عورت مارچ

745

تنویراللہ خان
ہرسال دنیا بھر میں8 مارچ کو ویمن ڈے منایا جاتا ہے۔ جس ادارے یا افراد نے اس دن کو خواتین کا دن قرار دیا ہے ظاہر ہے وہ اپنے ہی مقاصد اور پروگرام کو آگے بڑھائیں گے۔ اگر مسلمانوں کے او آئی سی جیسے اداروں نے اس ضمن میں کچھ کام کیا ہوتا تو اسلام کے طرزِ معاشرت سے دُنیا کو آگہی دی جاسکتی تھی۔ دنیا کے معاملات میں خلا نہیں رہتا، کسی نہ کسی کو جگہ پُر کرنی ہوتی ہے، جو مستعد اور چوکس ہوتا ہے وہ یہ کر گزرتا ہے، ہم جیسے بے عملوں کا کام محض ردعمل ہے۔
اِس برس پاکستان میں ویمن ڈے کے موقع پرکراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، حیدرآباد، لاڑکانہ، میں خواتین و حضرات کے مظاہرے ہوئے۔ مظاہرے کرنے والے کیوں کہ پاکستانی معاشرے اور عورت کے حقیقی مسائل سے واقف ہیں، لہٰذا پلے کارڈز پر ایسے ایسے نعرے لکھ لائے کہ بہت سے پابندی بیزار لبرل بھی ان کا ساتھ دینے سے کترا رہے ہیں۔ لہٰذا مظاہرین کی جانب سے اب اس عجیب مؤقف یا ڈھٹائی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ چلو ’’ہمارا ذکر تو ہوا، برا ہی سہی‘‘۔ برابری بلکہ اپنی بربادی کا مطالبہ لے کر اُٹھنے والے خواتین و حضرات مطالبوں کی بھد بننے کے بعد اپنے قابلِ ذکر ہونے پر کھوکھلے فخر کا اظہار کررہے ہیں۔
فحش نعروں کو ایک طرف رہنے دیں، سنجیدہ نعرے ہمیں بھی بہت سنجیدگی کی دعوت دے رہے ہیں، مثلاً ’’آدھی نہ ادھوری ہوں، برابر اور پوری ہوں‘‘… ’’میں آوارہ، میں بدچلن‘‘… ’’تمیز جائے بھاڑ میں‘‘… ’’رشتے نہیں حقوق چاہئیں‘‘… ’’اکیلی آوارہ آزاد‘‘… ’’ہم بے شرم ہی سہی‘‘…’’ڈرتی تو میں اپنے باپ سے بھی نہیں‘‘… ’’میری شادی نہیں آزادی کی فکر کرو‘‘… ’’شادی کے علاوہ اور بھی ضروری کام ہیں‘‘۔
ان تمام نعروں میں اسلام پر ضرب لگائی گئی ہے۔ ’’میں پوری ہوں، لہٰذا آدھی گواہی، وراثت میں کم حصہ، مرد کا قوام ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟‘‘
اسلامی معاشرت میں حیاء مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے ’’جس میں حیا نہیں پھر وہ جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ لہٰذا جو عورت یا مرد آوارگی اور بدچلنی کو فخر بنا لے اس کے نزدیک گناہ ثواب، برائی بھلائی میں کیا تمیز رہے گی؟
’’تمیز جائے بھاڑ میں‘‘۔ ’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں‘‘۔ اخلاق کے اظہار کا نام ہی تمیز ہے۔ دیگر نعرے بھی دراصل ہمارے مذہب اور معاشرت کی بنیادوں کو ڈھانے کے مطالبات ہیں۔
اپنی آخری عمر کو پہنچے ہوئے، مظاہرے میں شریک محمد مظاہر فرما رہے تھے کہ جب تک آپ نکاح کو ختم نہیں کریں گے ظلم اور تشدد جاری رہے گا۔ اُن کے مطابق نکاح ہی مسائل کی جڑ ہے۔
اسلام آباد کے عورت مارچ میں شریک سلیم فاروقی کہتے ہیں کہ عورت مارچ صرف چند گھنٹوں یا ایک دن کا نہیں بلکہ یہ ایک بڑی مہم کا حصہ ہے جو آگے بڑھے گی۔
ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ یہ عورت مارچ وقتی مسئلہ نہیں کہ جسے نظرانداز کردیا جائے، لہٰذا اس سے کسی بھی بہانے آنکھ چُرانا مناسب نہیں ہے۔
نکاح کے معاملے میں اسلام نے عورت کو مکمل اختیار دیا ہے۔ لڑکے سے پہلے وکیل اور گواہ آخری لمحات میں خود جاکر لڑکی کی رضامندی لیتے ہیں، اور یہ رضامندی بآوازِ بلند لی جاتی ہے۔ اگر کہیں ایسا نہیں ہورہا تو یہ ہماری اپنی بے عملی اور خیانت ہے۔ لہٰذا نکاح کو مسائل کی وجہ قرار دینا عورت سے ہمدردی نہیں۔ نکاح خاندان کی بنیاد ہے، بے نکاح معاشرے خاندان سے محروم ہوچکے ہیں۔
ایک تجربے کو آپ کتنی ہی بار دہرائیں، نتیجہ وہی نکلے گا جو پہلے تجربے سے برآمد ہوا تھا۔ یورپ نے عورت اور مرد کے تعلق کو ہر شرط اور ضابطے سے آزاد کیا تو وہ اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نکاح کے بعد بھی بعض مرد اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، لہٰذا نکاح ختم کرنے کی خواہش غیر ذمہ دار، بے حس مردوں کا مطالبہ تو ہوسکتا ہے، عورت کا اس میں کوئی بھلا نہیں ہے۔
عورت مارچ کی خواتین کا بچہ پیدا کرنے سے بیزاری کا اظہار بھی دراصل اپنے خلاف مقدمہ کھڑا کرنے کی بات ہے۔ کیا کوئی متبادل ان خواتین کے پاس ہے؟ اس مطالبے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اپنے لیے ہی محفوظ اور مخصوص رکھنے کے خواہش مند چاہتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ سات ارب کی آبادی پچاس کروڑ کی رہ جائے تاکہ ان کی آئندہ نسلیں مزید مزے سے زندگی انجوائے کرسکیں۔
خواتین مارچ میں عورتوں کو وراثت میں حصے کی ادائیگی کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اسلام نے عورت کو جو حصہ وراثت میں دیا ہے یہ حق نہ دینے میں مذہبی و غیر مذہبی، سیکولر و بنیاد پرست سب کا ایک سا عمل ہے۔ لہٰذا مطالبہ یہ کیا جانا چاہیے کہ عورت کو وراثت میں حق دیا جائے۔ آج بھی عورت کی قرآن سے شادی کرکے اُسے قرآن کے ساتھ زندگی بھر کے لیے ایک کمرے میں محدود کردیا جاتا ہے۔ ان ظالمانہ رسومات کو ختم کرنے اور اس کے لیے قانون سازی اور اس پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ ہونا چاہیے۔
تعلیم ہر انسان کا حق ہے، اس میں عورت مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ شبعہ جات پر بات ہوسکتی ہے، مثلاً تجربے سے ثابت ہوا کہ لڑکیاں ڈاکٹر بن کر بھی عملی زندگی میں ڈاکٹر نہیں رہتیں، لہٰذا اس پر کچھ اصول و ضابطے بنائے جاسکتے ہیں، لیکن عام طور پر لڑکی کو تعلیمی لحاظ سے زیادہ مضبوط بنانا چاہیے، تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کسی کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی مدد آپ کرسکے، یا اپنے گھر کی مشکل میں آسانی کا سبب بن سکے۔
ہمارے معاشرے میں بعض مرد اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عورت محنت مشقت کرکے چند پیسے کماتی ہے تو اُس کا نشئی، جواری، نکما مرد اُس سے وہ بھی چھین لیتا ہے۔ لہٰذا ایسے قوانین اور ماحول بنایا جائے کہ مردوں کے لیے یہ ظلم کرنا ممکن نہ ہو۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کا استحصال خواتین ہی کرتی ہیں، اس پر خواتین خود اپنی گرفت کریں۔ ان ماسیوں کو معقول اجرت اور دیگر سہولتوں کے لیے قانون سازی، اس پر عمل درآمد اور ایسا ماحول بنایا جائے کہ اس کمزور طبقے کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو روکا جاسکے۔ کاش کوئی این جی او ’’ماسی ڈے‘‘ بھی مناتی۔
پاکستان میں جو حالت قانون پر عمل درآمد کی ہے اور جو بے حسی اور غفلت عمل درآمد کروانے والوں کی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ عورت کو جو کچھ تحفظ ہمارے ملک میں حاصل ہے وہ اسلام کی وجہ سے ہی ہے۔ یورپ میں اگر خاندان کا ادارہ ختم ہوگیا ہے تو حکومتی ادارے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی عورت راہ چلتے پولیس والے سے شکایت کرے کہ فلاں مرد مجھے ہراساں کررہا ہے تو اُس کی داد رسی کی جاتی ہے۔ ہم اپنی پولیس کا حال دیکھ لیں، وہ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت سے اس طرح کے سوالات کرتے ہیں کہ کوئی مظلوم ان کے پاس جانے کی ہمت نہیں کرتا۔
دور دراز علاقوں میں آج بھی زچگی روایتی دائی سے کروائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے شہروں کا حال بھی برا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے برآمدوں میں حاملہ خواتیں پڑی نظر آتی ہیں۔ عورت مارچ میں شریک خواتین اپنے رنگ روپ اورلباس سے خوشحال نظر آتی تھیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ انھوں نے میٹرنٹی ہوم بنانے اورسنوارنے کا کام اپنے ذمہ لے لیا ہوتا۔
خواتین مارچ کو نہ ہی نظرانداز کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کے جواب میں بڑا مظاہرہ کرنے کو کافی سمجھنا چاہیے۔ اس مارچ کے پلے کارڈز پر جو مطالبات درج تھے ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے سوچنے سمجھنے والوں کو اپنا بیان تیار اور عام کرنا چاہیے۔ یہ موضوع عجلت، بے صبری، محض ردعمل کے بجائے تحمل اور مستقل کام کا تقاضا کرتا ہے۔
مارچ میں شریک خواتین سے گزارش ہے کہ، ہر ملک اور معاشرے میں کچھ سیو کارنر یا گوشۂ عافیت ہوتے ہیں، مغرب نے اپنی نفسانی اور مالی خواہشات سے مغلوب ہوکر اگر اپنے خاندانی نظام کو برباد کرلیا ہے تو وہاں کی حکومتوں نے اولڈ ہائوسز اور مالی امداد کے ذریعے اور قوانین و اداروں کے ذریعے اس کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے جیسے کمزور معاشی حالات رکھنے والے ملک اور عوام کے لیے خاندان ایک پناہ گاہ ہے جہاں کمزور، ناخواندہ، بے ہنر عورتوں کو بہن، بیٹی، ماں، بیوی کی صورت میں پناہ مل جاتی ہے اور اکثر جہگوں پر ان کی عزت و تکریم بھی ہوتی ہے، اسی طرح ماں باپ کا بھی بھرے پرے خاندان میں آخری وقت اچھا گزر جاتا ہے اور بچوں کو بھی عملی زندگی کے معرکے میں جانے کی تیاری کا وقت مل جاتا ہے۔ عورت مارچ میں شریک خواتین بھی پاکستانی ہوں گی اور بہت ممکن ہے کہ ان کے پاس کسی یورپی ملک کی شہریت بھی ہو، لہٰذا وہ وہاں جابسیں، پاکستانی عورت کو لاوارث کرنے کی کوشش سے باز آجائیں۔

حصہ