ذرے نہیں ستارے ہیں ہم

641

توقیر عائشہ
دعا کے ساتھ چوتھا اور آخری سیشن بھی اختتام کو پہنچا اور میں اپنی نشست پر بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔ بے اختیار سارے مدرسین، مربین، اور منتظمین کے لیے دل کی گہرائی سے دعا جاری ہوگئی جنہوں نے اس عظیم کام کا بیڑا اُٹھایا اور اللہ کی مدد سے آج پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا۔ اپنی تربیت کی خاطر مل بیٹھنے والی سبھی بہنیں کم و بیش ایسے ہی احساسات سے دوچار تھیں۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ جماعتِ اسلامی حلقہ خواتین کی مرکزی قیادت نے اِس بات پر غور و فکر کیا کہ جس طرح کسی بڑے انڈسٹریل یونٹ میں کبھی معمول کا کام روک کر مشینوں کے کل پرزوں کی صفائی اور اوورہالنگ کی جاتی ہے، اسی طرح تحریک کی اگلی صفوں کے کارکن یعنی ارکان و امیدواران جو تحریک کے اصل کل پُرزے ہوتے ہیں، ان کو بھی دل اور روح کی صفائی کے ایک پروگرام سے گزارا جائے۔ اِس مقصد کے لیے’’انقلاب بذریعہ کردار‘‘ کے عنوان کے تحت ہفتہ وار چار سیشنز پر مشتمل تربیتی کلاسز کا نصاب تیار کیا گیا۔ ہر سیشن کا ایک ذیلی عنوان تھا جو اپنے محور یعنی ’’انقلاب بذریعہ کردار‘‘ کی عکاسی کررہا تھا۔
دنیا کی دیگر انقلابی تحاریک کے برعکس اسلامی تحریک اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کی ابتدا تحریک برپا کرنے والے کے ذاتی کردار سے ہوتی ہے۔ اوّلین وحی کے نزول پر حضرت خدیجہ ؓ کے لبوں سے نکلنے والے بے ساختہ الفاظ اس کا ثبوت ہیں:
’’آپؐ تو سچ بولتے ہیں، صلۂ رحمی کرتے ہیں، امانتیں ادا کرتے ہیں، مجبوروں کو سہارا دیتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں، اللہ آپؐ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔‘‘
اخلاق و کردار ہی وہ بنیادی سرمایہ تھا جسے لے کر رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور تمام مخالفتوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اِس ابتدائی سرمائے کے بغیر اسلامی انقلاب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ارکان ِ جماعت کے کردار و اخلاق اسلام اور جماعتِ اسلامی کا تعارف ہیں۔ ان نشستوں کے ذریعے اخلاق وکردار کے معیارِ مطلوب کو ہر پہلو سے ارکان کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ ہر بہن اس آئینے میں اپنے آپ سے سوال کرے کہ کیا میرے معاملات و اخلاق افرادِ معاشرہ کو اسلامی انقلاب کا طلب گار اور مشتاق بنا رہے ہیں؟ خاص بات یہ تھی کہ پورے پاکستان میں بیک وقت ان نشستوں کا انعقاد ہوا اور چار ہفتہ وار سیشنز میں یہ کیمپ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
’’واعتصمو بحبلِ اللہ جمیعا‘‘پہلے سیشن کا عنوان تھا جس کا آغاز سورۃ الفتح کی آخری آیات کی تلاوت سے ہوا۔ ’’انقلاب بذریعہ کردار‘‘ کے موضوع پر قیّمہ پاکستان محترمہ دردانہ صدیقی نے آڈیو خطاب کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اقامتِ دین کے علَم برداروں کو پہلے اپنے رویوں، عادات اور معاملات میں اخلاقی انقلاب لانا ہوگا۔ ایمان کا بیج دل کی زمین پر اُگتا ہے۔ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اس کا پھل ہیں۔ اور پھل کے میٹھا ہونے کا اظہار اخلاق اور کردار سے ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اپنے کردار میں انقلاب برپا کرنے کا میکنزم واضح کرتی ہے۔ معتمدہ ضلع شمالی بشریٰ مقصود نے ان کلاسز کا تعارف اور طریقہ ٔ کار پیش کیا اور تمام شرکاء کو گروپس میں ان کی تقسیم سے آگاہ کیا۔
تاریخِ جماعتِ اسلامی کمیٹی کی رُکن اور WWOکی رہنما محترمہ روبینہ فرید نے مطالعے کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دلچسپ مثال دی کہ کھانا جلدی جلدی کھایا جائے تو ہضم نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی کتاب بھی جلدی جلدی پڑھ لی جائے تو دل اور دماغ بھی اسے ہضم نہیں کرپاتے۔ اپنے کاموں میں سے غیر ضروری کام، اور اپنی گفتگو میں سے غیر ضروری گفتگو نکال دی جائے تو مطالعے کے لیے بہت اچھا وقت مل سکتا ہے۔
ایک ہفتے بعد دوسرے سیشن کے لیے اسی مقام پر روشن چہروں کے ساتھ تمام شرکاء موجود تھے۔ آج تو سردی بھی شدت کی تھی۔ ہم نے بھی اپنی ڈائری نکالی، شال سمیٹی اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔ اس سیشن کا مرکزی خیال ’’تقویٰ کی اساس خوفِ خدا، اور احسان کی اساس محبتِ خدا‘‘ تھا۔ سورۃ الفجر کی پُرسوز وڈیو تلاوت فضا میں گونجی۔ کچھ ہی دیر میں پورے نظم و ضبط کے ساتھ چاروں گروپ مطالعے کے لیے دائروں میں بیٹھ چکے تھے۔ کہیں عرش کی بلندیوں سے ربِ کریم اُنہیں پیار سے دیکھ رہا تھا… فرشتوں نے اپنے پر پھیلا دیے تھے… طمانیت اور سکون کا نزول ہوا… پھر نہ گھر کی مصروفیات یاد رہیں، نہ ادھورے کام… ہر گروپ کا موضوع جدا تھا۔ ’’مسلم سے محسن تک‘‘ کے اس سفر میں مطالعے کے موضوعات اس طرح تھے: سیرتِ صحابیات و مجاہدات، تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں، منتخب سورتوں سے انبیائے کرام کے محاسن، بخاری شریف کے باب الایمان سے منتخب احادیث کا مجموعہ۔
وقفے کے بعد کا پروگرام اسی سفر کا دوسرا پڑائو تھا۔ ہر گروپ کے لیڈر نے اپنے مطالعے کے نکات پریزنٹیشن کی صورت میں حاضرین کے سامنے رکھ دیئے۔ اس طرح ہر گروپ نے بقیہ تینوں موضوعات کا بھی مطالعہ کرلیا۔ سیرتِ مجاہدات کی پریزنٹر نے ایک وڈیو کلپ دکھایا جس میں اخوان کا ایک نوجوان روشن چہرے کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ سے آخری ملاقات کر رہا تھا او ر ہم سامعین تا دیر اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے۔
ناظمِ صوبہ سندھ عطیہ نثار صاحبہ نے’’ ایمان کی بھٹی سے نکلے ہوئے افراد‘‘ کے موضوع کا احاطہ کیا۔ اپنی ذات، خاندان اور اپنی اجتماعیت میں تین صفات ِ عالیہ قناعت، ایثار اور احسان کو جانچنے کا ایک طریقۂ کار دیا۔ بہت ہی گھریلو اور عام فہم مثالوں سے وضاحت کرکے عمل کی راہیں کشادہ کردیں۔
تیسرے سیشن کا نام ’’بنیان مرصوص‘‘تھا۔ سورۃ الصف کے آخری رکوع کی تلاوت سے ابتدا ہوئی۔ معتمدہ صوبہ سندھ فرح عمران صاحبہ کی تذکیری گفتگو ’’جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں‘‘کے عنوان سے تھی۔ اُنہوں نے اپنے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے قرآنی آیات ادخلو فی السلمِ کافہ، قولو قولاََ سدیدا، کاظمینَ الغیض و عافین َ عنِ الناس، کونو مع صٰدقین کے آئینے میں اپنے ایمان کو جانچنے کی دعوت دی۔ اب اسکرین پر’’ رحماء ِ بینھم‘‘ کے الفاظ نمایاں ہوئے۔ معتمدہ ضلع شمالی بشریٰ مقصود کچھ تصویریں لائی تھیں۔ اور ثابت ہوا کہ تصویریں بولتی ہیں۔ ایک تصویر میں دو دیواریں دکھائی گئی تھیں۔ ایک دیوار مستحکم اور ایک شکستہ تھی۔ یہ دراصل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی تشریح تھی کہ آپس کے تعلقات کا بگاڑ اجتماعیت کو کھوکھلا کردیتا ہے، جبکہ تعلقات کی مضبوطی اجتماعیت کو استحکام اور حُسن عطا کرتی ہے۔ دوسری تصویر میں تحریک کی چھتری کے نیچے کارکنان کی حفاظت، اتحاد اور محبت کا اظہار ہورہا تھا۔ بطخ اور اُس کے بچوں کی وڈیو نے سمجھا دیا کہ امیر اور مامور کے مابین محبت اطاعت کو آسان کردیتی ہے۔
اب گروپ ڈسکشن کا وقت تھا۔ ہر گروپ کو دورِ نبویؐ کا ایک واقعہ مطالعے کے لیے دیا گیا۔ نگران نشرو اشاعت کراچی ثناء علیم نے اس مطالعاتی سرگرمی پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امیر کے مزاج میں سختی، بے صبری اور مشاورت میں کمی کارکن کو بددل اور مایوس کرتی ہے، جبکہ امیر کی حکمت، قوتِ فیصلہ کی مضبوطی اور خود اعتمادی کی بدولت ملنے والی کامیابیاں مامورین کا حوصلہ بلند کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور نشر و اشاعت کراچی کی نائب شبانہ نعیم نے تنظیم اور باہمی تعلقات کے مطلوبہ رویّے کے عنوان کا ہمہ پہلو احاطہ کیا۔ اُن کی اِس بات نے لرزا دیا کہ دل کی رضا کے بغیر منافقت کے ساتھ کی جانے والی اطاعت قبولیت کا دروازہ بند کردیتی ہے۔ یہ اس سیشن کا آخری پروگرام تھا۔
ایک ہفتہ مزید گزر گیا۔ سردی اور بادلوں کی دبیز تہ، اوپر سے محکمہ موسمیات کی طوفانی بارش کی پیشن گوئی آخری سیشن کے منتظمین اور شرکاء سب کا ذہن منتشر کیے ہوئے تھی۔ دعائوں اور صلوٰۃ الحاجات کے اہتمام کے بعد اُمید تھی کہ اللہ رحمن انہیں شرفِ قبولیت عطا فرمائیں گے۔ اور ہوا بھی یہی۔ یخ بستہ ہوائیں تو چلیں لیکن نہ طوفان تھا نہ بارش… بلکہ وقفے کے دوران مزیدار طعام، بھاپ اُڑاتی چائے اور ہم مقصد بہنوں کا ساتھ… سب نے بہت لطف دیا۔
’’میرا گھر… میری جنت‘‘ آخری سیشن کے پروگرام کا عنوان تھا۔ سورۃ التحریم کی تلاوت سے ابتدا ہوئی۔ خاندانوں میں تنازعات کیوں جنم لیتے ہیں؟ معتمدہ سندھ عظمیٰ عمران نے اپنے نرم سے لہجے میں اس پر اظہارِ خیال کیا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ گھر والے ساتھ نہ ہوں تو کوئی چیز، منظر، کھانے اچھے نہیں لگتے۔ تو ربِ کریم بھی صالح اعمال و اخلاق والوں کے درجات بڑھا کر اُنہیں جنت میں باہم ملا دیں گے۔ تقویٰ کی کمی، بدلحاظی، عدم برداشت، بے صبری، بدگمانی قریبی رشتوں میں تنازعات پیدا کرتے ہیں۔ منفی جذبات کا پنپنا نہ صرف دل بلکہ جسم کو بھی بیمار کرتا ہے۔
ضلع شمالی کی ٹیم ممبر ربیعہ توصیف نے ساس بہو، دیگر گھر والے اور رشتے ناتے کرنے کی وجوہات پر معاشرے کی عکاسی کرنے والے کچھ کیس سامنے رکھے اور اس میں موجود تنازعات کے حل شرکاء کی مدد سے تلاش کیے۔ ایک اورگروپ سرگرمی کے ذریعے ماں، زوجین، خاندان کی دیگر خواتین کے آپس کے معاملات زیرِ بحث آئے۔ اس وقت قیّمہ پاکستان دردانہ صدیقی ہمارے ہی درمیان تشریف فرما تھیں اور ہم چپکے چپکے اُنہیں دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ انہوں نے ’’اپنے لیے ایک نیا جہاں پیدا کریں ‘‘ کے عنوان سے شرکاء سے خطاب کیا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اپنے کردار کے ذریعے انقلاب لانے والے جان لیں کہ جب تک اپنی ذات میں مطلوبہ اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کا ارادہ نہ ہو، کوئی بھی تربیتی پروگرام کارگر نہیں ہوسکتا۔ فرد کی ذمہ داری ارادہ، کوشش اور دعا ہے، اور نظم کی ذمہ داری معاونت اور مشورے فراہم کرنا ہے۔ اللہ کسی کو مشکل میں نہیں ڈالتا مگر مومن کو کردار کی پختگی کے لیے آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے۔ کارکنوں کا باہمی تعلق ان آزمائشوں میں استقامت سے کھڑے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
آج تو مرکز، صوبہ، شہر اور ضلع کے معزز قائدین اور ذمہ داران کی موجودگی سے ہمارا ہال جگمگا اُٹھا تھا۔ ناظمہ کراچی اسماء سفیر نے اختتامی خطاب میں کہا کہ جس طرح کسی عمارت پر کیا جانے والا رنگ و روغن اُسے روشن اور چمک دار بناتا ہے، اسی طرح اب ان کلاسز سے گزرنے والوں کی شخصیت بھی ایسی ہی روشن اور دلکش ہوجائے کہ اطراف کے لوگ اُن میں کشش محسوس کریں۔ ناظمہ ضلع شمالی مہر افشاں نے تمام معزز ذمہ داران، منتظمین اور شرکاء کے لیے شکرگزاری کے کلمات پیش کیے۔ پھر سب نے عمل کی قوت حاصل کرنے کے لیے اللہ کے دربار میں اپنے دستِ طلب بڑھا دیئے۔
تذکیر، پریزنٹیشن اور دیگر سرگرمیوں کے لیے جو وسائل، تکنیکی مہارتیں اور انتظامی امور درکار تھے، حقیقت تو یہ ہے کہ منتظمین اور مربی بہنوں نے اس کا حق ادا کردیا تھا، اور شرکاء نے بھی پورے نظم و ضبط، پابندیٔ وقت اور سکون کے ساتھ ان کلاسز سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان تربیتی مراحل نے میرے اخلاقی وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں تو بڑی پُرسکون تھی، مگر اس آئینے نے تو میرا اندر مجھ پر کھول دیا۔ شخصیت کے داغوںکو دیکھنے کی دعوت دی، دور کرنے کی فکر دی، اور سیرتِ صحابیات و مجاہدات کی روشنی تھما کر اپنی شخصیت میں انقلاب لانے کے تمام وسائل مہیا کردیئے۔

موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان

’’کیوں جی، آپ کا گھر جانے کا ارادہ نہیں؟‘‘ ایک منتظم بہن پوچھ رہی تھیں۔ میں نے چونک کر سراُٹھایا اور مسکراتے ہوئے کہا ’’کیوں نہیں!! وہی تو میرا اصل محاذ ہے۔‘‘ اور اپنا سامان سمیٹ کر ہال سے باہر نکل آئی۔

حصہ