دوسرا کمرہ

846

سیدہ عنبرین عالم
’’اماں! جن لوگوں کے گھر میں دوسرا کمرہ ہوتا ہوگا اُن کو کتنا مزا آتا ہوگا ناں؟‘‘ شبانہ نے کہا۔
’’بیٹا! ہمارا دوسرا کمرہ ہوتا بھی تو ہم گھر میں رہتے کتنی دیر ہیں، سویرے کام پر نکلے تو رات ہوجاتی ہے لوٹنے تک۔ پڑ کر سونا ہی تو ہے، کیا کرنا دوسرے کمرے کا۔‘‘ اماں نے جواب دیا۔
’’نہیں اماں! فائدہ تو ہے، ایک کمرے میں شور ہو تو دوسرے کمرے میں جا کر سوجائو۔ ایک کمرے میں مہمان ہوں تو دوسرے کمرے میں چلے جائو۔ دوسرا کمرہ ہونا چاہیے۔‘‘ شبانہ اپنی بات پر قائم رہی۔
’’بیٹا دو کمروں کے گھر کا کرایہ بہت ہوتا ہے، تیرا باپ تو نشئی ہے، تیرے بھائی اپنی بیویوں کے غلام۔ رہ گئی تُو اور میں، ہم کہاں سے دیں گے دو کمروں کے گھر کا کرایہ! تیری بڑی بہن تو اللہ لوک ہے، اس کے علاج کا بھی اتنا خرچ ہے سر پر۔‘‘ اماں نے دکھڑوں کی گٹھڑی کھول کر رکھ دی۔
’’اماں، میری شادی کرو تو ایسے گھر کرنا جہاں دو کمرے ہوں۔‘‘ شبانہ نے شرما کر کہا۔
اماں ہنسنے لگی ’’ابھی کرتی ہوں تیری شادی… چل سو جا۔‘‘ اس نے کہا۔ شبانہ سونے لیٹ گئی اور خواب میں ایسا گھر دیکھنے لگی جہاں دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں صوفہ سیٹ اور قالین، دوسرے کمرے میں پلنگ اور ٹی وی… ’’ہائے کب ملے گا دوسرا کمرہ۔‘‘ وہ سوچتی رہی۔
شبانہ کا تعلق ملتان کے نواح میں واقع ایک گائوں سے تھا۔ سارا گائوں کراچی جا چکا تھا، بس وہ لوگ رہ گئے تھے جن کی اپنی زمینیںتھیں یا زیادہ جانور تھے۔ فصلیں ہر سال بارش اور سیلاب میں بہہ جاتی تھیں۔ پھر موٹر وے بننے لگا تو اونے پونے زمینیں خرید کر زرعی زمین پر ڈامر ڈال کر بنجر کردیا گیا، پھر زرعی زمین پر ہائوسنگ پراجیکٹ بننے لگے۔ کہنے کو ترقی ہورہی تھی، مگر بڑے بزرگ کہتے تھے کہ یہ پاکستان کو بھوکا مارنے کی سازش ہے۔ مختصر یہ کہ گائوں چھوڑنا ہی پڑا، کوئی روزگار نہ رہا گائوں میں۔ چار، پانچ خاندان مل کر کراچی آئے اور ایک کچی غیر قانونی بستی میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگے۔ کمرہ بڑا تھا مگر رہنے والے 27 افراد تھے جو سونے لیٹتے تو کروٹ بدلنے کی بھی جگہ نہ رہتی۔ کچھ مرد رکشا چلانے لگے، کچھ مزدوری کرتے، کچھ صرف چرس پی کر پڑے رہتے، مگر سارے مرد پابندی سے اپنی بیویوں کی پٹائی روز رات کو ضرور کرتے۔ یہ مردانگی کا ثبوت تھا، البتہ مردانگی اُس وقت گھاس چرنے چلی جاتی جب اپنی بیویوں کی کمائی ہوئی روٹی کھاتے۔ عورتیں سب کی سب ماسیاں تھیں اور کچی آبادی کے دوسری طرف واقع بنگلوں میں کام کرنے جاتی تھیں۔ شبانہ اور اس کی اماں بھی روز صبح 7 بجے گھر سے نکلتیں اور رات کو تقریباً 8 بجے گھر آتیں۔ جیسے ہی وہ گھر میں گھستیں لائٹ چلی جاتی۔ دن میں تین، تین گھنٹے کے لیے لائٹ ضروری جاتی، کنڈوں کا سسٹم جو تھا۔
آج پھر شبانہ کے ابا نے اماں کو بہت مارا۔ اُسے اپنے نشے کے لیے پیسے چاہیے تھے، اور شبانہ کی اماں ان پیسوں سے کملی بیٹی کی دوا لے آئی تھی۔ چار، چھ دن خوب جھگڑے ہوئے، پھر فیصلہ یہ ہوا کہ شبانہ کو جو کہ ابھی صرف آٹھ سال کی تھی، ایک بنگلے میں چھوڑ دیا جائے۔ رہے گی اُدھر ہی، ان کی خدمت کرے گی، اور ماں باپ ہر پہلی کو جاکر اس کی تنخواہ لے آیا کریں گے جو کہ دس ہزار طے پائی تھی، کھانے کے پیسے کاٹ کر آٹھ ہزار ملا کرتے۔
شبانہ کا رو رو کر برا حال تھا ’’نہیں اماں، میں نے نہیں جانا، میں نے تیرے بغیر نہیں رہنا۔‘‘
’’ارے پاگل! بہت بڑا بنگلہ ہے، اتنے سارے کمرے، ٹھنڈی مشینیں لگی ہوئی، صوفے بچھے ہوئے، فریج سے ٹھنڈا پانی لے کر پینا، بس بچے ہیں ان کے ساتھ کھیلتی رہنا۔‘‘ اماں نے پیار سے سمجھایا۔
’’نہیں اماں! مجھے نہیں چاہئیں بہت سے کمرے، مجھے یہ ایک کمرہ بہت ہے، میں نے نہیں جانا۔‘‘ شبانہ نے ضد کی۔
’’اچھا تیری بہن کا علاج ہوجائے، وہ ٹھیک ہوجائے، پھر تجھے لے آئوں گی۔‘‘ اماں نے کہا۔
’’اماں! تجھے نیند آجائے گی کیا میرے بغیر؟ تُو کیسے رہے گی میرے بغیر۔‘‘ شبانہ نے یہ جملہ کہا ہی تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا، اور پھر لاتیں، گھونسے تواتر سے برستے رہے۔ ’’کیسے نہیں جائے گی کام پہ؟‘‘ ابا کہتا رہا اور مارتا رہا۔
’’تُو بھی تو نہیں جاتا کام پر۔‘‘ ماں نے شبانہ کو بچاتے ہوئے ابا سے کہا۔
’’ارے دو، چار مرد ہی کام کرتے ہیں، باقیوں کو تو بیویاں ہی عیش کراتی ہیں۔ سب کی بیویاں تیری طرح کنجوس اور لمبی زبان والی نہیں ہوتیں۔‘‘ ابا نے اماں کو طعنہ مارا۔
’’بے غیرت ہو تم سب۔ غیرت والا مرد ہو تو جان دے دے گا مگر عورت کی کمائی نہیں کھائے گا، یہ ذات برادری کا چکر نہ ہو تو تم بے غیرتوں کو بیوی ملے بھی نہیں کہیں سے۔‘‘ اماں غصے سے بولی۔
’’زبان چلاتی ہے!‘‘ ابا نے کہا اور اماں کو زوردار دھکا دیا، پھر اُس وقت تک مارتا رہا جب تک اور لوگوں نے آکر اماں کو چھڑا نہیں لیا۔ اماں کے سر سے خون بہہ رہا تھا، شبانہ کے بھائی چپ کرکے اپنی بیویوں کے ساتھ کھانا کھاتے رہے، شبانہ اماں کا خون پونچھتی رہی۔
…٭…
ربیعہ بیگم بہت خوش تھیں کہ کُل وقتی ملازمہ کا انتظام ہوگیا تھا۔ ویسے تو ان کی کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی کہ گھر نہ سنبھال سکتیں۔ بس یہ کہ اُن کا خاندان بہت چٹورا تھا، سارا ہفتہ ایک سے ایک پکوان بناتیں مگر پھر بھی اتوار آتے ہی میاں، بچے باہر کھانا کھانے کے لیے مچل جاتے۔ ایک بچی تو ابھی صرف تین سال کی تھی، اس کو سنبھالنا بھی ایک مسلسل کام تھا۔ شبانہ کے آجانے سے انہیں سہولت ہوگئی۔ وہ تین سالہ نرگس کو تو سنبھال ہی لیتی تھی، سبزیاں بنادیتی، آٹا گوندھ دیتی۔ پودوں کو پانی دینا، یہ اٹھا دو، وہ رکھ دو قسم کے ہزاروں کام ہوجاتے۔ آٹھ ہزار روپے ماہوار شبانہ کا باپ آکر لے جاتا۔ اس نے کبھی بیٹی سے ملنے کی کوشش نہ کی۔ گھر میں جو مرضی پک جائے، شبانہ کے نصیب میں پچھلے دن کا ہی کھانا ہوتا۔ ربیعہ بیگم رزق ضائع کرنے کے حق میں نہ تھیں، یہ الگ بات کہ بچا ہوا کھانا فریج میں رکھنا بھول جاتیں۔ ویسے ہی باورچی خانے کی گرمی میں پڑا رہتا، اور جب ہلکی بو آنے لگتی تو جلدی سے گرم کرکے شبانہ کو دے دیتیں۔ مسلسل ایسا کھانا کھا کے شبانہ کو اسہال لگے رہتے، بے دم ہونے لگتی، سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی، مگر ربیعہ بیگم لمحے بھر کو اس کو بیٹھنے نہ دیتیں۔ کہتی یہی تھیں کہ کرتی کیا ہو! مگر حقیقت یہی تھی کہ شبانہ کے آنے کے بعد گھر والوں نے اٹھ کر پانی پینا تک چھوڑ دیا تھا، ہر طرف سے شبانہ، شبانہ کی آوازیں لگتی رہتیں، اور شبانہ پورے گھر میں دوڑتی پھرتی۔ ذرا سی دیر سویر ہوجائے تو بے نقط سنائی جاتیں، اور ربیعہ تو دو ہاتھ دھرنے میں بھی دیر نہ لگاتیں۔
شبانہ برآمدے میں بڑے صاحب کی موٹر بائیک دھو رہی تھی کہ اندر سے ربیعہ بیگم کی گیارہ سالہ بیٹی نائلہ نے آواز لگائی۔ شبانہ بھاگم بھاگ اندر پہنچی تو نائلہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی ’’شبانہ! ذرا میز پر سے ٹی وی کا ریموٹ تو اٹھا کر دو۔‘‘ وہ انگڑائی لیتی ہوئی بولی۔
شبانہ کا دماغ گھوم گیا ’’باجی! میں بائیک دھو رہی تھی، آپ نے ایسے بلایا، میں سمجھی کوئی ضروری کام ہے، یہیں تو ہے میز، آپ اٹھا لیتیں ریموٹ۔‘‘ شبانہ بولی۔
’’بکواس کرتی ہو، تنخواہ کس بات کی لیتی ہو!‘‘ نائلہ چیخی اور پاس دھرا ہوا کرکٹ بیٹ اٹھا کر دے مارا جو عین سر پر لگا اور شبانہ کے سر سے خون بہنے لگا۔
ربیعہ بیگم دوڑی ہوئی آئیں، شبانہ کے سر پر کس کر دوپٹہ باندھا تاکہ خون رکے، پھر اس کے چہرے پر زوردار تھپڑ مارا ’’کیوں زبان چلاتی ہو تم؟ تمہارے ماں، باپ تو تمہیں یہاں پھینک گئے، مڑ کر نہیں دیکھا، اکڑ کس بات کی ہے!‘‘ وہ زور سے بولیں۔
’’امی! دوسرے کمرے میں لے جاکر ماریں اسے، میرا بہت فیورٹ شو آنے والا ہے ٹی وی پر، ذرا مجھے ریموٹ تو اٹھا کر دے دیں۔‘‘ نائلہ بولی۔
شبانہ چوٹ سے زیادہ بدسلوکی کے صدمے میں تھی ’’باجی! آپ ایسا کروکہ اسپتال میں داخل ہوجائو، ذرا بھی بستر سے اٹھنا نہیں پڑے گا۔‘‘ وہ بپھر کر بولی۔
’’بہت لمبی زبان ہوگئی ہے، چل دوسرے کمرے میں۔‘‘ ربیعہ بیگم شبانہ کو بالوں سے گھسیٹتے ہوئے دوسرے کمرے میں لے گئیں اور اسی کرکٹ بیٹ سے اس کی خوب دھنائی کی، جب مار مار کر تھک گئیں تو شبانہ سے ہی کہنے لگیں کہ چائے بنا کر پلائو۔ شبانہ کی شاید کوئی ہڈی سرک گئی تھی، وہ اٹھ ہی نہ سکی اور تین دن ایسے ہی بھوکی پیاسی پڑی رہی، یہاں تک کہ ربیعہ بیگم کے شوہر اسے اسپتال لے گئے، پلستر کرا کر لائے، اور خود روز اس کو دودھ کا گلاس بھر کر دینے لگے۔
ربیعہ بیگم کا ہاتھ ایک بار کے بعد کھل ہی گیا تھا، اب وہ بات بے بات کہتیں کہ ’’چلو دوسرے کمرے میں‘‘ اور دوسرے کمرے میں شبانہ کی خوب پٹائی ہوتی، بچوں کے سامنے شبانہ کو مارنا انہیں ناگوار گزرتا کہ نازک ذہنوں پر برا اثر پڑتا ہے، بچوں کے سامنے تو وہ شبانہ کو گالی تک نہیں دیتی تھیں۔
ربیعہ بیگم کا آٹھ سالہ بیٹا شہروز چوریاں کرنے لگا تھا۔ چوری کرکے الزام ہمیشہ شبانہ پر لگا دیتا، اور ربیعہ بیگم شبانہ سے کہتیں ’’چلو دوسرے کمرے میں…‘‘ اور پھر وہ تشدد ہوتا کہ پولیس کے لتر بھی شرما جائیں۔ شبانہ لاکھ کہتی کہ میں کہاں گئی، میں تو یہیں ہوں، اگر چوری کی ہوتی تو وہ چیز میرے پاس سے برآمد تو ہوتی۔ مگر ربیعہ بیگم نہ مانتیں۔ ایک دن پھر شہروز نے ایک ہزار روپے چرائے اور الزام شبانہ پر لگا دیا۔ شبانہ کی برداشت سے باہر ہوچکا تھا، اُس نے دوڑ کر شہروز کا گریبان پکڑ لیا ’’جھوٹے، چور، تم نے چرائے ہیں پیسے،پتا نہیں کیا کرتے ہو اتنے پیسوں کا، اللہ سے ڈرو۔‘‘ وہ چلّانے لگی۔
پھر جو ربیعہ بیگم نے شبانہ کی مار لگائی تو شبانہ کی آنکھ اسپتال میں ہی کھلی۔ اس کی اماں اس کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ ’’کیسی ہے شبانہ تُو‘ کیا ہوا تھا تجھے؟‘‘ اماں تڑپ کر بولی۔
’’اچھا تو اب آپ کو فکر ہو ہی گئی کہ مجھے کیا ہوا ہے!‘‘ شبانہ طنزیہ بولی۔
’’ہمیں تو ربیعہ بیگم نے فون کیا تھا کہ شبانہ مر گئی، آکر لے جائو، تیرے ابا نے تو بڑا ہنگامہ کیا، اسے انہوں نے دو لاکھ روپے دیے، پتا نہیں منحوس کہاں بیٹھ کر جوا کھیل رہا ہوگا اب۔ تجھے گھر میں پھینک گیا، بڑی مشکل سے اس سے بیس ہزار روپے چھینے تجھے اسپتال لانے کے لیے۔‘‘ اماں نے تفصیل سے بتایا۔
’’پتا نہیں یہ بڑے لوگوں کے ہاں ماں باپ کی محبت کے قصے کیوں مشہور ہیں! حالانکہ اولاد تو پیدا کی جاتی ہے پیسہ کمانے کے لیے۔ اولاد کی لاش سے بھی پیسے کما لیے جاتے ہیں۔ پتا نہیں کون ماں باپ ہوتے ہیں جو اولاد سے محبت کرتے ہیں؟… ہاں ہوتے ہیں، ربیعہ بیگم جیسے لوگ جو اولاد سے محبت کرتے ہیں، چاہے اپنی اولاد کے لیے دوسروں کی اولاد قتل کرنی پڑ جائے۔‘‘ شبانہ دھیرے دھیرے نقاہت سے بولی۔
’’نہیں میری بچی، میں کرتی ہوں ناں تجھ سے محبت۔‘‘ اماں نے شبانہ کے گال پر بوسہ لیا۔
’’نہیں اماں! تجھے تو سہاگ عزیز ہے، وہ سہاگ جسے تُو اپنا اور میرا خون پلا پلا کر پال رہی ہے، جب تک مجھ سے کما سکتی ہے کمائے گی، پھر کسی ابا جیسے سے مجھے بیاہ دے گی، پھر میں اپنے شوہر کو کما کما کر کھلائوں گی اور روز اُس سے پٹوں گی۔ اماں یہ اتنے سارے بے غیرت مرد، عورتوں کی کمائی کھانے والے اچانک کہاں سے آگئے، یہ ہم جیسی عورتوں کے نصیب ایک سے کیوں ہیں؟‘‘ شبانہ نے کہا۔
’’اب میں تیرا بہت خیال رکھوں گی۔ اچھے برے لوگ سب میں ہوتے ہیں، ہماری برادری میں بھی بہت سے رکشا ڈرائیور ہیں، میں ایسے ہی کسی شخص سے تیری شادی کروں گی۔ تیری تنخواہ سے تیرا ابا مجھے ہر مہینے 4,000 دیتا تھا، میں نے بہت سے پیسے جمع کرلیے ہیں، اب ہم دو کمرے والا مکان کرائے پر لیں گے، وہاں تیری خواہش کا دوسرا کمرہ بھی ہوگا۔ چلے گی ناں میری بیٹی دوسرے کمرے میں۔‘‘ اماں نے لاڈ سے کہا۔
’’شبانہ کی آنکھیں پھیل گئیں، سانس پھولنے لگا، ہاتھ پائوں کانپنے لگے اور وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی ’’دوسرا کمرہ نہیں چاہیے، دوسرا کمرہ نہیں…‘‘
سارے ڈاکٹر بھاگتے ہوئے آئے، آکسیجن لگائی گئی، سینے پر زور دینے کی کوشش کی گئی، مگر شبانہ دوسرے کمرے کی خواہش لیے دوسرے جہاں چلی گئی تھی… اس جہاں سے دور جہاں ماں باپ کی محبت بھی سراب تھی، دھوکا تھی۔ ماں باپ کی محبت بھی صرف پیسے والوں کو ملتی تھی، غریب کا بس چلے تو اپنے پیدا ہونے والے بچے کے دام جھولے میں ہی لگا دے۔ سچ ہے محبت، نفرت، نیکی، بدی سب پیٹ بھروں کے چونچلے ہیں، اسی لیے ہمارے حکمران ہماری روٹی چھین لیتے ہیں تاکہ ہم پیٹ سے بے فکر ہوکر دماغ نہ استعمال کرنے لگ جائیں۔

حصہ