قرض

471

ہادیہ امین
وہ روئے جا رہی تھی۔۔مستقل مسلسل۔آنسو تھے کے تھم ہی نہیں رہے تھے۔مزید حیرت کی بات یہ تھی کی ربیع، اس کا پیارا بھائی، جان سے پیارا بھائی، جس نے کبھی اس کو رونے ہی نہیں دیا تھا، جو اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھ کر پریشان ہو جاتا تھا، جس کے چہرے پر ہلکی سی اداسی اسے بے چین کر دیتی تھی۔۔ آج وہ اسے رونے دے رہا تھا۔۔ بلکہ شاید وہ خود بھی رو رہا تھا۔۔ مصباح کو نظر نہ آیا کیونکہ وہ جب بھائی کی طرف دیکھتی، آنکھیں بری طرح بھیگ جاتیں۔۔ پتہ نہیں یہ تعلیم تھی یا تربیت، جس نے بھائی کو بہن کے لئے ایسا بنا دیا تھا۔۔ تعلیم کی تو وہ صرف کوشش ہی کرسکتی تھی، مگر تربیت، ہاں یہ اس کا عظم تھا کہ وہ اپنی اولاد کو اچھا انسان ضرور بنائے گی۔۔ مگر آج شاید سونے پہ سہاگہ ہو گیا تھا۔۔
٭…٭
ربیع اور مصباح کے والد رکشہ چلاتے تھے۔ امی محلے والوں اور اچھے گھروں کے کپڑے سلائی کیا کرتیں۔ دونوں بہن بھائی اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔۔گزارہ بہت بہتر ہو رہا تھا۔۔ پھر اچانک رکشہ کے ایکسیڈینٹ کی وجہ سے ربیع اور مصباح کے والد کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔۔ رکشہ کرائے کی تھی۔وہ واپس کرنی پڑی۔۔تھوڑی بہت جمع پونجی علاج معالجہ میں لگ گئی۔۔سلائی کی وجہ سے کچھ جاننے والوں نے مہانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔۔مگر گزارہ اب بھی مشکل ہو گیا تھا۔۔ زندگی کی گاڑی مشکل سے رواں دواں تھی کہ ایک دن اماں گیارہ سال کی مصباح کے پاس آئیں اور آنکھوں میں آنسو بھر کے کہنے لگیں،”دیکھ مصباح میری بچی! تم جانتی ہو گھر کے حالات کیا ہو گئے۔۔ میں نے خرچہ پورا کرنے کے لیے گھروں میں کام بھی شروع کردیا۔ ۔بیٹا مجھے تم سے ایک بات کہنی تھی۔۔ دیکھو برا نہ ماننا۔۔مجھے پتہ ہے تمہارا دل بہت ٹوٹے گا مگر اللہ نے چاہا تو تم ضرور استانی بنو گی۔۔ بیٹا اب مجھے تمہارا اسکول ختم کرانا ہوگا۔۔ فیس کے پیسے نہیں بچتے۔۔ میں کام پہ جاتی ہوں تو ابا کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔ تمہیں گھر پہ رکنا ہوگا۔۔رہا بھائی!! تو اسکی پڑھائی ضروری ہے۔۔وہ لڑکا ہے۔۔ زمانے کی اونچ نیچ سمجھے گا تو ہمارے ساتھ دنیا کا مقابلہ کرے گا۔۔ خدا کے بعد اب وہی ہمارا سہارا ہے۔۔”
مصباح کے دل میں بہت کچھ ٹوٹا تھا۔۔ اس کے تو سارے خواب ہی پڑھائی سے جڑے تھے۔۔ لوگ اسکے ابا کو کہتے ضرور تھے کہ بیٹی کو پڑھا کے کیا کرنا مگر ابا کی ضد تھی کہ ربیع کے ساتھ ساتھ مصباح بھی ضرور پڑھے گی چاہے زندگی میں تھوڑا بہت سمجھوتہ ہی کرنا پڑے۔۔ مگر اب تو اسکے ابا بس خاموشی سے چھت کو ہی دیکھتے رہتے تھے۔۔ وہ اماں کے اس فیصلے سے قطعا خوش نہ تھے مگر مجبوری کے آگے مجبور ہو گئے۔۔۔
دوسری طرف ربیع نے ٹھانی کہ وہ جو پڑھے گا گھر آکر مصباح کو ضرور پڑھائے گا مگر یہ کوشس بھی ڈیڑھ دو مہینے سے زیادہ نہ چلی۔۔کبھی مصباح سلائی اور گھر کے کام میں مصروف تو کبھی ربیع کی پڑھائی کی مصروفیت۔۔ مگر جب ربیع کتابیں کھول کر ہوم ورک کرتا تو مصباح بہت دیر تک اسے دیکھتی اور پھر خود ہی پانی پی کر سنبھل جاتی۔۔کبھی اس کو اسکول کی سہیلیاں بہت یاد آتیں۔۔ وہ پرانی کاپیاں نکال کر کبھی اپنی ٹیچر کے سائن پر ہاتھ پھیرتی تو کبھی کاپی کے آخری پیج پر سہیلیوں سے کی گئی باتیں یا کوئی لکھی خاص بات پڑھتی۔۔ ربیع سب دیکھتا رہتا۔۔وہ جانتا تھا مصباح کیوں خاموش رہتی ہے۔۔کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ پڑھائی چھوڑ کر مصباح کے کام کرے اور مصباح کو اسکول داخل کرادے مگر وہ یہ بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔ وہ جہاں تک ممکن ہوتا اکلوتی بہن کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔مصباح کی شادی ہو گئی۔۔اب ربیع محنت کر کے چارٹڈ اکائونٹنٹ بن گیا تھا اور مزید پڑھائی کے ساتھ ساتھ اچھی نوکری کر رہا تھا۔۔ آج ایک اچھے اسکول کے باہر سے گزرتے ہوئے اسنے اپنے بھانجے کے لیے اسکول کا ایڈمیشن فارم خریدا اور بہن کے گھر چل دیا۔۔وہ جانتا تھا کہ مصباح کے گھر کے حالات اتنے اچھے نہیں کہ اچھے اسکول کی فیس ادا کی جاسکے اور نہ ہی اس کے گھر میں پڑھائی کا اتنا شوق ہے۔۔ مگر وہ بہن کے دل کی خواہش سمجھتا تھا۔۔
“مصباح تمہارا قرض ہے مجھ پر۔۔تم نے میری خاطر اپنی پڑھائی چھوڑی تھی۔۔ یہ تمہارے بیٹے کا ایڈمیشن فارم ہے۔۔اس کی پڑھائی کا سارا خرچہ میرے ذمے ہوگا جب تک اس کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی۔۔ یہ میرا وعدہ ہے اور میں اسے ہمیشہ نبھانے کی پوری کوشش کروںگا ”
مصباح کے منہ میں الفاظ ختم ہو گئے اور وہ بس روئے جا رہی تھی۔۔ وہ کوئی قرض نہیں تھا۔۔ بس پریشانیوں میں ایک دوسرے کے لیے دی گئی قربانیاں تھیں اور اور جہاں رشتوں میں خلوص ہو، وہاں قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جاتا…

رب کا شکر کرو!!

ہبہ فاطمہ- کراچی

رب ہے سب سے بڑا
رب نے بنائے پھول
رب نے بنائی تتلیاں
رب نے بنائے جانور
رب نے بنائی دنیا
لوگوں رب کا شکر کرو
لوگوں اچھے کام کرو
تاکہ دوزخ سے بچ جائو
اور جنت کو تم لے لو!!

حصہ