اکیلی

602

شاہجہاں رشید
صبح سویرے سارا گھر بکھرا پڑا تھا۔ پہلے بچوں کو تیار کرکے ناشتا کروایا، ان کے لیے لنچ باکس تیار کرکے بیگز میں رکھے، وین کے آتے ہی انہیں بٹھایا، اور اب بھاگم بھاگ میاں صاحب کا ناشتا بنای،‘ ساتھ ہی اُن کی پکار پر دوڑ دوڑ کر کمرے کے چکر کاٹنے میں ہلکان ہوتی رہی۔ حالانکہ ساری تیاری رات کو ہی کرکے رکھتی ہوں لیکن میرے میاںکو سامنے کی رکھی چیزیں نظر نہیں آتیں، یا پھر صرف میری توجہ حاصل کرنے کے لیے مجھے دوڑائے رکھتے ہیں۔
اللہ اللہ کرکے صاحب تیار ہوکر ناشتے کی ٹیبل پر آئے کہ اچانک ٹیلی فون کی تیز بیل پر میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’’یا اللہ خیر‘‘ کیونکہ اس وقت نہ کوئی مجھے فون کرتا ہے اور نہ ہی میں کسی کو ڈسٹرب کرتی ہوں، کیوں کہ میں سمجھتی ہوں کہ میری طرح ہر گھر کی صبح ایسی ہی ہوتی ہے۔
میرے شوہر نے ہی فون سنا، اور جیسے ہی انہوں نے ’’انا للہ…‘‘ کہا، میرا دل بیٹھنے لگا اور میں وہیں کرسی پر بیٹھ گئی۔ میاں فون بند کرکے میرے پاس آ بیٹھے، کہنے لگے: آئو پہلے ناشتا کرلیں۔ لیکن کیسا ناشتا اورکہاں کا ناشتا؟ میرے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ خالہ رضیہ کی بیٹی ناعمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں حیرت سے ان کی شکل دیکھنے لگی، انہیں کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوئی؟
ناعمہ کی عمر جانے کی تو نہیں تھی، مشکل سے 28 یا 29 سال عمر ہوگی۔ میری حیرت دیکھ کر انہیں بتانا پڑا کہ ’’رات کو کسی وقت ہارٹ فیل ہوگیا، گھر والوں کو صبح علم ہوا۔ ظہر میں تدفین ہے، میں بارہ بجے تک آجائوں گا، اُس وقت تک تم یہ سارا بکھیڑا سمیٹو، بچوں کے لیے لنچ تیار کرو‘‘۔ ’’لیکن بچوں کو کون دیکھے گا؟‘‘ ’’فکر نہ کرو، میں آتے وقت اماں اور شازیہ کو ساتھ لے آئوں گا۔‘‘
گھر سمیٹتے اور کھانا بناتے بارہ بج گئے۔ باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ میں نے جلدی سے الماری سے کپڑے نکالے اور واش روم کی طرف دوڑ لگائی۔ نہاکر سادہ سے کپڑے پہنے، بال تولیہ سے خشک کرکے کیچر لگایا اور دوپٹہ اوڑھ کر باہر آئی۔ ساس کو سلام کیا، نند کو کھانے کی تفصیل بتائی اور جلدی سے آصف کے ساتھ باہر گاڑی میں آبیٹھی۔
خالہ رضیہ کے گھر کے باہر ہی دری پر مرد بیٹھے تھے، اندر عورتوں کا ازدحام تھا۔ بڑی مشکل سے جگہ بناکر اُس کمرے تک پہنچی جہاں ناعمہ سفرِِ آخرت کے لیے تیار کرکے رکھی گئی تھی۔ اس کی بڑی بہن عاصمہ رو رو کر نڈھال ہوچکی تھی۔ میری اس سے بہت اچھی دوستی تھی، مجھے دیکھتے ہی وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ کچھ دیر بعد مرد اندر آئے اور کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے جنازہ اٹھا لیا۔
میں نے عاصمہ کو اپنے ساتھ لپٹا لیا، دوسری طرف سے اس کی بھابھی نے پکڑ لیا، وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ بہت دیر بعد ہوش میں آئی۔ جنازے کے ساتھ ہی بہت سی خواتین چلی گئیں اور گھر سُونا ہوگیا، صرف چند رشتے دار خواتین اور محلے والیاں بیٹھی رہ گئیں۔
میرے پوچھنے پر اس نے آہستہ آہستہ بتایا ’’کچھ عرصے سے ناعمہ بہت چپ چپ رہنے لگی تھی، زیادہ تر کمرے میں رہتی، اگر کوئی مہمان آجاتا یا کوئی رشتہ دیکھنے آجاتا تو وہ چادر اوڑھ کر سوتی بن جاتی، یہاں تک کہ اب تو اُس نے گھر والوں کے ساتھ بھی اٹھنا بیٹھنا اور بولنا چھوڑ دیا تھا۔ گھر کے کاموں میں بھی خاص دل چسپی نہ لیتی۔ اپنے ذمے لگے کام مارے باندھے نمٹاتی، پھر کمرے میں بند ہوجاتی۔‘‘
’’لیکن ایسا کیوں ہوا؟ میں نے پوچھا۔ ’’شاید اس لیے کہ وہ اپنی زندگی کی خوشیوں سے مایوس ہوچکی تھی، کیوں کہ وہ دیکھ رہی تھی کہ اب بھتیجیاں اس کے کاندھوں سے اوپر نکل چکی ہیں، اب آنے والے رشتے اس کے بجائے ان کم عمر لڑکیوں کے لیے سوالی بننے لگے۔ اب بھائیوں کے رویوں میں بھی لچک آنے لگی۔ اس سے پہلے کہ بھتیجیاں دلہن بن کر رخصت ہوتیں، اس نے کفن پہن کر رخصتی کا انتظام کرلیا۔‘‘
’’چلو یہ تو ناعمہ کی کہانی تھی، مگر تمہارے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ میں نے عاصمہ سے پوچھا۔
’’میری کہانی اس سے بھی دردناک ہے۔ جب ابا بوڑھے اور کمزور ہوگئے تو انہوں نے اپنی دکان تیسرے بیٹے کے حوالے کردی اور خود گھر میں رہنے لگے۔ پہلے وہ مہینے کا سامان جوڑیا بازار سے خود جاکر لے آتے تھے، مگر اب ان کی ہمت کم ہونے لگی تو میں ان کے ساتھ جانے لگی۔
ہم رکشا میں سارا سامان لے کر آتے، پھر باورچی خانے میں سارا سامان ٹھکانے سے رکھنا بھی میری ہی ذمے داری تھی۔ بھابھیاں اوپر کے پورشنز میں رہتی تھیں۔ ناشتا اور کھانا پکانا ہم دونوں کی ذمے داری تھی۔ بھابھیاں اپنے بچوں کو تیار کرکے نیچے اترتیں۔ دوپہر میں بھابھیاں اور بچے اوپر چلے جاتے، اکثر مہمان اسی وقت آتے۔ ایک آدھ بار میں بھابھیوں کو بلانے گئی۔ کوئی نہ آئی، میں شرمندہ ہوکر واپس آئی۔ ان مہمانوں کی خاطر تواضع میرا اور ناعمہ کا کام تھا۔
اب آپ بتائیں، اگر ہماری شادی ہوجاتی تو سارے گھر کی صفائی اوپر سے نیچے تک جو ناعمہ کرتی، گھر اور باہر کے سارے کام جو ابا کے بعد میں اکیلی کرتی، پھر گھر کے کام…کس کو کرنا پڑتے؟ مگر آج میں سوچتی ہوں کہ ابا کے سامنے تو اماں صحت مند تھیں اور طاقتور بھی، وہ میرے لیے اسٹینڈ لے سکتی تھیں، مگر نہیں لیا۔ ابا کے بعد اماں واش روم میں گر کر پیرکی ہڈی تڑوا بیٹھیں، پھر وہ ہڈی ایسی جڑی کہ ٹانگ سیدھی رہ گئی۔ اب اماں اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہوگئیں، ہر کام بستر پر ہونے لگا، ایسے میں ناعمہ کی شادی ہوجاتی تو میں اکیلی اماں کو کیسے سنبھالتی؟ کسی بھابھی کو میرے ساتھ لگنا پڑتا، بس اسی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہوئی۔
رشتے تو میرے بھی بہت آئے، مگر بھائی ہر رشتے کو یہ کہہ کر واپس کرتے گئے کہ اس کی آمدنی کم ہے، کسی کا گھر کرائے کا تھا، کسی کا قد چھوٹا تھا، کسی کا رنگ کالا… اور کچھ نہیں تو کسی کی فیملی بہت بڑی تھی، حالانکہ ہمارے اپنے گھر میں چار بھائی، چار بھابھیاں، ایک درجن بھتیجے بھتیجیاں، ہم دو بہنیں اور اماں ابا اتنے لوگ تھے۔ مگر بھائی بیویوں کی آنکھ سے دیکھتے، ان کی زبان سے بولتے تھے۔ناعمہ نے میرے لیے بولنے کی کوشش کی تو بھابھیوں نے کہا کہ تم بچی ہو خاموش رہو۔ میں ناعمہ کے لیے بولی تو مجھ سے کہا کہ کنواری لڑکیوں کا ان معاملات میں بولنے کا کیا کام؟ رہ گئیں اماں، تو نہ جانے کیوں انہوں نے اپنی اہمیت کو سمجھا اور نہ اپنے فرائض کو جانا۔ وہ چاہتیں تو کہہ سکتی تھیں کہ میری بیٹی گزارہ کرسکتی ہے کم آمدنی میں، کرائے کے گھر میں، زیادہ لوگوں میں، یا پھر چھوٹے قد اور کالے رنگ والے کے ساتھ بھی خوش رہ سکتی ہے، بس اس کا اپنا گھر تو ہوگا، اس کا ایک شوہر ہوگا، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہوں گے۔آج میں یہ سوال تو نہ کررہی ہوتی کہ میں اکیلی کیسے رہوں گی؟ کیا ایک عورت جو ماں بھی ہو، اتنی کمزور ہوسکتی ہے کہ اپنی بیٹیوں کے لیے کوئی فیصلہ نہ کرسکے؟
ماں کو مضبوط ہونا چاہیے، ماں کو باپ کے بعد سائبان بن جانا چاہیے، ماں کو اپنی بیٹیوں کو اس طرح تنہا چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے… نہیں جانا چاہیے‘‘۔ عاصمہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ میں بھی آنسو بہاتی رہی مگر کچھ نہیں کرسکتی تھی، کچھ نہیں۔

حصہ