یومِ پاکستان

561

عمیمہ خان
اشعر اسکول سے آئے تو کچھ خاموش سے تھے جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں یہ بات اشعر کی امی نے محسوس کی اور پوچھا کیا بات ہے آپ کی مند سے دیکھائی دے رہے ہیں۔ اشعر نے کہا امی کوئی خاص بات نہیں! امی نے کہا کہ خاص نہ سہی عام ہی سہی کوئی بات تو ہے۔ اشعر نے کہا امی کل 23 مارچ ہے اسکول میں سب کہہ رہے تھے یوم پاکستان ہے۔ امی ہم تو پاکستان کا دن 14 اگست کو مناتے میں جھنڈیاں لگاتے ہیں، پرچم لہراتے ہیں، ملی نغمے سنتے ہیں یعنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ 23 مارچ کہا ہے؟ اشعر کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بیٹا یوم پاکستان 23 مارچ اور یوم آزادی 14 اگست کو مناتے ہیں یہ دونوں دن ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اشعر نے کہا دونوں دن اہم کیسے ہو سکتے ہیں 14 اگست کو تم ہم نے آزادی حاصل کی تھی پر 23 مارچ کو کیا ہوا تھا۔ امی نے اشعر سے کہا کہ آپ اطمینان سے بیٹھ جائیں اور بات کو غور سے سنیں ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔ بات دراصل یہ ہے پاکستان ایک طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے تحریک کا آزادی میں کئی موڑ آئے، کئی روکاوٹیں حائل ہوئیں مگر انڈیز سے آزادی کا شفر جاری رہا۔ 23 مارچہ 1940ء کو ایک قرار داد کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا گیا یہ حصولِ پاکستان کیل یے کی جانے والی کوشش کا لقطہ آغاز تھا اسی لیے 23 مارچ کی بڑی اہمیت ہے اس دن کی اہمیت تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہیں دن ہونے والے جلسے میں منظور کی جانے والی قرار داد کی روشنی میں طویل جدوجہد کے بعد ہمیں (14 اگست 1947ء) ملک پاکستان حاصل ہوا۔ اشعر جو بڑے غور سے اپنی امی کی باتیں سن رہے تھے۔
فوراً بولے یہ تو سب ٹھیک ہے مگر ہم (23 مارچ) کو اِسی طرح نہیں مناتے جس طرح 14 اگست کو مناتے ہیں کہا ہم نے یوم آزادی (23 مارچ) کو بھلا دیا ہے۔ آخر کیوں؟ امی نے کہا بیٹا بات یہ نہیں ہے اس دن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا اس دن کے حوالے سے سیمنار ہوتے ہیں، تقاریر ہوتی ہیں اہم سرکاری عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے مگر ہم نے قرار داد پاکستان کو بھلا دیا ہے اس مقصد کو بھول بیٹھے ہیں کہ ہم نے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے لیے حاصل کیا تھا اپنی منزل اور مقصد ہے دور ہونے کے باعث ہم مشکلات میں مبتلا ہیں۔ علاقائی، لسانی مذہبی گروہ بندی کا شکار ہیں اگر پاکستان کو اس کے اصل مقصد سے جوڑ دیا جائے تو ہم اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔

مسکرائیے

چایک انجینئرنگ کالج کے تمام اساتذہ کو سیر پر لے جانے کے لیے ایک ✈جہاز میں بٹھایا گیا .. !!
جب تمام اساتذہ بیٹھ گئے تو پائلٹ نے خوشی اور جوش بھرے لہجے میں اعلان کیا-
’’آپ تمام محترم اساتذہ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جس جہاز میں آپ بیٹھے ہیں اسے آپ ہی کے کالج کے ذہین طالب علموں نے بنایا ہے … !!‘‘
بس پھر کیا تھا .. !!
اتنا سنتے ہی تمام اساتذہ اس خوف سے نیچے اتر گئے کہ کہیں جہاز حادثے کا شکار نہ ہو جائے … !!
لیکن پرنسپل صاحب بیٹھے رہے … !!
یہ دیکھ کر پائلٹ ان کے پاس گیا اور دریافت کیا….
سر…. تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کا نام سنتے ہی ڈر کر اتر گئے لیکن آپ کیوں نہیں اترے .. ؟؟
کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا.. ؟؟
پرنسپل نے دل کو چھو جانے والا جواب دیا:
مجھے اپنے کالج کے اساتذہ سے بھی زیادہ اپنے طالب علموں پر اعتماد ہے…..

حصہ