اُس کا ہر فعل و عمل اپنے رب کی رضا کا موجب ہے؟ آزادیٔ نسواں کا نعرہ لگانے والی خواتین جس آزادی کی متلاشی ہیں، وہ آزادی مغرب میں عورت کی دھجیاں اڑا چکی ہے۔ دینِ اسلام نے عورت کو عزت کا جو مقام دیا ہے وہ اسے کسی معاشرے میں میسر نہیں۔ قرآن پاک میں رب العزت نے عورت کے تحفظ اور عزت و اکرام کے لیے پورا ایک دستور قیامت تک کے لیے نافذ کردیا ہے۔ کیا اس دستور کی موجودگی میں بھی مسلمان عورت کو اپنے تحفظ و آزادی کے لیے کسی اور دستور کی ضرورت ہے؟ ربِّ کائنات نے عورت کو ذلت کے گڑھوں سے نکال کر گھروں کی ملکہ بنا دیا ہے۔ مرد کو اللہ نے بے شک برتری عطا کی ہے۔ جہاں اُسے عورت کی چادر و چار دیواری کا ضامن و محافظ بنادیا ہے وہیں اس مرد کو عورت کے ساتھ حُسنِ سلوک، پیار و محبت کرنے کی تلقین بھی کی ہے، اس سے نرمی و اخلاق کا رویہ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ دائرۂ اسلام میں رہ کر عورت پابندِ سلاسل نہیں رہتی، بلکہ اس کی خوبیوں کو دینِ اسلام جِلا بخشتا ہے۔ اماں عائشہ صدیقہؓ سے روایات کی گئی احادیث کا ایک ذخیرہ ہے جس سے آج بھی عالمِ اسلام رہنمائی حاصل کررہا ہے۔ آج کے جج بھی اماں عائشہ صدیقہؓ کو ایک عظیم قانون ساز خاتون کا درجہ دیتے ہیں، جن سے روایت کی گئی 2200 سے زیادہ احادیث سے قانون ساز مستفید ہوتے اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ کیا آج کی عورت کو اماں خدیجہؓ کی طرح تجارت کی اجازت نہیں! کیا اماں عائشہ صدیقہؓ کی طرح آج ایک عورت کو عالمِ دین ہونے کا شرف حاصل نہیں! کیا اُم عمارہؓ کی طرح آج عورت کو جہاد و جنگ میں افواج کا معاون ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے! کیا بی بی زینب دختر علیؓ جیسی بلاغت، فراست و جرأت جیسی خوبیوں کا اظہار کرنے کے مواقع آج کی مسلمان عورت کو حاصل نہیں ہیں! الحمدللہ یہ سب آج کی مسلمان عورت کو میسر ہے۔ یہ سب آزادی مسلمان عورت کے پاس موجود ہے لیکن دائرۂ اسلام میں رہ کر۔ پھر وہ کیوں مغربیب کی دلدادہ اور متلاشی ہے؟ کیوں اپنے آپ کو ذلت کے اندھیرے گڑھے میں دھکیلنے پر مُصر ہے؟ ہماری پہچان اسلام ہے۔ ہمارے لیے رول ماڈل خواتین امہات المومنین اور صحابیات ہیں۔ ہم ان کی زندگیوں کی تقلید کریں، نہ کہ یہود و نصاریٰ کی خواتین کی جنہوں نے اپنی دنیا و آخرت برباد کردی ہے۔ جس معاشرے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ کون کس کی بیوی ہے، کون کس کا باپ ہے… نہ ان کے پاس چادر، نہ چار دیواری، نہ تحفظ ِنسواں۔
رب العزت ہم خواتین کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس مغربیت اور طاغوتی طاقتوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔ دائرۂ اسلام میں دی گئی عزت و ناموس والی آزادی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حصہ