ٹائر

480

حسن شجیع
آپ نے بائیک یا گاڑی کا ٹائر دیکھا ہوگا، ہمارا دل اس کی طرح کا ہوتا ہے، مگر کیسے میں آپ کو واضح دلائل سے بتاتا ہوں… اگر گاڑی یا بائیک کا ٹائر پنکچر ہو تو آپ اس پر سفر نہیں کر سکتے نیز وہ ایک نہایت ہی اہم جزو ہے جو کہ پورا وزن برداشت کرتا ہے اور گاڑی کو چلنے میں مدد دیتا ہے… انسان میں دل کا کام بھی کچھ ایسا ہی ہے، اگر دل ہی رخمی ہوگا، اگر اسی پہ یاسیت طاری ہو گی تو یہ گاڑی کیوں کر چلے گی۔
اس طرح جب آپ کی گاڑی یا بائیک کا ٹائر کسی سنسان سڑک پر پنکچر ہوجائے تو آپ کو سڑک پر چلنے والا ہر شخص بتاتا ہے ’’بھائی جان ٹائر پنکچر ہے‘‘ اور اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتا، چاہتے ہوئے بھی وہ آپ کی مدد نہ کرسکے گا جو بھی کرنا ہوگا وہ آپ کو خود ہی کرنا ہوگا، آپ کو راہزنوں کا ڈر بھی ہوتا ہے… میرے مطابق دل کا معاملہ بھی کچھ یوں ہی ہے، اگر آپ کا دل خستہ حال ہے تو تمام دنیا کا مقصد آپ کے عیب بتانا ہوگا، مدد ہرگز ان کا ارادہ نہیں ہوگا، اور اپنے دل کو پھر سہی راہ پہ لانا بھی آپ کا ہی کام ہوگا، اس میں بھی کوئی شخص آپ کا مدد گار نہ ہو گا اور اس سب کے بعد اپنے دل کو تمام منفی خیالات سے بچانا آپ کا ہی کام ہوگا، جیسے کہ راہزن سے نمٹنا آپ کا کام ہے۔
آخری بات یہ کہ جب آپ پنکچر بنانے والے کہ پاس پہنچ جاتے ہیں تو کچھ سکون ملتا ہے اور وہ آپ کا کام کر دیتا ہے ایک مرتبہ پھر آپ کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور اس کے پاس پہنچ کر آپ اس تک پہنچنے کی مشکل کو بھول جاتے ہیں… بالکل اسی طرح جب آپ در در کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے اپنے ٹوٹے دل کے ساتھ ایک اچھے، ہمدرد انسان کہ پاس پہنچ جائیں گے تو وہ آپ کی مدد بھی کرے گا، آپ کی زندگی کو ہموار بھی کرے گا اور آپ کوماضی کے غم و اندوہ سے بھی آزاد کر ے گا… وہ آپ کا اصل مدد گار ہوگا جیسے ایک پنکچر لگانے والا۔ اور ہر شخص ہر کام کا ماہر نہیں ہوتا۔

حصہ