صحرائے تھر: انوکھے اسرار کی سرزمین

1149

شبیر ابن عادل
صحرائے تھر کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا میں ہوتا ہے ، اس عظیم صحرا میں بہت مرتبہ جانا ہوا اور ٹیلے ویژن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے سلسلے میں اس صحرا کے چپے چپے کو کنگھال ڈالا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، سندھ کے کورکمانڈر لیفٹننٹ جنرل آصف نواز تھے اور تھر میں ٹڈی دل کا حملہ ہوا تھا۔ ہم ایک خوشگوار صبح اپنی کیمرہ ٹیم کے ہمراہ کراچی کے فیصل بیس پہنچ گئے، جہاں پوما ہیلی کاپٹر ہمیں لے جانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ پوما ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے کا وہ میرا پہلا اتفاق تھا، سچ تو یہ ہے کہ اتنا بڑا ہیلی کاپٹر میں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہیلی کاپٹر روانہ ہوئے، میرے ہمراہ آرمی افسران بھی ہم سفر تھے ۔ کچھ دیر سفر کے بعد ہم چھاچھرو پہنچے ، مجھے پہلی مرتبہ صحرائے تھر دیکھنے کا اتفاق ہورہا تھا۔ کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل آصف نواز ( جو بعد میں آرمی چیف بنے اور اس جہانِ فانی سے رخصت بھی ہوگئے)ایک الگ ہیلی کاپٹر میں وہاں آئے تھے۔ پہلے تھرپارکر میں ٹڈی دَ ل کے حوالے سے بریفنگ ہوئی۔ ا س کے بعد پی ٹی وی اور اخبارات کے نمائندوں نے اس کی نیوز کوریج شروع کی۔ چونکہ اُس زمانے میں پرائیوٹ چینلز نہیں تھے، اس لئے پی ٹی وی سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ جنرل آصف نواز ہمارے کیمرہ مین سے ہنسی مذاق بھی کررہے تھے۔ اسی طرح کوریج کے بعد لنچ میں ہم لوگوں کا وی آئی پی انداز میں خیال رکھا گیا۔ واضح رہے کہ وہ ٹڈی دل کا آخری حملہ تھا، اس کے بعد نہیں ہوا۔ ان سے زرعی فصلوں کو نقصان پہنچتا تھا۔
تین روز بعد ہماری نیوز ٹیم ایک بار پھر صحرائے تھر گئی، وفاقی حکومت اسلام آباد سے ڈونر اداروں کو ساتھ لائی تھی، دوسری مرتبہ بھی ہم لوگ ہیلی کاپٹر ز پر گئے۔ لیکن اُس مرتبہ سندھ پولیس کے ہیلی کاپٹرز تھے، بڑے ہیلی کاپٹر میں تمام افراد تھے اور چھوٹے ہیلی کاپٹر میں صرف ہماری پی ٹی وی کی نیوز ٹیم تھی، ہیلی کاپٹر کے سامنے اور اطراف میں بہت بڑا شیشہ تھا۔ جس سے ہم لوگ خوبصورت اور دلفریب مناظرکا نظارہ کرنے میں محو ہ ہوگئے اور ہمارے کیمرہ مین ان حسین مناظر کو فلمبند کرتے رہے۔
نیوز کوریج تو خیر ہوئی، لیکن میں دونوں مرتبہ کے سفر میں صحرائے تھر اور اس کے انوکھے مناظر کو دیکھ کر حیران تھا۔ میں نے ہیلی کاپٹر سے بھی تھر کے مناظر دیکھے اور زمین سے بھی۔ ملک کا یہ سب سے بڑا صحرا اپنے اندر قدرت کے کئی خوب صورت رنگ سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں کہیں اڑتی ریت نظر آتی ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت، کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں پہاڑ ،جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کا ہے اور کہیں تاریخی مقامات ،مندر و مساجد ہیں۔ پھر کہیں نمک کی جھیل !!!حدِ نگاہ تک صحرا اور اس میں ایسے انوکھے درخت ، جو بہت پراسرار نظر آتے ہیں۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس اور سروں پر مٹکے اٹھائے تھری خواتین۔ غرض یہ کہ قدرت کے دلکش مناظر کا شاہکار صحرا فطری حسن سے پوری طرح مزین ہے۔ یہ سندھ کا وہ خطہ ہے جو نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی اس کی اہمیت انکار نہیں کیا جاسکتا۔
صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر یا 77 ہزار مربع میل ہے۔ سندھ کے جنوب مشرق کی طرف بھارتی سرحد سے متصل 22 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط صحرائے تھرملک کا سب سے بڑا صحرا سمجھا جاتا ہے۔
صحرائے تھر بنیادی طور پر ہندوؤں، مسلمانوں، اور سکھوں سے آباد ہے۔ پاکستانی حصے میں سندھی اور کولہی آباد ہیں۔جبکہ بھارتی ریاست راجستھان کی تقریبا 40 فیصد آبادی صحرائے تھر میں رہتی ہے۔ لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت اور گلہ بانی ہے۔تھرکا بڑا حصہ صحرا پر مبنی ہے، یہاں کوئلہ، گیس، مٹی اور گرینائیٹ جیسی معدنیات موجود ہے۔پاکستانی علاقے میں اس صحرا کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد ہے، جن میں اکثریت ہندؤوں کی ہے۔ علاقے میں غربت، بیروزگاری اور پسماندگی بہت ہے، حکومتیں بدلتی رہیں، مگر تھر کی حالت نہیں بدلی۔
تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر سے استفادے کے بڑے بڑے پروجیکٹ بنائے گئے، جو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوئے، بلکہ اس سے وابستہ ذمہ داران کروڑ پتی ضرور بن گئے۔
تھر کا موسم شدید ہوتا ہے، گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ہوتا ہے، جبکہ جون جولائی میں یہ صحرا آگ اْگلتا ہے۔تھر میں چوماسہ کافی مشہور ہے جو چار مہینے رہتا ہے، صحرا کی خنک ہوائیں موسم کو خوشگوار بنا دیتی ہیں اور ان مہینوں میں پڑنے والی برسات سے شادابی اپنے سحرمیں جکڑ لیتی ہے۔ برسات سے پہلے چلنے والی ہوائیں اس قدر تیز ہوتی ہے کہ تناور درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتی ہے۔
تھر کے صحرا میں رہنے کے لئے بنائی جانے والی جھونپڑی کو چونرے کہا جاتا ہے۔ یہ 10 سے 12 فٹ کے دائرے میں گندم کے بھوسے میں ٹاٹ یا روئی ملے مٹی کے گارے سے گول دیوار نما شکل میں تیار کیا جاتا ہے، گول دیوار کے اوپر لکڑیوں سے فریم بنایا جاتا ہے، اور پھر فریم کے اوپر صحرائی گھاس کی چھتری نما چھت بنا کر آہنی تار یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔
صحرائے تھر کراچی سے چار سو کلومیٹر سے دور واقع ہے۔وہاں جانے کے دو راستے ہیں، ایک کراچی سے ٹھٹھہ اور بدین سے گزرتا ہوا جاتا ہے اور دوسرے کراچی سے حیدرآباد ، میرپورخاص اور نواں کوٹ سے تھر پہنچتا ہے۔ اس کا ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی ہے۔ اگر آپ تھر جانا چاہتے ہیں تو بسوں پر بھی جاسکتے ہیں اور اگر استطاعت ہے تو اپنی جیپ پر بھی۔ اس کے علاوہ کراچی کی بہت سی نجی ٹریول ایجنسیاں بھی سیاحوں کو تھر لے کر جاتی ہیں۔ تھر میں گھومنے پھرنے کے بہت سے مقامات ہیں اور کھانے بھی مزیدار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کی دستکاری بھی اپنی مثال آپ ہے۔
تھر میں آبادیاں طویل فاصلوں پر قائم ہیں۔ ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ تک کا فاصلہ کئی میل کی مسافت پر ہے۔ زیادہ تر گاؤں بھٹوں کے دامن میں، کہیں صحرائی درختوں کے جھرمٹ میں یا پھر کہیں ریگستانوں میں پائے جاتے ہیں۔
مٹھی کے اطراف کے علاقوں میں صحرا کا حسن پوری طرح جلوہ گر ہے۔ جبکہ نگرپارکر میں سرسبز زرعی زمین اور گرینائیٹ کے پہاڑ دل کو اپنی طر ف کھینچتے ہیں۔ نگرپارکر کے قریب پہاڑی پر ہندؤوں کے قدیم مندر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ تھر میں جگہ جگہ مور ا س ماحول کو مزید خوبصور ت بنادیتے ہیں۔
تھر کا ایک اور سفر مجھے یاد آرہا ہے، وہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا اور شوکت عزیز ضمنی انتخاب میں تھرپارکر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کی انتخابی مہم میں اور پولنگ کے دن بھی تھر پارکر جاناہوا۔ اُس سفر میں تھر کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یعنی سیاسی پہلو سے۔
ایک مرتبہ میرے سینئر کیمرہ مین اکبر مظہر نے صحرائے تھر کے ثقافتی پہلوؤں پر نیوز رپورٹس تیار کرنے کا آئیڈیا دیا۔ ان کے ہمراہ صرف تین دن کے لئے تھر گئے اور اُن تین دنوں میں صحرائے تھر پر سولہ نیوز رپورٹس تیار کرلیں۔ ہم نے تھر کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا تھا۔ بہت تیزی کے ساتھ پورے تھر کی سیر کی تھی، مٹھی، ڈیپلو، چھاچھرو، اسلام کوٹ ، نگرپارکر اور وہاں سے کاسبو (قصبے ) تک گئے، جہاں سے بھارت کی سرحد کے خاردار تار نظر آرہے تھے۔ وہ تمام نیوز رپورٹس اب بھی یوٹیوب پر موجود ہیں۔ بہت یادگار اور دلفریب سفر تھا، اگر کبھی موقع ملا تو اس کے بارے میں مزیدبات کریں گے۔
مختصر یہ کہ صحرائے تھر گھومنے اور تفریح کرنے کی جگہ ہے، خاص طور پر برسات کے بعد جب ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے۔ وہاں مٹھی اور نگر پارکر میں ہوٹل بھی ہیں اور کھانے بھی مزے دار ہوتے ہیں۔ تھر کے سفر میں ایک عجیب نشہ ہے، سرور ہے اور کیف ہے۔

حصہ