آج کے بچے

457

سیدہ عنبرین عالم

میں آج نیا گیت گائوں گی، میں سب کو عشق سکھائوں گی
وہ صرف میرا پیارا رب ہے، میں آج سب کو یہ بتلائوں گی
کل چاند کو دیکھا جو میں نے، کہا اس کے صدقے معاف کر
آج سورج کو دیکھا جو میں نے، کہا اس کے صدقے معاف کر
وہ روٹھا، وہ چپ رہا، میں گھبرائی، میں چلّائی
چل جو بھی سب سے زیادہ عزیز ہو اُس کے صدقے معاف کر
وہ بولا معاف کیا، تُو راضی میں راضی، اپنا دل صاف کر
اب میرے دل میں کھلبلی کہ اس کو سب سے عزیز کون ہے
تُو صرف تُو، وہ بولا، اور تجھ کو سب سے عزیز کون ہے
تُو صرف تُو، میں بولی، وہ پھر بولا، تیرا میرا حساب ہوا
تُو مجھ کو سب سے زیادہ عزیز، میں تجھ کو سب سے زیادہ عزیز
یہی تو عشق کا سبق ہے، اب عشق کا سبق عام کر
میں ہنس پڑی، میں جیت گئی، میں سب کو عشق سکھائوں گی
محبت کرو گے تو محبت ملے گی، سب کو راز یہ بتلائوں گی

٭٭٭

نیلوکی شرارتیں کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ پرنسپل اُس کے ابو کو روز بلا کر شکایتیں کرتیں۔ ابو نیلو کو لے کر گھر آتے تو نیلو کی امی کو ڈانٹنے لگتے کہ تم نیلو کی صحیح تربیت نہیں کررہیں۔ اب بے چاری امی کیا کرتیں! نیلو تو گھر بھر کی لاڈلی تھی، امی ڈانٹ بھی دیتیں تو پھوپھو کو اتنا دکھ ہوتا کہ اسے فوراً گود میں بٹھا کر کہانیاں سنانے لگتیں۔ دادی، امی کو ڈانٹنے لگتیں، اور چاچو بائیک نکال لیتے کہ آئو نیلو تمہیں آئس کریم کھلا کر لائوں۔ دادا کھلم کھلا کئی نوٹ نیلو کے ہاتھ پر رکھ دیتے۔ ابو بھی پریشان تھے کہ نیلو کو کیسے سمجھائیں! نیلو اب ماشاء اللہ دس برس کی ہوگئی تھی، اس عمر میں تو لڑکیاں مائوں کا ہاتھ بٹانے لگتی ہیں، اور نیلو تھی کہ اچھل کود اور کھیل میں ہی زندگی گزر رہی تھی۔ پڑھائی کے لیے بھی وہ بالکل تیار نہیں تھی۔
نیلو: ابو! میں تو بہت اچھی بچی ہوں، میں تو سب کا کہنا بھی مانتی ہوں، کل پھوپھو نے کہا کہ ان کے ساتھ پارلر جائوں، تو میں گئی۔ چاچو نے کہا ان کے ساتھ فلم دیکھنے چلوں تو میں گئی۔ امی نے کہا پورا کھانا کھائو تو میں نے آلو کے تین پراٹھے کھائے۔ اور شام میں دادی نے مجھے پیزا بھی منگوا کے دیا، پوری ڈیڑھ لیٹر کولڈ ڈرنک میں نے اکیلے پی۔ سب کا کہنا مانتی ہوں، پتا نہیں آپ کیوں ناراض رہتے ہیں۔
ابو: بیٹا! سورۃ الذاریات آیت 56 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے تمام انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، تو ہماری زندگی کا مقصد تو اللہ کی عبادت ہے، باقی سب کام بے کار ہیں، چاہے جو بھی آپ سے جو بھی کام کروائے۔
نیلو: تو کیا میں ہر وقت نماز ہی پڑھتی رہوں، اور کچھ نہ کروں؟
ابو: بیٹا! کیا آپ صرف نماز کو عبادت سمجھتی ہیں؟ نہیں بیٹا… عبادت تین الفاظ کا مجموعہ ہے… فرماں برداری، فرائض اور رسومات والی عبادت۔ میری بیٹی نماز، روزہ، قرآن پڑھنا وغیرہ رسومات والی عبادات ہیں جو ہمیں کرنا ہی کرنا ہیں، ورنہ اللہ سزا دے گا۔ پھر ہے فرماں برداری یعنی روزمرہ زندگی میں اللہ کے احکامات کو ماننا، جیسے اللہ نے حکم دیا کہ سچ بولو، دھوکا مت دو، غیبت مت کرو، وعدہ پورا کرو وغیرہ… یہ سارے احکام مانیں گے تو ہم مسلمان ہیں، ورنہ ہم صرف دھوکا دے رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
نیلو: (غور سے سنتے ہوئے) اور فرائض کیا ہیں؟
ابو: بیٹا فرض الگ الگ ہوتے ہیں، ہر شخص کے ذمے کچھ کام ہوتے ہیں، اگر وہ کام ایمان داری سے کیے جائیں تو اسے بھی عبادت کہتے ہیں، جیسے میں ایک لائن مین ہوں، اگر میں کنڈے نہ ڈلوائوں، لوگوں کے میٹر میں تبدیلی نہ کروں اور اپنی نیلو کا کھانا ایمان داری کی تنخواہ سے لائوں تو یہ فرض پورا کرنا بھی عبادت ہے۔ محنت سے اپنا فرض پورا کرنا۔
نیلو: (ہنستے ہوئے) اور امی کا کیا فرض ہے، بس صبح سے شام تک مجھے ڈانٹنا؟
ابو: (ہنستے ہوئے) بیٹے جیسی آپ کی حرکتیں ہیں اصولاً تو آپ کو صبح سے شام تک مارنا چاہیے، لیکن چونکہ دادا، دادی ایسا کرنے نہیں دیں گے اس لیے امی صرف ڈانٹ کر کام چلاتی ہیں، اُن کا فرض آپ کو اچھی بچی بنانا ہے۔ اور نیلو یہ تو بتائو کہ آپ کا فرض کیا ہے؟
نیلو: میں تو چھوٹی بچی ہوں، میرا کوئی حساب کتاب نہیں ہے اللہ کے ہاں…
ابو: کیسے نہیں ہے؟ ویسے تو آپ کو ساری عقل ہے کہ دادا سے بہانے بہانے سے پیسے کیسے نکلوانے ہیں، کیسے امی کی شکایتیں دادی سے لگانی ہیں۔ بس یہ نہیں پتا کہ فرض کیا ہے! موبائل سے لے کر کمپیوٹر تک چلانے کی عقل ہے تو حساب کیوں نہیں ہوگا!
نیلو: اچھا پھر آپ بتایئے کہ میرا کیا فرض ہے جو اصل میں عبادت ہے اور اس کی پوچھ گچھ ہوگی؟
ابو: بیٹا! آپ کا فرض ہے اچھی طرح سے پڑھائی کرنا، تاکہ آپ کو اللہ کے احکام کا پتا چلے، زندگی گزارنے کا سلیقہ آئے اور وقتِ ضرورت روزگار بھی حاصل کرسکو۔ اور آپ کو بہت سی معلومات ہوں گی، علم ہوگا تو آپ کو کوئی بے وقوف نہیں بنا سکے گا۔
نیلو: کیا سارے بچوں کا یہی فرض ہوتا ہے؟ اور کوئی کھیل نہیں سکتا کیا؟
ابو: ارے میری نیلو کو کون کھیلنے سے روک سکتا ہے! اب دیکھو ناں جیسے میں سارا دن کام کرتا ہوں، فجر میں قرآن پڑھتا ہوں، پھر پانچ نمازیں دن بھر پڑھتا ہوں، پھر آپ کی امی جو جو سودا منگاتی ہیں لاکر دیتا ہوں، بس اس کے بعد میرے سارے فرض پورے، پھر جتنا چاہے میں نیلو کے ساتھ کھیل سکتا ہوں۔ چاچو، پھوپھو اور نیلو کے ساتھ گھومنے جا سکتا ہوں، اسی طرح سب بچے کھیل سکتے ہیں، مگر اپنا فرض پورا کرنے کے بعد۔ ورنہ فرض ادھورا رہ جائے گا۔
نیلو: اور اگر فرض پورا نہ کیا تو کیا آپ میری پٹائی کریں گے؟
ابو: (مسکراتے ہوئے) نہیں بیٹا! میری نیلو تو میری جان ہے، میں آپ کی پٹائی نہیں کرسکتا، لیکن اگر آپ فیل ہوگی یا لوگ کہیں کہ نیلو کو تو کوئی کام ہی نہیں آتا، تو کیا آپ کو خوشی ہوگی؟ کیا اللہ تعالیٰ آپ کو دوزخ میں ڈالے گا تو آپ کا اچھا لگے گا؟
نیلو: (پریشان ہوتے ہوئے) نہیں! میں فرسٹ آئوں گی اور جنت میں بھی جائوں گی۔
ابو: شاباش میرا بچہ! اب آپ کو میں روز قرآن بھی پڑھائوں گا اور اسکول کا کام بھی کرائوں گا۔
نیلو: ٹھیک ہے، مگر ڈانٹیے گا نہیں ورنہ میں دادا سے شکایت کردوں گی۔
ابو: ارے نہیں، لیکن آپ کام ادھورا چھوڑ کر نہیں بھاگنا، آپ کو فرض پورا کرنا ہے ناں۔
نیلو: ہاں! آپ بے فکر رہیے، کوئی مسئلہ نہیں کروں گی۔ ویسے جنت میں کولڈ ڈرنک ملے گی ناں؟
ابو: جی بیٹا! آئس کریم، چاکلیٹ، کولڈ ڈرنک، بریانی، پیزا، برگر سب ملے گا، جو چاہو گی ملے گا۔ وہاں نیکیوں کی کرنسی چلتی ہے، آپ کے پاس نیکیاں ہوں گی تو سب ملے گا۔
نیلو: مگر دادا ابو جب قرآن سناتے ہیں تو جنت میں صرف پھلوں اور جوسز کا ذکر کرتے ہیں، اور وہاں خوب صورت آنٹیاں ہوں گی۔ کھلونے وغیرہ نہیں ہوں گے۔
ابو: بیٹا قرآن جس وقت اترا اُس حساب سے اللہ نے قرآن میں جنت کی نعمتیں بتائیں۔ اگر قرآن آج اترتا تو قرآن میں ڈزنی لینڈ، واٹر پارک، پیزا وغیرہ کا بھی ذکر ہوتا، مگر اللہ نے کلّی طور پر بتادیا کہ آپ جو چاہو گی آپ کو ملے گا۔
نیلو: ابو کیا اللہ میاں زیادہ کھیلنے والے بچوں سے ناراض ہوتے ہیں؟
ابو: بیٹا کھیلو مگر اپنا فرض پورا کرنے کے بعد۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اگر انسان کی فطرت میں کھیل کود اور تفریح کا عنصر رکھ دیا گیا ہے تو اللہ اس سے ناراض کیسے ہوگا! بیٹا تفریح کی اصل جگہ جنت ہے، دنیا میں تو ہم امتحان کے لیے آئے ہیں۔ آپ امتحان کے دوران کرکٹ کھیلتی ہو یا جلدی جلدی پرچہ حل کرتی ہو؟ کھیلیں گے کرکٹ، خوب کھیلیں گے مگر جنت میں جاکر۔ دنیا میں تو عبادت کے لیے اللہ میاں نے ہمیں پیدا کیا ہے ناں، تین قسم کی عبادت… تو ہم بے کار کاموں میں کیوں وقت ضائع کریں! یہ تو شیطان ہے جو ہمیں بے کار کاموں میں الجھا کر عبادت سے غافل کرتا ہے۔
نیلو: ابو اللہ میاں نے قرآن میں یہ تو نہیں لکھا کہ پڑھو اور فرسٹ آئو۔ دادا مجھے روز قرآن سناتے ہیں۔ اگر ہمیں اللہ کا حکم ماننا ہے تو پڑھائی کا حکم تو اللہ نے نہیں دیا۔
ابو: قرآن میں یہ حکم کہاں ہے کہ ہر وقت کھیل تفریح کرو؟
نیلو: چلیے نہیں ہے، مگر آپ لوگ اللہ میاں کے حکم کے بغیر مجھے کیوں پڑھنے کے لیے کہتے ہیں؟
ابو: آپ کو معلوم ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیوں کیا تھا؟
نیلو: کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ میاں کے فیورٹ تھے، وہ اسسٹنٹ تھے ناں۔
ابو: نہیں! کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان چیزوں کے نام معلوم تھے جو فرشتوں کو نہیں معلوم تھے۔ بیٹا! فرشتے تو صرف ملازم ہیں جو اللہ میاں کے حکم سے کائنات کو چلانے کا کام کررہے ہیں، آدمی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی نسل اللہ میاں کی نائب ہے۔ میرا اللہ کائنات کا خالق ہے، تو کائنات کے خالق کے نائب کو کائنات کے بارے میں معلومات تو ہونی چاہئیں، ورنہ ہم تو امتحان میں فیل ہوجائیں گے۔
نیلو: تو کائنات کے بارے میں تو کوئی اسکول میں نہیں پڑھاتا!
ابو: (مسکراتے ہوئے) بیٹا بیالوجی، فزکس، ریاضی، کیمسٹری یہ سب علوم کائنات کے نظام کو ہی جاننے کے لیے بنائے گئے، اللہ میاں نے کائنات کو تسخیر کرنے کا حکم دیا ہے، ہم ان علوم کے ذریعے اپنے رب کی کائنات کو تسخیر کرتے ہیں، دیگر علوم بھی جو ہمیں پڑھائے جاتے ہیں وہ معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لیے ہیں اور ان کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ ہاں اسکولوں میں قرآن و سنت کے لیے اتنا تردد نہیں کیا جاتا جتنا کہ بچوں کی صحیح تربیت کے لیے ضروری ہے۔ دنیاوی اور دینی علوم کا تناسب آدھا آدھا ہونا چاہیے۔
نیلو: دادی کہتی ہیں کہ نیلو تو اتنی پیاری ہے، اس کی تو جلدی شادی ہوجائے گی، بعد میں گھر سنبھالنا ہے تو اسے ابھی کھیلنے دو، پڑھا پڑھا کر دماغ خراب مت کرو۔ پڑھائی تو صرف لڑکوںکے لیے ضروری ہوتی ہے جنہیں کمانا ہوتا ہے۔
ابو: (قہقہہ لگا کر) بس یہ ایک بہانہ رہ گیا تھا پڑھائی نہ کرنے کا۔
نیلو: میں تھوڑی کہتی ہوں، دادی کہتی ہیں، میں تو شوق سے پڑھائی کرتی ہوں۔
ابو: بیٹا جی! لڑکا نہیں پڑھے گا تو بھی پتھر توڑ کر پیسہ کما لے گا، لیکن اگر لڑکی نہیں پڑھے گی تو ساری نسل نائب بننے کی اہلیت سے محروم رہ جائے گی۔ لڑکے کو نائب بننا ہے اور لڑکی کو اللہ میاں کے نائب تخلیق کرنے ہیں، اللہ میاں نے کہیں قرآن میں نہیں لکھا کہ امتحان صرف لڑکوں کا مطلوب ہے، نائب صرف لڑکے بنیں گے، بلکہ اللہ نے انسان کو نائب بنایا ہے اور انسانوں میں مردوں کا تناسب کم اور عورتوں کا زیادہ ہے۔ کیا انسانوں کے اتنے بڑے حصے کو اللہ میاں نے امتحان سے خارج کردیا؟ اللہ نہ کرے کہ میری نیلو پر کمانے کا بوجھ پڑے، لیکن اللہ میاں کی نائب توآپ بھی ہو۔
نیلو: میں نے سنا ہے کہ لڑکی کو اسلام میں کوئی عہدہ نہیں دیا جاتا، خلیفہ کا بھی نہیں۔ امہات المومنین میں سے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا گیا، حضرت عائشہؓ کو بھی نہیں۔
ابو: ایک بات بتائو، اگر آپ کے 90% مارکس آئیں اور کسی لڑکے کے 50%، تو انجینئرنگ یونیورسٹی میں کس کو داخلہ ملے گا…؟ ظاہر ہے آپ کو۔ بیٹا! حضرت خدیجہؓ عورت ہیں مگر جنت میں جائیں گی، ابوجہل مرد ہے مگر جہنم میں جائے گا۔ آپ کا علم عہدے پانے کے لیے نہیں، اللہ میاں کو راضی کرنے کے لیے ہے۔ حضرت عائشہؓ کے لیے خلیفہ بننے کی کوئی حاجت نہیں تھی، کیوں کہ خلیفہ ان کے پاس خود رائے لینے آتے تھے۔ بیٹا! اصل حاکم تقویٰ ہے۔ تقویٰ ہوگا تو آپ دلوں پر راج کرو گی اور جنت کی سلطنت بھی آپ کی ہوگی، یہ دنیاوی عہدے تو ختم ہوجانے کے لیے ہیں۔
نیلو: ابو میں آپ کی سب باتیں سمجھ گئی، ان شاء اللہ اب آپ کو شکایت نہیں ہوگی۔
ابو: مجھے معلوم تھا میری بیٹی ضرور اچھی بچی بن جائے گی۔

حصہ