پی ایس ایل۔۔۔ کرکٹ کا جنون سرچڑھ کر بولا

673

زاہد عباس
مجھے بچپن سے ہی کرکٹ کا کھیل بہت پسند ہے۔ جب ہم اسکول جایا کرتے تھے اُس زمانے میں پاکستانی ٹیم میں ماجد خان، عمران خان، سرفراز نواز، جاوید میاں داد، صادق محمد، مشتاق محمد، ظہیر عباس، وسیم حسن راجا، آصف اقبال اور عبدالقادر جیسے نامور کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اُس زمانے میں زیادہ تر ٹیسٹ کرکٹ ہی کھیلی جاتی تھی، ایک روزہ میچز بہت کم ہوا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ کرکٹ فاسٹ ہوتی چلی گئی اور ایک روزہ میچز لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے، یعنی تماشائی ٹیسٹ میچوں کے بجائے ون ڈے میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ 1980ء کی دہائی سے ہی پاکستانی ٹیم کا شمار دنیائے کرکٹ کی بہترین ٹیموں میں ہونے لگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وسیم اکرم، وقاریونس، شعیب اختر، سلیم ملک، انضمام الحق، محمد یوسف، ثقلین مشتاق، شاہد خان آفریدی اور یونس خان جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی میں پاکستان نے کرکٹ کے میدانوں میں حکمرانی کی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اُس زمانے میں کائونٹی کرکٹ میں بھی ان پاکستانی کرکٹرز نے پاکستان کا نام روشن کیا۔
؎کاروبارِ دنیا میں تیزی آتے ہی سب کچھ بدلنے لگا، یوں کرکٹ کا فارمیٹ بھی تبدیل ہوگیا، اور کرکٹ ٹیسٹ اور ون ڈے سے سمٹ کر ٹی ٹوئنٹی تک آپہنچی، یعنی ٹی ٹوئنٹی میچز کا آغازہوا، لیکن بدقسمتی سے 2009ء میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے نتیجے میں کرکٹ پاکستانی میدانوں سے روٹھ گئی۔ دہشت گردی کے اس واقعے کو بھارت نے خاصی ہوا دی۔ بھارت کے اس پروپیگنڈے کے باعث انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ چوں کہ کرکٹ پاکستانی قوم کے خون میں شامل ہے اس لیے بھارت کی جانب سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کے باوجود ہماری نوجوان نسل میں کرکٹ سے محبت کم نہ ہوئی، بلکہ ان حالات میں بھی پاکستان کو مصباح الحق، شعیب ملک، سعید اجمل جیسے کئی نامور اور توانا کھلاڑی ملتے رہے۔
یہ بات سچ ہے کہ کسی کے لیے گڑھا کھودنے والا خود اس میں جا گرتا ہے۔ یہی کچھ بھارت کے ساتھ بھی ہوا۔ کرکٹ میں نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے نام پر بھارت نے آئی پی ایل کا آغاز کیا، لیکن پاکستان کے نوجوان کرکٹرز کو آئی پی ایل میں شامل نہ کرکے کرکٹ کے کھیل کو بھی سیاسی اکھاڑہ بنا ڈالا۔ اس ساری صورت حال اور بھارت کی پاکستان دشمنی کے باوجود پاکستانی نوجوان کھلاڑیوں نے دنیا بھر کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوایا۔ ویران ہوتے کرکٹ کے میدانوں کے باوجود قدرت ہم پر مہربان رہی۔ بھارت کی جانب سے نظرانداز کیے جانے والے کھلاڑیوں کے حوصلے پست نہ ہوئے اور پاکستان کو کرکٹ کے نئے شاہین بھی ملتے رہے۔ اس نازک صورت حال میں پی سی پی اور کھلاڑیوں کی محنت رنگ لائی، پاکستان نے بھی پی ایس ایل کے نام سے اسی طرز کا کرکٹ فارمیٹ روشناس کرادیا۔ دشمن کو کیا خبر تھی کہ پی ایس ایل کے چوتھے ایڈیشن میں ہی وہ پذیرائی حاصل ہوجائے گی جو بھارت کو نہ مل سکی۔ پی ایس ایل فور کا پاکستان میں کامیاب انعقاد پاکستانیوں کے لیے انتہائی خوشی کا مقام ہے۔ پاکستانی عوام کی کرکٹ سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ایس ایل فور کی خوشی میں کراچی کی سڑکوں پر عید کا سماں تھا۔ شاہراہوں پر کہیں کھلاڑیوں کی قد آدم تصاویر آویزاں کی گئی تھیں، تو کہیں ایکشن والے کٹ آئوٹ نمایاں تھے، جبکہ مختلف مقامات کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ شہر کے کئی معروف چوراہوں پر لیگ میں شریک ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے قدآدم ہورڈنگز آویزاں کیے گئے تھے، ایف ٹی سی بلڈنگ کے سامنے خصوصی طور پر عارضی ’’پویلین اسٹینڈ‘‘ قائم کیا گیا، جہاں رات کے وقت رنگ برنگی روشنیوں میں کرکٹ کے ترانے شائقینِ کھیل اور گزرنے والوں کے دل پر اثر کرتے رہے، جبکہ اسٹینڈ میں نصب پاور فل اسپیکرز پر کرکٹ کے نغمے شائقین کا جوش اور ولولہ بڑھا رہے تھے۔ صرف یہیں نہیں بلکہ پورے شہر میں کرکٹ کا بخار عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ اس دوران سارے ہی شہر کی مارکیٹوں میں پی ایس ایل کی مناسبت سے کپڑوں کی خریداری عروج پر رہی۔ بچے، بوڑھے اور جوان… سبھی اس خوشی میں برابر کے شریک رہے۔ پی ایس ایل کے کامیاب اختتام پر جہاں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان سمیت ملکی وغیر ملکی کھلاڑیوں اور سول و فوجی شخصیات نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، وہیں چیئرمین پی سی بی احسان مانی کا پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل فور) کے کامیاب انعقاد کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کرکٹ رکنے سے صرف دہشت گردی کی جیت ہوگی۔ دہشت گردی کی وجہ سے کرکٹ کو نہیں روکنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل فور میں کھلاڑیوں نے بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس ایڈیشن میں بڑی تعداد میں نیا ٹیلنٹ سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کے میچز کو بھرپور پذیرائی ملی، لیکن بھارت پہلے دن سے ہی پی ایس ایل کو ناکام بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ بھارت ہماری پی ایس ایل کو تباہ کرنا چاہتا ہے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ہماری لیگ کو نقصان ہوگا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ پی ایس ایل کی کامیابی پر پوری قوم تعریف کی مستحق ہے۔
احسان مانی نے کہا کہ ہم پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واپس لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آئندہ پی ایس ایل کے لیے 4 سے 5 اسٹیڈیم تیار کریں گے۔ کوشش کریں گے کہ آئندہ پی ایس ایل کا ایک میچ حیدرآباد میں بھی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کے میچز کرانا ہمارا عزم تھا۔ پی ایس ایل کے میچز کے انتظامات کے لیے پی سی بی نے بہت محنت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ اور انتظامیہ نے میچز کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ ڈی جی رینجرز اور سندھ حکومت نے ہمیں بہت سپورٹ کیا۔
بے شک اس میں دورائے نہیں کہ بھارت ہماری کرکٹ تباہ کرنا چاہتا ہے، وہ ہمیشہ پاکستان کرکٹ کے خلاف سازشیں کرتا رہا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کھیل کے میدان آباد ہوں۔ وہ آج بھی ہمیں بین الاقوامی کرکٹ سے محروم اور پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے کوششیں کررہا ہے۔ حال ہی میں جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی جہاں ایک طرف خطے کے امن کو تباہ کرنے کی سازش تھی، وہیں دوسری طرف جنگی ماحول پیدا کرکے پاکستان آنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو روکنے کی بھی بھرپور کوشش تھی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بھارتی کرکٹوں کی جانب سے بذریعہ واٹس ایپ غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان آنے سے روکنے کی ناکام کوششیں بھی کی جاتی رہیں … لیکن ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں…‘‘ بھارت کو ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑی۔
پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کے لیے جہاں موجودہ چیئرمین پی سی بی کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات قابلِ تعریف ہیں، وہیں سابقہ چیئرمین نجم سیٹھی کی کاوشوں کا اعتراف نہ کرنا انتہائی زیادتی ہوگی۔ میرے نزدیک پاکستان میں سجائے جانے والے اس کرکٹ میلے کے اصل دولہا نجم سیٹھی ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ میں یہاں سندھ حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، جنہوں نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کراچی کے لیے 210 ملین روپے کی گرانٹ کی منظوری دی، جس میں 75ملین روپے سے ٹرانسپورٹ، پارکنگ ایریاز اور سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے، جبکہ بقایا 135ملین روپے سے سوک ورکس، جنریٹرز کے کرائے، باغبانی، سڑکوں کی سجاوٹ، پارکنگ ایریاز اور راستوں کو خوبصورت بنایا گیا۔ میچ دیکھنے کے لیے آنے والے تماشائیوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے جس کے تحت یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد کے ساتھ گرائونڈ، وفاقی اردو یونیورسٹی گرائونڈ ، بیت المکرم مسجد کے سامنے کتب بازارگرائونڈ، کشمیرروڈ پر چائناگرائونڈ اور کارساز روڈ پر عوام کو کارپارکنگ کی سہولت فراہم کی گئی۔ تماشائیوں کو اسٹیڈیم تک پہنچانے کے لیے شٹل سروس چلائی گئی۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ نے نہ صرف 300گاڑیوں پر مشتمل شٹل سروس چلانے کی منظوری دی بلکہ پارکنگ سے اسٹیڈیم، اور جہاں سے سڑکیں بند رہیں وہاں تک شٹل سروس چلائی۔ پارکنگ ایریاز میں واش روم اور پینے کے پانی کی سہولت کا بھی بندوبست کیا گیا، جبکہ میچ کے اختتام پر 30 سے50 منٹ کے موسیقی پروگرام اور کسی بھی قسم کی افرااتفری سے بچنے کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے۔
یہاں سب سے اہم نقطہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنا ہے، جس کے لیے نیشنل اسٹیڈیم میں ملک کا سب سے بڑا اور وسیع مانیٹرنگ سسٹم لگایا گیا۔ اسٹیڈیم کے اطراف کے علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے جن سے اسٹیڈیم تک آنے والے تمام راستوں کی مانیٹرنگ کی جاتی رہی۔ ایس ایس یو کے جوان اسٹیڈیم کے اندر اور باہر موجود رہے۔ اس کے علاوہ پاکستان آرمی، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سمیت ہر محکمے نے پی ایس ایل کو کامیاب بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔
پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ضرور واپس آئے گی۔

حصہ