ڈاکٹر مسیحا

648

قدسیہ ملک
وہ رورہی تھی کہہ رہی تھی کہ اس کو کچھ نہیں تھا بس اسنے ایک کالی الٹی کی اور جب اسے ضیاء الدین ہسپتال لے کر گئے تو اسی وقت ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔دودن آئی سی یو میں رہ کر آج اسکا انتقال ہوگیا۔یہ نیوکراچی گودھراں میں ساتھ سالہ بچی کے انتقال کی افسوسناک خبر تھی۔کچھ دن بعد جب بچی کی پھپھو سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا کہ بچی کا جگر فیل ہوگیا تھا۔جسکی رپورٹ بھی آچکی ہے۔بچی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق چار ماہ سے اینٹی بائیوٹک کا استعمال کررہی تھی۔
ڈاکٹروں کی غفلت کے حوالے سے پاکستان میں بہت سے واقعات ہوچکے ہیں ابھی کچھ دن پہلے نوائے وقت کے مطابق کراچی میں لائنزایریا کا رہائشی جوڑا تین سالہ اکلوتے بیٹے عبد الرحمان کو علاج کیلئے کلینک لایا مگر انہیں کیا خبر تھی کہ ڈاکٹر کی مبینہ غفلت بچے کی موت کا سبب بن جائے گی، ڈاکٹر کی مبینہ غفلت سے بچے کی اچانک موت پر والدین سراپا احتجاج بنے تو علاقہ مکین بھی احتجاج میں شامل ہوگئے مشتعل افراد نے ڈاکٹر کی گاڑی کے شیشے توڑ ڈالے، واقعے کی اطلاع پر پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی بچے کے والد کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کی موت ڈاکٹر کے غلط انجیکشن کے باعث ہوئی ڈاکٹر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، پولیس نے بچے کے لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی کراتے ہوئے ڈاکٹر کو حراست میں لے لیا۔
اس کے علاوہ دوران آپریشن کوئٹہ میں ہونے والا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ سماء نیوز کے مطابق کوئٹہ کے نجی اسپتال کے ڈاکٹر دوران آپریشن مریض کے پیٹ میں قینچی بھول گئے،مریض کو شدید تکلیف میں ڈویژنل ہسپتال سبی لایا گیا، ایکسرے کرانے پر پیٹ کے اندر سے قینچی کی موجودگی ظاہر ہوئی ہے،سبی کے ڈاکٹروں نے مریض کو دوبارہ کوئٹہ ریفر کر دیا۔ رحیم یارخان میں ڈاکٹروں کی مبینہ غلفت کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔ مریضہ کلثوم عاشق علی نے الزام لگایا ہے کہ شیخ زید اسپتال میں زچگی کے دوران ڈاکٹروں نے تولیہ اورپٹیاں پیٹ میں ہی چھوڑ دیئے۔خاتون کے مطابق 6 ماہ تک شدید تکلیف کے بعد ڈسٹرکٹ اسپتال میرپور ماتھیلو میں آپریشن کرایا۔اسپتال کے ڈاکٹرسرجن کنہیا لال کے مطابق متاثرہ خاتون کے پیٹ سے تولیہ اورپٹیاں نکال لی گئی ہیں۔دوسری طرف شیخ زید اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر الیاس کا کہنا ہے کہ شیخ زید ہونے والے آپریشن کے ثبوت مانگے ہیں جس کے بعد تحقیقات شروع کردیں گے۔ڈاکٹروں کی غفلت کے یہ واقعات معمول کی بات لگتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی غلط دوا کے نتیجے میں بچی جان سے چلی گئی۔ بظاہر تو یہ کیس ڈاکٹروں کی غفلت کا شاخسانہ لگتا تھا۔اس سلسلے میں ہم نے مختلف ڈاکٹروں سے بات چیت بھی کی جو آ پ کی معلومات کے لئے دی جارہی ہیں۔
صرف پاکستان ہی میں نہیں یورپ میں بھی اب اینٹی بائیوٹک کا استعمال عام ہورہاہے بیماریوں کی رو ک تھام کے یورپی ادارے کے ایک جائزے کے مطابق یورپی یونین میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لینے والے بیکٹیریا کی وجہ سے سالانہ بنیادوں پر33 ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔بیماریوں سے بچا ئو کے یورپی سینٹر ای سی ڈی سی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایسی بیماریاں جن کے خلاف اینٹی بائیوٹک ادویات کارگر ثابت نہیں ہوتیں ان کی تعداد2007 سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔2007 میں ان بیکٹیریا نے تقریبا 25 ہزار افراد کی جان لی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ان بیکٹریا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بچے اور عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مدافعتی نظام قدرے کمزور ہوتا ہے۔عالمی طبی جریدے لانسیٹ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق نام نہاد سپر بگ سے خطرات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ سائنسدان پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ بیکٹریا آہستہ آہستہ انتہائی طاقتور اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ وہ ادویات ہیں جو انفیکشن کے آخری مراحل میں دی جاتی ہیں۔
ماہر امراض اطفال ڈاکٹر فریدالدین نے سماء سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال اتنا بڑھ گیا ہے کہ پان والے کے پاس سے بھی اینٹی بائیوٹک ادویات مل جاتی ہیں، حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے انسانی جسم میں مختلف ادویات کے خلاف مزاحمت کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔گزشتہ سال فروری میں بھی سپربگ ٹائیفائڈ کئی جانیں نگل گیا تھا۔ گندا پانی، آلودگی اوراینٹی بائیوٹک کا زیادہ استعمال مہلک ٹائیفائیڈ کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہا ہے۔
دعاء فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سیکرٹری اور اسلامک ڈاکٹروں کی تنظیم پیما کے رکن ڈاکٹر فیاض عالم کہتے ہیں عام طور پر اینٹی بائیٹک تین دن پانچ دن دس دن تک کی دی جاتی ہے سوائے اس کے کہ ٹی بی کے کورس کو جو بعض اوقات نو مہینے کا ہوتا ہے یا کسی کو ہڈیوں کا انفیکشن ہو یا آنکھوں کا انفیکشن ہو اس میں جو دوائیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں وہ نو ماہ تک چلتی ہیں۔لیکن اسکے علاوہ عام طور پر بچوں کی بیماریوں تین دن پانچ دن سات دن تک اینٹی بائیٹک دی جاتی ہے۔ مریض کے متعلقین کو پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر سے مرض پوچھے کہ مریض کو کیا مرض ہے۔ بدقسمتی سے گورنمنٹ آف سندھ کے پاس کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں کہ جو اس بات کی جانچ کر سکے کہ آیا یہ ڈاکٹر عطائی ہے یا اصل۔عطائی ڈاکٹروں کی بہتات کے باعث بہت سے بچے ہر سال غلط ادویات پینے سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹکس اہم ادویات ہیں جو بیکٹیریا کے سبب کے لیے نہیں ہیں۔ہونے والی انفیکشن کا علاج کرتی ہیں۔ تاہم، بیکٹیریادوا کو اپنا سکتے ہیں اور اس کے اثرات سے بچنے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں – یہ اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت کہلاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے، اینٹی بائیوٹکس مزیدکام نہیں کرتیں کیونکہ بیکٹیریا اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور دراصل مضبوط ہو جاتے ہیں۔ کچھ بیکٹیریاجو ہسپتالوں، جیسے کہ MRSA،میں انفیکشن کا سبب بنتے ہیں، کئی اینٹی بائیوٹکس کی مزاحمت رکھتے ہیں۔اینٹی بائیوٹکس بیکٹیریا کے سبب ہونے والی انفیکشنوں کاعلاج کرنے کے لیے اچھی ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس وائرس کے سبب ہونے والی انفیکشنوں کے خلاف کام نہیں کرتیں۔ تمام اقسام کا زکام، زیادہ تر کھانسی اور گلے کی خرابی وائرس کے سبب ہوتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق عالمی ماہرین ادویات و صحت نے عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے رجحان کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی تازہ اہم تحقیق میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں سن دو ہزار اور دو ہزار پندرہ کے درمیانی عرصے میں پینسٹھ فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ستر سے زائد ممالک میں ہونے والی اس نئی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔’’پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشا سمیت مختلف نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے تجویز کردہ ڈاکٹری نسخوں کے عمل کو قانون سازی کے ذریعے درست کرنا ہوگا۔ امراض کے اسباب، خاص کر صاف پانی اور صفائی کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے لازمی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال اور ان کے منفی اثرات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے باسی احتیاط کریں اور ڈاکٹرز بھی دوا کی تجویزمیں مزید سوچ بچار کریں کیونکہ اینٹی بائیوٹیک ادویات سپر بگ ٹائیفائڈ کی وجہ بن رہی ہیں۔
اینٹی بائیوٹکس کو ہدایت کے مطابق جاری رکھیں۔اگر پیچش کم ہیں اور آپ کا بچہ بصورت دیگر ٹھیک ہے، تو آپ کو اینٹی بائیوٹکس دینا جاری رکھنا چاہیئے اور گھر پر اپنے بچے کی دیکھ بھال کریں۔اپنے بچے میں پانی کا توازن برقرار رکھیں۔وقفے وقفے سے بچے کو پانی پینے کے لئے دیں۔ پھلوں کے جوس یا کاربونیٹڈ یعنی گیس سے بھرے ہوئے مشروبات نہ دیں، ایسا کرنے سے پیچش مزید بگڑ سکتے ہیں۔کچھ مخصوص کھانوں سے پرہیز کریں.عام طور پر بچہ جو کھاتا ہے اس کو وہ دیتے رہیں، لیکن اس کو بینز اور مرچوں والی غذائیں نہ دیں۔
ڈائیپر ریش کا علاج
اگر پیچش آپ کے بچے کے مقعد کے اردگرد یا ڈائیپر والی جگہ پر ریش کا سبب بنتے ہیں تو:
اس حصے کو پانی کے ساتھ آرام سے دھوئیں۔تھپکی سے خشک کریں۔
اس حصے پر پیٹرولیم جیلی (مثلاً ویسیلین)، زنک سے بنی کریم (پیناٹن یا ینکوفیکس)، یا کوئی دوسری ڈائیپر ریش کریم کی تہ لگائیں۔
ڈاکٹر کے زیرنگرانی پروبائیوٹکس ممکن ہے کے آپ پروبائیوٹکس کے بارے میں سن چکے ہوں جوکہ ”صحت مند” بیکٹریا کی تیاریاں ہیں۔ اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ آیا پروبائیوٹکس اینٹی بائیوٹکس سے منسوب پیچش کی روک تھام یا علاج کر سکتی ہیں، لیکن ان کے استعمال کیلئے یہ تحقیق ابھی تک کوئی فائدہ نہیں دکھا سکی ہے۔ پروبائیوٹکس صرف ڈاکٹر کے زیرنگرانی استعمال کرنی چاہیئے، اگرچہ کہ دہی یا دیگرکھانے کی اشیاء جن میں پروبائیوٹک شامل ہوتے ہیں وہ ٹھیک ہیں۔اس وقت تک دوااستعمال نہ کریں جب تک آپ کا ڈاکٹر آپ کو اس کا مشورہ نہ دے.اپنے بچے کو پیچش کی روک تھام کے لئے ادویات مت دیں مثلاً لوپیرامائیڈ ]اموڈئیم [جب تک کہ آپ کا ڈاکٹر آپ کو وہ تجویز نہ کرے۔ یہ ادویات آنتوں کی سوزش کو مزید بگاڑ سکتی ہیں۔
طبی مدد کب حاصل کریں؟
اپنے معمول کے ڈاکٹر کو فوراً کال کریں اگر آپ کے بچے کو:
شدید پیچش ہیں،نیا بخار ہے،پاخانے میں خون آرہا ہے،بہت تھکا ہوا ہے اور کچھ پی نہیں رہا ہے،اس کے جسم میں پانی کی کمی کی نشانیاں ظاہر ہو رہی ہیں، مثال کے طور پر پیشاب میں کمی،چڑچڑاپن، اورخشک منہ،اگر پیچش بہت شدید ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک میں تبدیلی کی ضرورت ہو۔
اپنے بچے کو قریبی ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں لے جائیں، یا اگر ضروری ہو تو ایمرجنسی پرکال کریں، اگر آپ کے بچے کو:
شدید درد ہے،پاخانے میں بہت زیادہ خون آرہا ہے،مزید بیمار لگ رہا ہے یا ٹھیک ہورہاہے۔
اہم ہدایات:
جو بچے اینٹی بائیوٹکس لیتے ہیں اُن میں پیچش عام ہے۔ زیادہ تر معاملات میں، یہ ہلکے ہوتے ہیں۔جن بچوں میں ہلکے پیچش ہوں اُن کو تجویز کردہ اینٹی بائیوٹکس ختم کرنی چاہیئے۔اس بات کو یقینی بنائیں کہ جسم میں پانی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے آپ کا بچہ مائعات وافر مقدار میں پی رہا ہے۔
ان تمام واقعات سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بچوں کے لئے ایک فیملی ڈاکٹر ضرور ہونا چاہیے دوسری بات یہ کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں انتہائی محتاط رہنا چاہئے صرف گلے کے انفیکشن کھانسی نزلہ بخار یا ان چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے پانچ سے سات دن یا زیادہ سے زیادہ دس دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس سے زیادہ بچوں کو اینٹی بائیوٹک نادی اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں محتاط رہیں۔اور احتیاطی تدابیر کرتے رہیں۔

حصہ