سوچ کے دائرے

495

صبیحہ اقبال
ممو دیر تک کمرے میں اسٹور کے دروازے کے عقب میں سہما ہوا کھڑا رہا تھا، اس انتظار میں کہ اب اماں آئیں گی اور اسے کان سے پکڑ کر ہلا ماریں گی۔ اسے یاد تھا کہ دو دن قبل ہی تو ماچس کی ڈبیہ گیلی کرنے پر اسے کتنی باتیں سننی اور کتنے تھپڑ کھانے پڑے تھے، اور اِس وقت تو ایک نہ دو پورے 250 روپے کے تیل کی تھیلی اس کی ٹھوکر سے گر کر برباد ہو ئی تھی۔ آج اماں کا پارہ کس نقطۂ جوش پر ہوگا، یہ تصور کرکے ہی وہ رونے کی حد تک پہنچ چکا تھا۔
مگر اماں اب آئیں نہ جب آئیں، تو کیا اماں ابھی تک میرے اس کارنامے سے بے خبر ہیں؟ یہ سوچ کر ممو نے پردے کے پیچھے سے گردن نکالی تو مارے حیرت کے اس کے حلق سے چیخ سی نکل گئی۔
یہ اماں ہی ہیں ناں؟ جو بڑی خاموشی اور کوشش سے بہتے تیل کو برتن میں سمیٹنے کی کوشش کررہی تھیں۔ کل تو دو روپے کی ماچس کی ڈبیہ پر آگ بگولہ ہورہی تھیں اور آج 250 روپے کا تیل گر جانے پر ان کو ذرا افسوس نہیں۔ اماں کے اطمینان پر خوف سے حلق میں پڑنے والے کانٹے خودبخود ہی دور ہوگئے تھے، پھر بھی وہ شش و پنج کی کیفیت میں ماں کے قریب رکھے مٹکے کے پاس آکر پانی پینے لگا کہ ماں کے موڈ کا درست اندازہ کرسکے۔ اور اس وقت تو مارے حیرت کے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جب اس نے اماں کے چہرے پر اطمینان کی جھلک بھی دیکھی۔ ’’اماں‘‘ مارے حیرت کے اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا۔
’’ہزار مرتبہ کہا ہے دھیان سے چلا کر، چلتا کہیں ہے، زلزلہ کہیں آتا ہے۔‘‘
لیکن اس وقت ممو کی سوچوں میں زلزلہ تھا اور بارہ سالہ محمودالحسن اپنی معافی کی کوئی توجیہ تلاش نہ کر پارہا تھا کہ اماں تو چھوٹے سے نقصان پر بچوں کو دھن کر رکھ دیتی تھیں۔ اسے یاد تھا ابھی پچھلے ہفتے باجی سے ہنڈیا جل گئی تھی تو اماں نے کیسی قیامت برپا کی تھی۔ پر اماں کرتی بھی کیا، بابا کے آنے کا وقت قریب تھا اور گھر میں کوئی دوسری چیز کھانے کو نہ تھی، تھکے ہارے بابا آتے اور کھانے کو نہ ملتا تو؟ آگے ممو نہ سوچ سکا۔
’’اماں بس پتا نہیں یہ تیل کیسے لڑھک کر گر گیا؟‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں… ممو جب تیل گرتا ہے ناں تو کوئی بڑی آفت ٹلتی ہے، لیکن بندے کو پھر بھی احتیاط تو کرنی چاہیے ناں، اگر خدانخواستہ چائے گر جاتی تو؟‘‘ اماںکو چائے کے چند گھونٹوں کے ضائع ہونے کا خوف تھا۔
’’لیکن اماں، تیل کا نقصان تو چائے سے بہت زیادہ ہے اور آپ تو پائی پائی جوڑتی ہیں کہ گھر کے اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں…‘‘ ممو دل ہی دل میں سوچتا ہوا سر جھٹک کر باہر نکل گیا۔
…٭…
’’وہ… وہ… اماں! وہ جو ہماری گلی کے نکڑ پر حمید صاحب رہتے ہیں ناں، وہ گھر میں استعمال کے لیے تیل کا کنستر لا رہے تھے کہ پیچھے سے ٹرک نے ٹکر مار دی، سارا تیل سڑک پر بہہ گیا اور حمید صاحب کا سر تو بالکل کچل گیا۔‘‘ ممو ہکلا ہکلا کر بول رہا تھا۔ ’’اماں پورا کنستر بہہ گیا تیل کا، یقینا ان کے گھر کی کوئی بڑی آفت ٹل گئی ہوگی ناں؟‘‘ وہ ماں سے سوال کررہا تھا۔

حصہ