نیوزی لینڈ کی مدبر وزیراعظم کو دنیا سلامِ عقیدت پیش کررہی ہے

509

نصیر احمد سلیمی
اچھی حکمرانی بلند بانگ دعوئوں سے قائم نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ بلا امتیاز تمام شہریوں کے ساتھ مذہب، عقیدے اور نسلی تمیز کے بغیر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے سے جنم لیتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے کرکے دکھایا ہے۔ گزشتہ ہفتے نیوزی لینڈ کے شہر ’’کرائسٹ چرچ‘‘ کی دو مسجدوں میں نمازِ جمعہ کے لیے جمع ہونے والے مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو اس کی خبر ملتے ہی وزیراعظم ’’جیکنڈا اریڈرن ‘‘ نے یکے بعد دیگر دو پریس کانفرنسیں کیں اور دو ٹوک الفاظ میں اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان بھرائی ہوئی آواز میں کرتے ہوئے کہا، ’’جس شخص نے ہمارے خلاف اس بدترین جرم کا ارتکاب کیا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ نیوزی لینڈ میں ایسے تشدد کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ فائرنگ سے براہِ راست متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ مہاجر ہیں یا پھر وہ تارکینِ وطن ہیں۔ جنہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنایا ہے۔ ہاں یہ ان کا گھر ہے اور وہ ہمارا حصہ ہیں۔ آج کا دن نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ ہم پر یہ حملہ اس لیے ہوا ہے کہ ہم یک رنگی کے بجائے نسلی و سماجی رنگا رنگی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’براہِ کرم حملہ آور کی پرتشدد وڈیوز اور اس کی 74 صفحات پر مشتمل اس تحریر کو جو اس نے حملہ کے جواز کے لیے پیش کی ہے شیئر نہ کریں اور اسے آگے نہ بڑھائیں تاکہ اس پر تشدد سوچ کو آکسیجن نہ مل سکے۔‘‘ مزید برآں وزیراعظم نے اپنی پریس کانفرنس میں تمام مقتولوں کو اپنا قرار دیا اور قاتل سے برات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کی اسلحہ کی گن پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ پھر دُنیا نے دیکھا کہ دہشت گردی میں ملوث آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والا سفید فام دہشت گرد اور اس کے سہولت کاروں کو پولیس نے گرفت میں لے کر فوری طور پر قانونی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے اس پر قتلِ عام کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور اس کی حکومت نے اور اس میں آباد تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اس المناک اور دلخراش سانحہ پر جس اعلیٰ کردار اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے دُنیا پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ اگر حکمراں اپنے ملک کے آئین کو بالادست تسلیم کرتا ہو اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ریاست کا سرکاری عقیدہ کیا ہے اور حکمراں کس مذہب کا پیروکار ہے۔
اصل چیز جو دیکھی جاتی ہے وہ ہے کہ وہاں بلا امتیاز نسل اور مذہب کی تمیز کے تمام شہریوں کے لیے انصاف کی فراہمی اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ہیں یا نہیں ہیں اس سانحہ کے بعد نیوزی لینڈ میں آباد تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں نے مظلوم مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جس کردار کا مظاہرہ کیا ہے اس کی سب تحسین کررہے ہیں انہوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں دُعائیہ تقاریب کا انعقاد کیا اور مسلمانوں کے لیے اپنی عبادت گاہوں کے دروازے کھول دیے وہ یہاں نماز ادا کریں اور قیام کریں اور مساجد کے باہر پھولوں کے گل دستوں کے ڈھیر لگاکر ثابت کردیا ہے۔ اس طرح کی ریاست کو ہی حقیقی معنوں میں جمہوری فلاحی ریاست کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نجات کے لیے جس ’بیانیہ‘ کو اپنی حکومت کا موقف قرار دیا ہے۔ دُنیا اسی ’بیانیہ‘ کو اپنائے گی تو تب ہی دُنیا بھر میں ’’ہمہ اقسام‘‘ کے انتہا پسندو اور پرتشدد کارروائیوں پر یقین رکھنے والے دہشت گرد اور ان کے طاقتور سرپرستوں پر دُنیا کی زمین تنگ ہوگی۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ روایتی سیاستدان حکمران نہیں ہے۔ دُنیا بھر کے تمام انصاف پسند اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے ان کو بلندقامت مدبر (اسٹیٹ مین) سیاستدان کے طور پر خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ خدا کرے ساری دُنیا کے طاقتور حکمران بھی اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ ’’دہشت گرد کا کوئی مذہب‘‘ نہیں ہوتا ہے دُوراندیش مدبر سیاست داں اور روایتی سیاستدان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس فرق کو بھی وزیراعظم نیوزی لینڈ نے واضح کرکے بتا دیا ہے۔ 2001 میں امریکا میں 9/11 ہوا تو صدر بش نے دہشت گردی پر اپنے ردِّعمل سے ثابت کیا تھا کہ ان کا روایتی سیاستدان کا ردِّعمل تھا جس نے اپنے گروہی مفادات کے خاطر ساری دُنیا کو دہشت گردی کے عذاب میں جھونکا اور افغانستان سے لے کر عراق سمیت ساری مسلم دُنیا کو ’’ہمہ اقسام‘‘ کے انتہاپسندوں اور مسلح جنگجوئوں سے بھردیا۔ دُنیا کو اس عذاب سے نجات کے لیے قدرت نے ایک نادر موقع فراہم کیا ہے اگر وہ بھی نیوزی لینڈ کی حکومت کی طرح اس ’بیانیہ‘ کو اپنا لیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا تعلق کسی ایک نسل اور ایک مذہب کا نام لینے والوں سے ہوتا ہے۔ اپنا لیا جائے تو دُنیا میں اسلاموفوبیا سے باہر نکلنے کے امکانات پیدا ہوجائیں۔ میڈیا کا کردار اس میں سب سے اہم اور کلیدی ہوگا۔ دُنیا کو اس خوف میں مبتلا بھی مغرب کے طاقتور میڈیا ہائوسز کے مالکان نے ہی کیا ہے جس کا اپنے میڈیا ہائوسز اور بعض انکر پرسن بھی ہوئے تھے کہ جواب بعد از خرابی بسیار کسی حد تک اس سے باہر آئے ہیں۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کا تجزیہ ان کے صحیح تناظر اور صحیح پس منظر میں کرنے لگے ہیں۔
ہم یہ حقیقت کیسے فراموش کرسکتے ہیں اگر پاکستان میں ہر سطح پر اُمور مملکت کی انجام دہی میں آئین پاکستان کی بالادستی تسلیم کرکے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا دیا جائے تو دُنیا میں پاکستان کی سرزمین بھی ’’ہمہ اقسام‘‘ کے انتہا پسندوں اور پرتشدد کارروائیوں پر یقین رکھنے والوں کے لیے اتنی تنک ہوجائے گی کہ ان کا سایہ بھی ہماری سرحدوں کے قریب آتے ہوئے پناہ مانگے گا۔ پاکستان کے قیام کا مقصد وجود ہی ایک ایسی فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کے لیے تھا۔ جہاں اسلام کے ابدی اُصولوں کے مطابق ہر شہری کو بلا امتیاز مذہب ، زبان اور نسل کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر اس کی غماز ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو آزادانہ طور پر اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہوگی اور ان کے جان و مال کی حفاظت کی ضامن بھی ریاست کی ہوگی۔ ہمارے سیکولر دوست قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کی جو چاہیں توجیح کریں۔ حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحرک اور فعال کردار ادا کرنے والے معروف محقق پروفیسر شریف المجاہد سمیت وہ تمام بزرگ جو قائداعظم کے شریک سفر تھے۔ 11 اگست کی تقریر کو ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے تصور سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے کلچر نے آئین پاکستان پر اس کی رُوح اور منشا کے مطابق عمل نہ کرنے کے باعث فروغ پایا ہے۔ قائداعظمؒ کے نزدیک اگر پاکستان کو سیکولر ریاست ہی بنانا ہوتا تو انہیں قیامِ پاکستان کے اعلان سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے دستور کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے لیے اس کمیٹی کو قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی جو علامہ سیّد سلمان ندوی (مرحوم) کی سربراہی میں قائم کی تھی۔ اس کمیٹی میں ایسے جید اسلامی اسکالرز کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ جو حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے شریک سفر نہ تھے۔ ان میں ایک اہم اور بڑا نام سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تھا جنہیں اس کا باقاعدہ ممبر بنایا گیا تھا۔ جہاں تک معاملہ ہے قائداعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی اور ان کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ پاکستان کے آئین نے اپنے تمام غیر مسلم شہریوں کو مکمل آزادی کی ضمانت فراہم کی ہے۔ پاکستان کا آئین اپنے غیر مسلم شہریوں کو سیکولر بھارت کے مقابلے میں زیادہ نمائندگی دیتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کو براہِ راست انتخاب میں حصہ لے کر منتخب ہونے کا حق بھی ہے اور ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ میں ان کے لیے مخصوص نشستیں بھی موجود ہیں جس کے ذریعہ ان کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے پاکستان اپنی تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود بھارت کی طرح ریاستی سطح پر اپنے غیر مسلم شہریوں کے خلاف کسی پرتشدد مہم کا حصہ نہیں بنا ہے۔ 1947 میں بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے ردِّعمل میں کراچی میں برنس روڈ کے علاقے میں غیر مسلم شہریوں کی کچھ املاک پر حملہ کا واقعہ پیش آیا تو قائداعظم اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے تھے اور متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کی اور معذرت بھی کی تھی۔ وزیراعظم (شہید ملت) خان لیاقت علی خان نے بھی وہاں کا دورہ کیا تھا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے تھے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اس معاملہ میں پاکستانی قوم اور پاکستانی حکومت نے کبھی وہ روش نہیں اپنائی جو بھارت میں مسلمانوں کے لیے ساتھ روا رکھی جاتی ہے۔
اس معاملہ میں بانی پاکستان اور دیگر بانیان پاکستان کا ویژن بہت واضح رہا ہے۔ اللہ کرے کہ ہماری تمام سیاسی قوتیں اور آئین کے تحت قائم ریاستی ادارے اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ پاکستان ایک سیاسی عمل اور سیاسی جدوجہد کے ذریعہ وجود میں آیا تھا۔ اس کی بقا سلامتی اور معاشی ترقی کی منزل حاصل کرنے کا دارومدار سیاسی عمل اور سیاسی کلچر کو فروغ دینے میں مضمر ہے اور یہاں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ممکن ہوگی۔ اسلام کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق حکمرانی قائم ہوگی تو خلق خدا کے مصائب و مشکلات میں کمی آئے گی اور پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا۔ جس سے دُنیا میں اس کا وقار بڑھے گا اور پاکستان معاشی بحران سے نکلے گا اور پاکستان اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے قابل ہوگا۔ تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ ہمارے ہاں بھی وہ روایات مستحکم ہوپائیں جس کے بعد ہی پاکستان اپنے بانیان کے ویژن کے مطابق حقیقی معنوں میں ایک فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر دنیا میں اپنا وہ کردار کرپائے گا جس کا خواب مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔

حصہ